چند روز قبل منصورہ کے دوست مولانا عبدالرحمن نے مجھ سے رابطہ کیا اور جمعیت اتحاد علماء کے سربراہ مولانا عبدالمالک کا پیغام پہنچایا کہ جمعیت اتحاد علماء کے زیر اہتمام منصورہ کی مرکزی جامع مسجد میں ختم نبوتﷺ اور عظمت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حوالے سے کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ مولانا عبدالمالک سے میرے تعلقات کئی برسوں پر محیط ہیں۔ مولانا صاحب کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے علم، عمل، تقویٰ اور انکساری کی خوبیوں سے نوازا ہے۔ آپ ہر عالم دین اور طالب علم کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں۔ مجھے سے بھی مولانا نے ہمیشہ شفقت اور محبت والا رویہ اپنایا ہے۔ اس کانفرنس کے مہمانِ خصوصی جماعت اسلامی کے امیر برادرِ اکبر سراج الحق صاحب تھے۔ ان کے ساتھ اس کانفرنس میں امیر العظیم، مولانا امجد خان، مولانا خان محمد قادری، مولانا امیر حمزہ، مولانا معاویہ اعظم طارق اور راقم الحروف کو بھی اپنے خیالات کے اظہارکے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ عشاء کی نماز کی ادائیگی کے بعد جب میں منصورہ میں پہنچا تو جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنان نے بڑے پُرتپاک انداز میں استقبال کیا۔ جماعت اسلامی کے اس مرکز میں محترم قاضی حسین مرحوم کے دور سے لے کر آج تک‘ مجھے درجنوں تقاریب میں شرکت کرنے کا موقع ملا ہے اور یہاں کے کارکنان نے ہمیشہ بڑی توجہ اور دل جمعی سے علماء کی گفتگو سماعت کی ہے۔
اس نشست میں امیر جماعت اسلامی نے فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے اپنی تجاویز پیش کیں اور برادر امیر العظیم نے ختم نبوتﷺ کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ جلسے سے مولانا امجد خان، مولانا امیر حمزہ، معاویہ اعظم طارق نے بڑے مدلل اور پُرجوش انداز میں خطاب کیا۔ اسی طرح خان محمد قادری صاحب نے بڑی سلاست کے ساتھ اظہارِ خیال کیا اور عظمتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اس جلسے میں پُرجوش نوجوانوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ میں نے بھی اس موقع پر اپنے خیالات کو سامعین کے سامنے رکھا؛ جن کو میں اپنے قارئین کے بھی گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔
''مسلمان علمی اور فکری حوالوں سے مختلف مکاتبِ فکر میں تقسیم ہیں اور مختلف مکاتبِ فکر کے درمیان مختلف موضوعات پر بحث و مباحثہ اور مذاکرہ ہوتا رہتا ہے۔ تقریری اور تحریری حوالے سے دلائل کا تبادلہ صدیوں سے جاری ہے لیکن بعض اہم نکات ایسے ہیں جن پر پوری اُمت مجتمع ہے۔ ان اہم نکات میں عقیدہ ختم نبوتﷺ اور عظمتِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سرفہرست ہیں۔ عقیدہ ختم نبوتﷺ کے حوالے سے اُمت مسلمہ کا واضح عقیدہ ہے کہ نبی کریمﷺ کے بعد کوئی شخص نبی نہیں ہو سکتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ احزاب کی آیت نمبر 40 میں اس حقیقت کو واضح فرما دیا: ''نہیں ہیں محمدؐ باپ تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے‘ لیکن (وہ) اللہ کے رسول اور خاتم النبیین (آخری نبی) ہیں‘‘۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیشتر آنے والے انبیاء کرام اپنے علاقوں اور زمانوں کے ہادی اور رہنما بن کر آئے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے جمیع انسانیت کے لیے بشیر و نذیر بنایا اور آپﷺ کی ذات اقدس پر نبوت کو تمام فرما دیا۔ البتہ احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قربِ قیامت حضرت عیسیٰ علیہ السلام دمشق کی جامع مسجد کے شرقی مینار پر اتریں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کو بنیاد بنا کر بعض لوگ نئے نبی کی امکان کی بات کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل مل چکی تھی۔ اس لیے کتاب و سنت اور عقلی دلائل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی۔ اُمت مسلمہ نے اس عقیدے کے تحفظ کے لیے کئی عشروں تک قربانیاں دی ہیں۔ بالآخر 7 ستمبر 1974ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے یہ متفقہ فیصلہ سنایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا منکر ہر شخص دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ پاکستان میں کئی مرتبہ عقیدۂ ختم نبوتﷺ کے حوالے سے سازشیں کی جا چکی ہیں لیکن اُمت مسلمہ کے نمائندہ علماء اور ملّی رہنماؤں نے ان سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اسی طرح حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت اور ان کی بلندی کا احساس ہر ذی شعور شخص کے دل میں موجود ہے اور کوئی بھی صاحبِ شعور انسان ان کی شان میں کسی بھی قسم کی تنقیص گوارہ نہیں کر سکتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ تلامذہ دین کے شاہد اور گواہ ہیں اور ان کی شہادتوں، گواہیوں اور بیانات ہی کے ذریعے دین ہم تک منتقل ہوا ہے؛ چنانچہ ان کے ایمان میں کسی قسم کا شک کیا جائے تو پورا دین مشکوک ہو سکتا ہے۔ اس لیے ہم سب کو مل جل کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت کے لیے بھرپور انداز میں آواز اُٹھانی چاہیے۔ اہلِ بیت اطہار اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک ہی مرکز محبت سے وابستہ دو عظیم طبقات ہیں جن میں کسی قسم کی دوئی اور تفریق نہیں۔ اس لیے اُمت مسلمہ حضرات صحابہ کرام ؓ اور اہل بیت عظامؓ کی عظمت پر مجتمع ہے اور ان کی عظمت پر کسی قسم کا سمجھوتا کرنے پر آمادہ و تیار نہیں۔ حالیہ ایام میں اس حوالے سے معاشرے میں ایک اضطراب کی کیفیت پائی جاتی ہے اور دینی جماعتوں اور افراد کا یہ پختہ مطالبہ ہے کہ اس حوالے سے ضابطہ اخلاق اور قوانین سے انحراف کرنے والے لوگ کسی رو رعایت کے مستحق نہیں ہیں اورجو شخص بھی اس حوالے کسی بے ضابطگی کا مظاہرہ کرتا ہے اس کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے‘‘۔ منصورہ کے اس پروگرام میں مقررین کی تقاریر کو سامعین نے بڑے انہماک سے سنا اور ان دو مشترکہ نکات پر علماء کرام سے بھرپور انداز سے اظہارِ یکجہتی کیا۔
27 ستمبر کو مرکزی جمعیت اہل حدیث کے مرکزی دفتر پر تحفظ شعائر اسلام سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ اس سیمینار میں بھی عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ سیمینار سے امیر مرکزی جمعیت پروفیسر ساجد میر، ناظم اعلیٰ مرکزی جمعیت اہلحدیث ڈاکٹر حافظ عبدالکریم، ڈاکٹر حماد لکھوی، مولانا مبشر احمد ربانی اور دیگر مقررین نے خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں پروفیسر ساجد میر نے اس امر کا اظہار کیا کہ اسلام اللہ تبارک وتعالیٰ کا آخری دین ہے اور شعائر اسلام سے مراد دین سے وابستہ علامات اور نشانیاں ہیں اور ان کے تحفظ کے حوالے سے نوجوانوں کو اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا چاہیے اور مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے۔ پروفیسر ساجد میر صاحب نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ دین کے حوالے سے نوجوان جو کردار ادا کر سکتے ہیں‘ وہ بالعموم بزرگ ادا نہیں کر سکتے۔ ڈاکٹر عبدالکریم نے بھی نوجوانوں سے مثبت اور بھرپور توقعات کا اظہار کیا کہ وہ شعائر اسلام کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔ میں نے بھی اس موقع پر اپنی گزارشات سامعین کے سامنے رکھیں جن کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
''اسلام اللہ تبارک وتعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے اور اس دین کے ساتھ وابستگی یقینا ہر شخص کے لیے باعثِ سعادت ہے۔ اسلام کے شعائر میں جہاں پر قرآن مجید، کعبۃ اللہ، مساجد اور ارکانِ اسلام شامل ہیں‘ وہیں پر عقیدہ ختم نبوتﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا دفاع کرنا بھی تمام مسلمانوں کے لیے ضروری ہے۔ عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے تمام مکاتب فکر کے جید علماء نے مختلف ادوار میں مؤثر کردار ادا کیا اور اس حوالے سے رائے عامہ کو ہموار کیا کہ نبی کریمﷺ کی ختم نبوت پر کسی بھی قسم کاسمجھوتا نہیں کیا جا سکتا۔ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے ساتھ ساتھ مسلمانوں پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ مغربی ممالک میں مقیم انتہا پسندوں کی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ اسلام دشمن عناصر مسلمانوں کو اشتعال دلانے کے لیے وقفے وقفے سے نبی کریمﷺ کی حرمت پر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں اور اس حوالے سے ماضی میں چارلی ہیبڈو جیسے جرائد اور گیٹ ویلڈر جیسے منفی سوچ کے حامل عناصر نے افسوسناک اور شرمناک کردار ادا کیا ہے۔ ان کے اس افسوس ناک کردار کا جواب ہمیں علمی اور جذباتی سطح پر دینے کی ضرورت ہے۔ جذبات کے اظہار کا مقصد بنیادی طور پر حکمرانوں اور پالیسی ساز اداروں کو یہ پیغام دینا ہے کہ مسلمان ہر چیز پر سمجھوتا کر سکتے ہیں لیکن نبی کریمﷺ کی عظمت اور آپؐ کی ذاتِ مبارکہ پر کسی بھی قسم کے سمجھوتے کے لیے آمادہ و تیار نہیں ہو سکتے اور علمی دلائل کا مقصد نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کے حوالے سے کیے جانے والے جھوٹے پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دینا ہے۔ اسی طرح دفاع صحابہ کرام و اہلِ بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حوالے سے بھی ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا چاہیے۔ مقدساتِ اُمت کا احترام ہر شخص کے لیے ضروری ہے اور جو لوگ اس مسئلے میں کمی و کوتاہی کا ارتکاب کرتے ہیں‘ درحقیقت وہ معاشرے میں انتشار اور خلفشار پیدا کرتے ہیں۔ مشرق و مغرب میں رہنے والے ماہرین قانون نے ایک انسان کی عزت کے لیے ہتکِ عزت کے قوانین اور ایک ادارے کی حرمت کے لیے توہین کے قوانین پر اتفاق کیا ہے۔ اگر ایک ادارے اور انسان کی عزت کا تحفظ ضروری ہے تو مقدساتِ اُمت کی آبرو کا تحفظ بھی ازحد ضروری ہے اور اس حوالے سے ملک میں مروجہ قوانین کے مطابق کوتاہی کرنے والوں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے تاکہ معاشرے میں امن قائم ہو اور فساد اور انتشار کا خاتمہ کیا جا سکے‘‘۔ اس جلسے میں بھی کارکنان نے پُرجوش انداز میں مقررین اور رہنماؤں کی تائید کی اور یوں یہ دونوں تقریبات اپنے جلو میں بہت سی خوشگوار یادوں کو لیے ہوئے اختتام پذیر ہوئیں۔