"AIZ" (space) message & send to 7575

جنسی جرائم کا خاتمہ

پاکستان ایک عرصے سے مختلف جرائم کی لپیٹ میں ہے۔ ملک میں چوری‘ ڈکیتی‘ سٹریٹ کرائم کی وارداتیں عام ہیں۔ ان وارداتوں کے ساتھ ساتھ ایک شرمناک معاشرتی المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں وقفے وقفے سے جنسی جرائم کے واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں۔ کچھ برس قبل قصور میں ایک معصوم بچی زینب کو برائی کے ارتکاب کے بعد قتل کر دیا گیا‘ چند ماہ قبل کھڈیاں میں حافظ سمیع الرحمن کو برائی سے انکار کرنے پر گولی مار کر شہید کر دیا گیا‘ اسی طرح حجرہ شاہ مقیم میں ایک کم سن بچی کو برائی کا نشانہ بنانے کے بعد اس کو قتل کرکے لاش کو کھیتوں میں پھینک دیا گیا۔ یہ تمام واقعات معاشرے کے اخلاقی انحطاط کے آئینہ دار ہیں۔ ماضی میں ہونے والے واقعات میں بالعموم جنسی درندگی کا نشانہ بننے والے معصوم بچے تھے‘ لیکن چند دن قبل لاہور موٹر وے پر ہونے والاواقعہ اس اعتبار سے انتہائی افسوس ناک ہے کہ اس میں ایک جنسی درندگی کا نشانہ بننے والی خاتون خود بچوں کی ماں ہے۔ بتایا گیا ہے کہ خاتون فرانس سے اپنے بچوں کو دینی تعلیم وتربیت دلانے کے لیے پاکستان منتقل ہوئیں تھیں۔ موٹر وے پر پٹرول ختم ہو جانے کی وجہ سے مزید سفر کرنا ممکن نہ رہا‘ بدقماش نوجوانوں نے اس موقع پر گاڑی کے شیشے توڑ کر خاتون کو درندگی کا نشانہ بنایا۔ یہ تمام واقعات معاشرے میں جاری جرائم کی عکاسی کرتے ہیں۔ جرائم کے بعض واقعات ایسے ہیں جو رپورٹ ہو جاتے ہیں اور جو واقعات رپورٹ نہیں ہوتے ان کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ معاشرے میں جنسی جرائم کی روک تھام کے لیے مختلف طبقات پرا ہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے: 
1۔والدین کی ذمہ داریاں: اپنی اولاد کاتحفظ کرنا ‘بچوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنا اور ا ن کے معمولات پر نظر رکھنا والدین کی اہم ذمہ داری ہے۔ موبائل فون اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے مخرب الاخلاق لٹریچر‘ تصاویر اور ویڈیوز کی انٹرنیٹ پر بھرمار ہے۔ اس مواد کو دیکھنے کی وجہ سے بچوں کے کچے اذہان پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ا ور ان میں جنسی ہیجان اور تشدد کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔ والدین کو بچوں اور ان کے دوست احباب پر گہری نظر رکھنی چاہیے اور ان کے رجحانات اور مشاغل سے باخبر رہنا چاہیے۔ اس کے ساتھ عمر بڑھنے پر اپنی بچیوں کو پردے کی تلقین بھی کرنی چاہیے۔بعض گھروں میں بچیوں کے پردے پر تو توجہ دی جاتی ہے لیکن بچوں کی اخلاقی تربیت پر توجہ نہیں دی جاتی۔ شریعت اسلامیہ میں جہاں پر عورت کو حجاب کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہیں پر مرد کو بھی اپنی نگاہوں کو جھکانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر29سے 31 میں ان احکامات کو بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان فرماتے ہیں: ''مومن مردوں سے کہہ دیجئے (کہ) وہ نیچی رکھیں اپنی نگاہیں اور وہ حفاظت کریں اپنی شرمگاہوں کی یہ زیادہ پاکیزہ ہے ان کے لیے بے شک اللہ خوب خبردار ہے اس سے جو وہ کرتے ہیں۔ اور کہہ دیجئے مومن عورتوں سے (بھی) (کہ) وہ نیچی رکھیں اپنی نگاہیں اور وہ حفاظت کریں اپنی شرمگاہوں کی اور نہ وہ ظاہر کریں اپنی زینت کو مگر جو (خود) ظاہر ہو جائے اس میں سے اور چاہیے کہ وہ ڈالے رکھیں اپنی اوڑھنیوں کو اپنے گریبانوں پر‘ اور نہ وہ ظاہر کریں اپنی زینت (بناؤ سنگھار) کو مگر اپنے خاوندوں کے لیے یااپنے باپوں (کے لیے) یا اپنے خاوندوں کے باپوں (کے لیے) یا اپنے بیٹوں (کے لیے) یا اپنے شوہروں کے (دیگر) بیٹوں (کے لیے)یا اپنے بھائیوں (کے لیے) یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں (بھتیجوں کے لیے) یا اپنے بہنوں کے بیٹوں (بھانجوں کے لیے) یا اپنی عورتوں (کے لیے) یا (ان کے لیے) جن کے مالک بنے ان کے دائیں ہاتھ (یعنی زرخرید غلاموں کے لیے) یا تابع رہنے والوں (خدمت گار) مردوں میں سے (جو) شہوت والے نہیں (ان کے لیے) یا ان بچوں (کے لیے) جو نہیںواقف ہوئے عورتوں کی چھپی باتوں پر اور نہ وہ مارا کریں اپنے پاؤں (زمین پر) تاکہ جانا جائے وہ (جو)چھپاتی ہیں اپنی زینت سے ‘‘۔اسی طرح اپنی اولاد کا بروقت نکاح کرنا بھی والدین کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ معاشرے میں بہت سے لوگ جہیز ودیگر رسومات کی وجہ سے شادیاں کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ معاشرے میں نکاح کو آسان بنانا یقینا برائی کی روک تھام کے لیے انتہائی مفید ہے ۔قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نکاح معیشت کی تقویت کا سبب بھی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر 32میں ارشاد فرماتے ہیں :''اور نکاح کرو بے نکاح (مردوں اور عورتوں کا) اپنے میں سے اور (ان کا جو ) نیک ہیں تمہارے غلاموں میں سے اور تمہاری لونڈیوں (میں سے) اگر وہ ہوں گے محتاج (تو) غنی کر دے گا انہیں اللہ اپنے فضل سے‘‘۔ اگر والدین اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طریقے سے نبھائیں تو معاشرے سے بے راہ روی کا بہت حد تک خاتمہ ہو سکتا ہے۔ 
2۔ علماء کی ذمہ داریاں: علماء کو منبر ومحراب کو اخلاقی اقدار اور حیا کے فروغ کے لیے استعمال کرنا چاہیے اور لوگوں کو بدکرداری کی سنگینی سے آگاہ کرنا چاہیے کہ یہ اسلامی شریعت میں نہایت نا پسندیدہ عمل ہے۔ بہت سے لوگ علماء کے وعظ اور نصیحت سن کر اپنے اخلاق کی اصلاح کرتے اور تزکیہ طہارت کے راستے کو اختیارکر لیتے ہیں۔موجودہ معاشرتی صورتحال کو دیکھتے ہوئے علماء کو اس موضوع پر تسلسل سے گفتگو کرنے کی ضرورت ہے۔ 
3۔ ریاست اور اداروں کی ذمہ داریاں : جہاں پر والدین اور علماء کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی ضرورت ہے وہیں پر ریاست کو بھی اپنی ذمہ داری کو ادا کرنا چاہیے۔ اسلامی شریعت میں سنگین نوعیت کے جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے کڑی سزاؤں کو مقرر کیا گیا ہے۔ سورہ نور کی آیت نمبر 2میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :''زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد پس کوڑے مارو ان دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے اور نہ پکڑے تمہیں ان دونوں کے متعلق نرمی اللہ کے دین میںاگر ہو تم ایمان لاتے اللہ اور یوم آخرت پر اور چاہیے کہ حاضر ہو ان دونوں کی سزا کے وقت مومنوں میں سے ایک گروہ‘‘۔احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر برائی کا ارتکاب کرنے والے شادی شدہ ہوں تو ان کے لیے سنگسار کی سزا کو مقرر کیا گیا ہے ۔ اسی طرح اگر جرم کی سنگینی فساد فی الارض کے باب میں داخل ہو جائے تو اس کے لیے بھی اسلامی شریعت میں کڑی سزاؤں کو مقرر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 33میںارشاد فرماتے ہیں :''بے شک سزا ان لوگوں کی جو جنگ کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول سے اور کوشش کرتے ہیں زمین میںفساد مچانے کی (یہ ہے) کہ وہ قتل کر دیے جائیں یا سولی پر چڑھا دیے جائیں یا کاٹ دیے جائیں ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف (سمتوں) سے یا وہ نکال دیے جائیں زمین (ملک) سے یہ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں بڑا عذاب ہے۔‘‘ 
احادیث مبارکہ میںسنگین جرائم پر دی جانے والی سزاؤں کا بڑی صراحت سے ذکر ملتا ہے۔ اس حوالے سے دو اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ کچھ لوگ عکل یا عرینہ (قبیلوں) کے مدینہ میں آئے اور بیمار ہو گئے۔ رسول اللہﷺ نے انہیں لقاح میں جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ وہاں اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پئیں؛ چنانچہ وہ لقاح چلے گئے اور جب اچھے ہو گئے تو رسول اللہﷺ کے چرواہے کو قتل کر کے وہ جانوروں کو ہانک کر لے گئے۔ علی الصبح رسول اللہﷺ کے پاس (اس واقعہ کی) خبر آئی۔ تو آپ نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے۔ دن چڑھے وہ نبی کریم ﷺکی خدمت میں پکڑ کر لائے گئے۔ آپ کے حکم کے مطابق ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے گئے اور آنکھوں میں گرم سلاخیں پھیر دی گئیں اور (مدینہ کی) پتھریلی زمین میں ڈال دئیے گئے۔ (پیاس کی شدت سے) وہ پانی مانگتے تھے مگر انہیں پانی نہیں دیا جاتا تھا۔ ابوقلابہ نے (ان کے جرم کی سنگینی ظاہر کرتے ہوئے) کہا کہ ان لوگوں نے چوری کی اور چرواہوں کو قتل کیا اور (آخر) ایمان سے پھر گئے اور اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی۔
2۔صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا تھا۔ (اس میں کچھ جان باقی تھی) اس سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ یہ کس نے کیا ہے؟ کیا فلاں نے‘ فلاں نے؟ جب اس یہودی کا نام آیا تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا (کہ ہاں) یہودی پکڑا گیا اور اس نے بھی جرم کا اقرار کر لیا‘ نبی کریم ﷺ نے حکم دیا اور اس کا سر بھی دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا۔
مذکورہ بالا احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سنگین نوعیت کا جرم کرنے والوں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ پاکستان میں ایک عرصے سے مجرموں کے حوالے سے ٹھوس لائحہ عمل نہیں اپنایا گیا۔ اسی طرح مقدمات بھی التوا کا شکار ہوجاتے ہیں اور جرائم کرنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔ اگر مجرموں کو قرار واقعی سزا مل جائے تو معاشرے سے بے راہ روی کے خاتمے میں آسانی ہو سکتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل قومی اسمبلی میں اس قرار داد کو بھی منظور کیا گیا تھا کہ معصوم بچوں سے برائی کا ارتکاب کرکے ان کو قتل کرنے والوں کو سزائے موت دی جائے۔ اس وقت ملک میں اس قانون کے عملی نفاذ کی اشد ضرورت ہے۔برائی کی روک تھام کیلئے ریاست کو اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے تاکہ ہمارے معاشرے سے برائی کا خاتمہ ہو اورہمارا ملک صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست کی شکل اختیار کر جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں