نبی کریمﷺ کی بعثت سے قبل جزیرۃ العرب میں مختلف طرح کی اعتقادی ‘ فکری‘ سماجی اور اخلاقی برائیاں پائی جاتی تھیں۔ معمولی معمولی اختلاف اور اَنا کی تسکین کے لیے لڑائی جھگڑے عام تھے۔ ان لڑائی جھگڑوں کے نتیجے میں قبائل اور افراد کے درمیان عرصہ دراز تک جنگ و جدل اور قتل و غارت گری کا بازار گرم رہتا تھا۔ لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے۔ شراب اور منشیات کا کاروبارپورے عروج پر تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ فسق وفجور‘ بدکرداری اور بے حیائی عام تھی۔ نبی کریمﷺ نے معاشرے سے ان تمام قباحتوں کا خاتمہ کر دیا۔ اس حوالے سے آپ ﷺ نے تین طرح کے اقدامات کیے۔ ان اقدامات کی تفصیل درج ذیل ہے:
1۔ تعلیم و تزکیہ: آپﷺنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کوزیور ِتعلیم سے آراستہ کیا۔ ان کو نیکی کی اہمیت اور گناہوں کی سنگینی کا احساس دلایا۔ آپﷺ کی تعلیم کے نتیجے میں معاشرے میں ایک ایسا انقلاب رونما ہوا کہ اہلِ اسلام نے پاکیزگی اور طہارت کو اپنا ہدف بنالیا اور تمام غلط عادات اور رسومات سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ معاشرہ شراب‘ بے حیائی‘ قتل وغارت گری سے پاک ہو گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کے تعلیم وتزکیہ کا ذکر قرآن مجید کے مختلف مقامات پر کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 164میں ارشاد فرماتے ہیں : ''البتہ تحقیق احسان کیا ہے اللہ نے مومنوں پر جب بھیجا اُن میں ایک رسول اُنہی میں سے (جو) پڑھتا ہے اُن پر اُس کی آیات اورا نہیں پاک کرتا ہے (شرک سے) اور تعلیم دیتا ہے اُنہیں کتاب وحکمت کی اورا گرچہ تھے وہ اس سے قبل یقینا واضح گمراہی میں‘‘۔
2۔امر بالمعروف ونہی عن المنکر: تعلیم وتزکیہ کے ساتھ ساتھ نیکی کا حکم دینا اوربرائی سے روکنا بھی معاشرے سے جرائم کے خاتمے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 110میں ارشاد فرمایا :''ہو تم بہترین اُمت (جسے) نکالا (پیدا کیا) گیا ہے لوگوں (کی اصلاح) کے لیے (کہا) تم حکم دیتے ہو نیکی کا اور تم روکتے ہو برائی سے اور تم ایمان لاتے ہو اللہ پراور اگر ایمان لے آتے اہل کتاب (تو) یقینا بہتر ہوتا ان کے لیے اُن میں سے کچھ ایمان لے آئے ہیں اور اُن کی اکثریت نافرمان ہے‘‘۔
صحیح مسلم میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ جو تم میں سے برائی دیکھتا ہے تو اس کو ہاتھ سے تبدیل کرے‘ اگر اس چیز پر استطاعت نہ رکھتا ہو تو زبان سے اور اس کی بھی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل سے۔ اور یہ ایمان کا سب سے کم درجہ ہے۔
اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب کوئی برائی دیکھی جائے تو اس کو فوراً سے پہلے روکنا چاہیے۔ برائی کو نہ روکنے کے نتیجے میں برائی معاشرے میں سرایت کرتی چلی جاتی ہے اور اس کی لپیٹ میں معاشرے کے تمام طبقات آتے جاتے ہیں۔ برائی کو روکنے کے نتیجے میں معاشرے میں برائی کے خلاف مزاحمت برقرار رہتی ہے اور معاشرے میں خیر کا کام پھیلتا اور شر کا کام سکڑتا ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
صحیح بخاری میں نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ کی حدود پر قائم رہنے والے اور اس میں گھس جانے والے (یعنی خلاف کرنے والے) کی مثال ایسے لوگوں کی سی ہے جنہوں نے ایک کشتی کے سلسلے میں قرعہ ڈالا۔ جس کے نتیجے میں بعض لوگوں کو کشتی کے اوپر کا حصہ اور بعض کو نیچے کا۔ پس جو لوگ نیچے والے تھے‘ انہیں (دریا سے) پانی لینے کے لیے اوپر والوں کے پاس سے گزرنا پڑتا۔ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم اپنے ہی حصہ میں ایک سوراخ کر لیں تاکہ اوپر والوں کو ہم کوئی تکلیف نہ دیں۔ اب اگر اوپر والے بھی نیچے والوں کو من مانی کرنے دیں گے تو کشتی والے تمام ہلاک ہو جائیں گے اور اگر اوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ پکڑ لیں تو یہ خود بھی بچیں گے اور ساری کشتی بھی بچ جائے گی۔اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے نتیجے میں بھی معاشرے سے جرائم کا خاتمہ ہوتا ہے۔
3۔ قوانین کی عملداری: ریاست کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ معاشرے میں خیر کے کام کو عام کرنے کے لیے باقاعدہ طور پر احکامات کو جاری کرے۔ تاکہ معاشرے سے شر کو ختم کیا جا سکے۔ نبی کریمﷺ کے عہدِ مبارک میں جب شراب کی حرمت کاحکم آیا تو مدینہ طیبہ میں رہنے والے لوگوں نے شراب کے جاموں کو توڑ دیا تھا۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
صحیح بخاری میں حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک منادی سے ندا کروائی کہ شراب حرام ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا (یہ سنتے ہی) ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ باہر لے جا کر اس شراب کو بہا دے؛ چنانچہ میں نے باہر نکل کر ساری شراب بہا دی۔ شراب مدینہ کی گلیوں میں بہنے لگی‘ تو بعض لوگوں نے کہا‘ یوں معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ اس حالت میں قتل کر دیے گئے ہیں کہ شراب ان کے پیٹ میں موجود تھی۔
قانون کی عملداری کے حوالے سے نبی کریمﷺ کے عہدِ مبارک میں کسی کی سفارش کو قبول نہیں کیاجاتا تھا اور بڑے سے بڑے خاندان سے تعلق رکھنے والے مجرم پر بھی شرعی سزاؤں کو لاگو کیا جاتا تھا۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ھے کہ مخزومیہ خاتون (فاطمہ بنت اسود) جس نے (غزوہ فتح کے موقع پر) چوری کر لی تھی‘ اس کے معاملے نے قریش کو فکر میں ڈال دیا۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس معاملے پر رسول اللہﷺ سے گفتگو کون کرے! آخر یہ طے پایا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما آپﷺکو بہت عزیز ہیں۔ ان کے سوا اور کوئی اس کی ہمت نہیں کر سکتا؛ چنانچہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپﷺ سے اس بارے میں کچھ کہا تو آپﷺ نے فرمایا: اے اسامہ! کیا تُو اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں مجھ سے سفارش کرتا ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا (جس میں) آپﷺ نے فرمایا: پچھلی بہت سی امتیں اس لیے ہلاک ہو گئیں کہ جب ان کا کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے اور اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمدبھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔
نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ میں جس وقت جرائم کی بیخ کنی کے لیے سزاؤں کولاگو کیا گیا تو معاشرے سے جرائم کا مکمل طور پر خاتمہ ہو گیا تھا۔ بعض لوگ مختلف وجوہات کی بنیادپر کڑی سزاؤں پر اعتراض کرتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے یہ اعتراضات بلاجوازہیں۔ کڑی سزاؤں کا مقصد مجرموں کی حوصلہ شکنی اورمعاشرے کو جرائم سے پاک کرنا ہے۔ نبی کریمﷺ کے عہد مبارک میں بھی کڑی سزائیں دی گئیں تھی ۔
صحیح بخاری میں حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ کچھ لوگ عکل یا عرینہ (قبیلوں) کے مدینہ میں آئے اور بیمار ہو گئے۔ رسول اللہﷺ نے انہیں لقاح میں جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ وہاں اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پئیں؛ چنانچہ وہ لقاح چلے گئے اور جب اچھے ہو گئے تو رسول اللہﷺ کے چرواہے کو قتل کر کے وہ جانوروں کو ہانک کر لے گئے۔ علی الصبح رسول اللہﷺ کے پاس (اس واقعہ کی) خبر آئی۔ تو آپ نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے۔ دن چڑھے وہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں پکڑ کر لائے گئے۔ آپ کے حکم کے مطابق ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے گئے اور آنکھوں میں گرم سلاخیں پھیر دی گئیں اور (مدینہ کی) پتھریلی زمین میں ڈال دیے گئے۔ (پیاس کی شدت سے) وہ پانی مانگتے تھے مگر انہیں پانی نہیں دیا جاتا تھا۔ ابوقلابہ نے (ان کے جرم کی سنگینی ظاہر کرتے ہوئے) کہا کہ ان لوگوں نے چوری کی اور چرواہوں کو قتل کیا اور (آخر) ایمان سے پھر گئے اور اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی۔
اسلام میں جرائم کے خاتمے اور بیخ کنی کے لیے حدودو تعزیرات کا ایک پورا نظام موجود ہے۔ المیہ ہے کہ اس نظام کے ہوتے ہوئے بھی معاشرے میں نئی سزاؤں کے حوالے سے گفتگو جاری رہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی مقرر کردہ سزائیں جرائم کی بیخ کنی کے لیے کافی ہیں؛ چنانچہ ہمیں نئی سزاؤں کا اختراع کرنے کی بجائے اسلام کی بیان کردہ سزاؤں پر اکتفا کرنا چاہیے‘اگران سزاؤں کو معاشرے میں لاگو کر دیا جائے تو معاشرہ جرائم اور فساد سے پاک ہو کر امن وسکون کا گہوارہ بن سکتا ہے۔