دنیا میں جو بھی آیا ہے‘ اسے ایک دن دنیا سے جانا ہو گا۔ دنیا میں نہ تو کوئی ناقابلِ شکست جنگجو ہمیشہ کے لیے باقی رہا اور نہ ہی کوئی زاہدِ شب زندہ دار، نہ ہی کسی عالم کو ہمیشگی حاصل ہوئی اور نہ ہی کسی سرمایہ دار کو۔ اس دنیائے فانی میں جو بھی آیا‘ ایک مقررہ وقت تک زمین پر زندگی گزارنے کے بعد اپنے خالق اور مالک کی طرف واپس لوٹ گیا۔ اگر انسان کے اعزہ و اقارب اور پیاروں کے بس میں ہو تو وہ کبھی بھی اس کو دنیا سے نہ جانے دیں لیکن اللہ تعالیٰ کے امر کے سامنے ہر شخص کو سرِ تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔ جب سے انسان اس زمین پرآباد ہوا ہے‘ انسانوں کی آمد و رفت کا یہ سلسلہ جاری و ساری ہے لیکن بعض ایسے لوگ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں‘ جن کی یادوں کی خوشبو عرصہ دراز تک اذہان و قلوب کو معطر کیے رکھتی ہے اور معاشرہ ان کی عظمت اور ان کے کردار کو فراموش نہیں کر پاتا۔ انہی شخصیات میں سے ایک دلنشیں شخصیت برادر عزیز عبدالغفار عزیز کی تھی۔ 5اکتوبرکو جب مجھے اس بات کی اطلاع ملی کہ آپ دنیائے فانی سے کوچ کر گئے ہیں تو ماضی کی بہت سے یادیں جو برادر عزیز عبدالغفار عزیز سے وابستہ تھیں‘ میرے ذہن میں گردش کرنے لگیں۔ آج سے تقریباً 20 برس قبل ایک اخبار کے نیوز فورم میں ''مخلوط تعلیم اور لڑکے لڑکیوں کی دوستی‘‘ کے عنوان پر ایک مذاکرے کاانعقاد کیا گیا جس میں برادر عزیز عبدالغفار عزیز بھی شریک ہوئے تھے‘ یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔ برادر عزیز عبدالغفار عزیز نے جہاں مذکورہ موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی وہیں پر مذاکرہ ختم ہونے کے بعد اپنا تعارف بھی کرایا اور مجھے یہ بتلایا کہ وہ پتوکی سے تعلق رکھتے ہیں اور میرے والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر سے گہری عقیدت رکھتے ہیں۔ انہوں نے مجھے 1977ء کی انتخابی مہم کے حوالے سے اپنی بعض یادوں سے آگاہ کیا اور بتایا کہ اس مہم میں انہوں نے بھی بھرپور انداز میں حصہ لیا تھا۔ اُس کے بعد بھی ان سے گاہے گاہے ملاقاتیں ہوتی رہیں اور ہر ملاقات میں ان کی خوش اخلاقی اور پُراثر گفتگو کی وجہ سے قربت اور وابستگی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ وہ جب بھی ملتے بڑی خندہ پیشانی سے ملتے اور ان کے لب و لہجے میں برادرانہ شفقت اور محبت کی جھلک واضح طور پر نظر آتی تھی۔ برادر عزیز عبدالغفار عزیز کے ساتھ محترم قاضی حسین احمد کے دورِ امارت میں بھی رابطہ ہوتا رہا۔ میں نے اس دوران بھی میں نے ان کو بہت زیادہ خوش اخلاق، خوش مزاج اور شفقت کرنے والا انسان پایا۔
2016ء میں رمضان المبارک کے مہینے میں شیخ الحدیث مولانا ارشاد الحق اثری، برادر عزیز ڈاکٹر حسن مدنی، برادر محترم عدنان کاکا خیل، مولانا عبدالغفور حیدری کے ساتھ ساتھ عبدالغفار عزیز بھی سعودی عرب کے ایک سرکاری دورے میں ہمارے ہمراہ تھے۔ اس دورے میں جہاں سعودی عرب کے اعلیٰ حکام سے ہماری ملاقاتیں ہوئیں وہیں پر ایک دوسرے کے ساتھ بھی ہماری نشستیں چلتی رہیں۔ کھانے کی ٹیبل پر بھی کئی مرتبہ اکٹھے بیٹھنے کا موقع ملتا۔ میں نے اس سفر کے دوران ان میں نیکی، تقویٰ اور للہیت والی بہت سی باتیں دیکھیں۔ وہ کثرت سے ذکر الٰہی میں منہمک رہا کرتے تھے اور جب بھی گفتگو کرتے انتہائی سلجھے ہوئے انداز میں کرتے۔ ان کی گفتگو دین کی محبت سے بھرپور ہوتی تھی۔ آپ کی طبیعت میں بہت زیادہ نفاست اور متانت پائی جاتی تھی اور جب آپ گفتگو کرتے تو سامع پُراثر شخصیت کے اثرات کو اپنے اندر اترتا ہوا محسوس کرتا تھا۔ آپ شور شرابے اور بے جا مزاح سے احتراز کرتے اور بامقصد گفتگو پر ہی اکتفا کرتے۔ عمرے کے اس سفرکے بعد بھی آپ سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ کچھ عرصہ قبل باغبانپورہ لاہور میں آپ کے ہمراہ ایک پروگرام میں شرکت کرنے کا موقع ملا جس کا انعقاد اسلامی جمعیت طلبہ کے دوستوں نے کیا تھا۔ اس پروگرام میں بھی آپ نے مدلل اور خوبصورت گفتگو کی تھی۔ اس موقع پر ہونے والی نشست میں آپ جس گرمجوشی کے ساتھ ملے‘ اس کی یادیں ابھی تک میرے دل و دماغ میں تازہ ہیں۔ آپ کچھ عرصے سے کینسر کے موذی مرض میں مبتلا تھے اور تکلیف کی وجہ سے آپ پر نقاہت اورکمزوری کا غلبہ ہو گیا تھا جس کے باعث عوامی اور جماعتی تقریبات میں بہت کم شرکت کر پاتے۔ 5اکتوبر کو آپ اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے اور اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں اپنی یادوں کے اَنمٹ نقوش چھوڑ کر رخصت ہو گئے۔
برادر عزیز عبدالغفار عزیز کے انتقال سے چند ہفتے قبل نامور صحافی بشیر انصاری بھی اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ بشیر انصاری نے طویل عرصہ تک مذہبی صحافت میں نمایاں کردار ادا کیا اور مختلف مذہبی رسالوں میں زبردست اداریے تحریر کرتے رہے۔ آپ کی تحریر میں سلاست پائی جاتی تھی اور تحریر پڑھنے والا شخص آپ کے علم، استدلال اور مشاہدے سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ بشیر انصاری کے ساتھ والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر کے بھی بڑے گہرے تعلقات تھے اور وہ آپ کے عہد میں بھی تحریر کے جوہر دکھلاتے رہے۔ پاکستان کی دینی صحافت میں ان کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ وہ تیس سال تک ہفت روزہ اہل حدیث جبکہ 15 سال تک ہفت روزہ الاسلام کے مدیر رہے، اسی طرح ماہنامہ والضحیٰ اور ماہنامہ جنت الماویٰ کے بھی مدیر رہے۔ اس کے علاوہ وہ 6 کتابیں بھی تحریر کر چکے تھے۔
آپ اپنی ذات میں ایک انجمن اور ادارے کی حیثیت رکھتے تھے اور جس مقام اور مجلس میں موجود ہوتے‘ لوگ آپ کی شخصیت اور علمیت سے متاثر ہو کر آپ کی پُروقارشخصیت کی طرف مائل ہو جایا کرتے تھے۔ بشیر انصاری نے 88 سال کی عمر پائی اور بڑھاپے کے عالم میں بھی اپنے علمی اور صحافتی سفر کو جاری و ساری رکھا اور اپنی قلمی خدمات اور جدوجہد پر اپنے بڑھاپے کو غالب نہیں آنے دیا۔ آپ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے اور مذہب و ملت سے والہانہ وابستگی رکھتے تھے۔ ملک اور ملت کی محبت آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی؛ چنانچہ ملک و ملت کے مفاد کے خلاف کوئی بات بھی دیکھتے تو اس کا فوراً سے پہلے مثبت انداز میں ردّعمل دیا کرتے تھے۔ آپ کے لکھے ہوئے سینکڑوں اداریے یقینا آپ کی صحافتی اور علمی خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
آپ کی وفات پر ملک کے مذہبی رہنماؤں اور شخصیات نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سربراہ سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے بشیر انصاری کی وفات پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا ہے۔ اپنے تعزیتی بیان میں ان کا کہنا تھا کہ بشیر انصاری دینی صحافت کا ایک بڑا حوالہ تھے ان کے قلم میں اسلام اور وطن کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، ان کی صحافتی خدمات کا زمانہ معترف تھا۔ ان کی دینی و ادبی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ سینیٹر ڈاکٹر حافظ عبدالکریم نے بھی بشیر انصاری کی وفات کو ملک و ملت کے لیے بڑا نقصان قرار دیا ہے۔ مجھے بھی آپ کی رحلت پر بہت زیادہ دھچکا پہنچا ہے اور گزشتہ کئی عشروں کے دوران ان سے ہونے والی ملاقاتوں کی یاد میرے دماغ کے سطح پر ابھرنے لگی ہیں۔ آپ کی خوش اخلاقی، ملنساری اور تواضع کا میں عینی شاہد ہوں۔ آپ کی شخصیت میں جہاں علمی خوبیاں نمایاں تھیں وہیں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو اخلاقِ حسنہ سے بھی نوازا تھا اور آپ سے ملنے والا ہر شخص آپ کا مداح بن جاتا تھا۔
ان عظیم شخصیات کے دنیا سے چلے جانے کے باوجود ان کی یادوں کی خوشبو ان سے وابستہ ہر شخص کے دل و دماغ میں بسی ہوئی ہے۔ عظیم شخصیات کا انتقال یقینا ہمیں اس حقیقت کا احساس دلاتا ہے کہ ہمارا قیام بھی اس دنیا میں عارضی ہے اور ہمیں بھی جلد اپنے پروردگار کی طرف پلٹنا ہے جس کی بارگاہ میں جاکر ہمیں اپنے اعمال کے حوالے سے جواب دہ ہونا پڑے گا؛ چنانچہ ہمیں اس فانی دنیا میں اپنے دل کو اس انداز میں نہیں لگانا چاہیے کہ ہم اپنی موت کو فراموش کر دیں، ہمیں اپنی آخرت کی تیاری کرنی چاہیے اور اپنے پروردگار سے ملاقات کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے۔ قرآن مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے جو آگ سے بچ کر جنت میں داخل ہو گیا‘ حقیقی کامیابی حاصل کر گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان عظیم شخصیات کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں بھی اپنی آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین !