کسی بھی ادارے‘ تنظیم ‘ گروہ یا ملک کی ترقی کے لیے مؤثر لیڈر کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ سیاست اور تجارت کے میدان میں کامیاب قیادت کی اہمیت مسلّم ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت‘ کاروباری ادارہ یا ملک کامیاب قیادت کے بغیر ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا۔ جن جماعتوں‘ کاروباری اداروں اور ملکوں کو بہترلیڈر میسر آجاتے ہیں وہ دن دوگنی رات چگنی ترقی کرتے ہیں اور اس کے مدِمقابل اگر لیڈر نا اہل ہو تو تنظیم‘ ادارہ اور جماعت اپنی ساکھ کھو بیٹھتے ہیں۔ چند روز قبل اسی عنوان پر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے مرکزی دفتر میں جمعیت کی ذیلی تنظیمات کے نمائندہ اراکین کا ایک سیمینار منعقد ہوا جس میں امیرجمعیت پروفیسر ساجد میر‘ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن رانا محمد شفیق خان پسروری‘ ذیلی تنظیمات کے ناظم ڈاکٹر عبدالغفور راشد‘ معروف مبلغ قاری صہیب احمد میر محمدی‘ اہل حدیث یوتھ فورس کے صدر فیصل افضل شیخ اور راقم الحروف کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی دعوت دی گئی۔
اس سیمینار میں تمام مقررین نے اپنے اپنے انداز میں قیادت کے اوصاف اور قائد کے حقوق وفرائض پر روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر عبدالغفور نے چانکیا اور میکاولی کے تصورِ قیادت کے ساتھ ساتھ اسلامی تصور قیادت کو پیش کیا۔ قاری صہیب احمد میر محمدی نے امیر کے حقوق اور فرائض بیان کیے اور اس بات کو اجاگر کیا کہ جب اللہ تبارک وتعالیٰ کسی امیر سے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو اچھے معاون عطا کر دیتا ہے اور جب کسی سربراہ کے لیے شر کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے تو اس کے معاونین اور مشیر نااہل لوگ بن جاتے ہیں۔ اچھے معاونین مودبانہ انداز میں امیر کی غلطیوں کی اصلاح کرتے اور اس کو مثبت سمت میں چلنے کا مشورہ دیتے ‘اس کی تابعداری کو اختیار کرتے اور اس کے لیے نیک تمناؤں کو اپنے دل میں جگہ دیتے ہیں۔ اس کے مدمقابل برُے مشیر امیر کی غلطیوں کی اصلاح کرنے کی بجائے خوشامد کا رویہ اپناتے‘ مثبت سمت پر گامزن رہنے کا مشورہ دینے کی بجائے اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتے اور امیر کی خیر خواہی کی بجائے اس کی ذلت کی تمنا رکھتے ہیں۔ اس موقع پر امیر جمعیت پروفیسر ساجد میر نے قیادت کے اوصاف کے حوالے سے بہت ہی خوبصورت انداز میں رہنمائی کی اور قیادت کے تجریدی ماڈل کے ساتھ ساتھ یہ بات کہی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام طاقتور اور امانتدار انسان تھے اور اپنے عہد کے پیغمبرہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑے قائد اور رہنما تھے جنہوں نے فرعون کی رعونت‘ ہامان کے منصب‘ قارون کے سرمائے اور شداد کی جاگیر کی پروا کیے بغیر بنی اسرائیل کی مثالی انداز میں قیادت کی۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے بطورِقائد ِانسانیت نبی کریم ﷺ کی سیرت کے نمایاں پہلوؤں کو خصوصیت سے اجاگر کیا اور کہا کہ نبی کریمﷺ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے قیادت کے غیر معمولی جوہر عطا فرمائے تھے اور انسانیت کی تاریخ میں آپ ؐ جیسا لیڈر اور رہنما نہ آپ سے پہلے کبھی آیا ہے اور نہ بعد میں آ سکتا ہے۔ نبی کریمﷺ کی غیر معمولی اور بے مثال قیادت کی وجہ سے عرب میں ایک انقلاب پیدا ہو گیا اور لوگ دیوانہ وارآپ ؐ کے گرد جمع ہو گئے اور آپؐ نے دنیا کی سب سے بڑی اصلاحی تحریک کو نہایت کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی بتلایا کہ مختلف ماہرین نے حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر ابن عبدالعزیز رحمتہ اللہ کی شخصیت کو بھی ماڈل بنا کر ان کے سیرت وکردار سے قیادت کے اوصاف کو کشید کیا اور یہ بات اخذ کی کہ قائدکو باخبر‘ جرأت مند‘ فیاض ‘ رعایا کا ہمدرد اور خیر خواہ ہونا چاہیے۔اس موقع پر مجھے بھی اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی۔ جن خیالات کو میں نے سامعین کے سامنے رکھا‘ کچھ ترمیم اور اضافے کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
بنی اسرائیل نے حضرت شموئیل علیہ السلام سے ایک بادشاہ کا مطالبہ کیا کہ جس کی زیر قیادت وہ جہاد کر سکیں۔ اس واقعہ کی تفصیل سورہ بقرہ کی آیت نمبر 246میں کچھ اس انداز میں آئی ہے: ''کیا نہیں آپ نے دیکھا بنی اسرائیل کے گروہ کو موسیٰ علیہ السلام کے بعد جب انہوں نے کہا اپنے نبی سے کہ مقرر کر ہمارے لیے ایک بادشادہ (جس کی رہنمائی میں) ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں اس نے کہا کیا ہو سکتا ہے کہ تم اگر فرض کر دی جائے تم پر جنگ یہ کہ تم جنگ نہ کرو وہ کہنے لگے اور کیا ہو گا ہمیں کہ نہ ہم جنگ کریں گے اللہ کے راستے میں حالانکہ یقینا ہم نکالے گئے ہوں گے اپنے گھروں سے اور اپنے بال بچوں سے پھر جب فرض کر دی گئی ان پر جنگ (تو اپنے عہد سے) پھر گئے سوائے چند ایک کے ان میں سے اور اللہ خوب جاننے والا ہے ظالموں کو‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے نبی حضرت شموئیل علیہ السلام نے لوگوں کو یہ بات بتلائی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے لیے جنابِ طالوت کو بادشاہ مقرر کر دیا ہے۔ جنابِ طالوت کی تقرری پر بنی اسرائیل کے لوگ حیران ہوئے کہ جنابِ طالوت کے پاس مال کی وسعت نہ تھی ۔ انہوں نے اپنی اس سوچ کو حضرت شموئیل علیہ السلام کے سامنے رکھا لیکن جواب میں حضرت شموئیل علیہ السلام نے قیادت کے جو اوصاف بتلائے اس سے یہ معلوم ہوا کہ قائد بے شک صاحب مال ہو یا نہ ہو اس کو صاحب علم وطاقت ضرور ہونا چاہیے۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 247میں کچھ یوں فرماتے ہیں: ''کہنے لگے کیسے ہو سکتی ہے اس کی بادشاہی ہم پر حالانکہ ہم زیادہ حق دار ہیں بادشاہ کے اس سے اور نہیں دی گئی اسے وسعت مال کی۔ اس(نبی) نے کہا بیشک اللہ نے اسے منتخب کیا ہے تم پر اور اسے زیادہ دی ہے کشادگی علم اور جسم میں اور اللہ دیتا ہے اپنی بادشاہت جسے چاہتا ہے اور اللہ وسعت والا ‘ بہت علم والا ہے‘‘۔
کتاب وسنت کے مطالعے سے ہمیں یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ امورِ شریعت میں اللہ تبارک وتعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے مقابلے پر کسی کی بات بھی حجت اور دلیل نہیں‘ لیکن جہاں تک تعلق ہے عصری اور معاشرتی اُمور کا‘ تو ان معاملات میں قائد یا امیر کی بات کو خندہ پیشانی سے تسلیم کرنا چاہیے۔ قائد اور رہنما کی بات کو تسلیم کرنے والے لوگ کامیاب ہوتے ہیں اور اس کی بات کو نظر انداز کرنے والے پشیمان ہوتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں طالوت اور جالوت کے لشکر کے ٹکراؤ کا ذکر کیا ہے کہ جنابِ طالوت جب لشکر لے کر نکلے تو انہوں نے اپنے لشکریوں کو ایک نصیحت کی جس کا ذکر سورہ بقرہ کی آیت نمبر 249میں کچھ یوں آیا ہے : ''پھر جب نکلا طالوت (اپنے) لشکریوں کے ساتھ اس نے کہا بے شک اللہ تمہیں آزمانے والا ہے ایک نہر سے پس جو پی لے گا اس سے تو نہیں ہے وہ مجھ سے (میرا ساتھی) اور جو نہ چکھے گا اسے پس بے شک وہ مجھ سے (میرا ساتھی) ہے مگرجو بھر لے ایک چلو اپنے ہاتھ سے۔ پھر انہوں نے پی لیا اس سے سوائے تھوڑے (لوگوں) کے ان میں سے۔ پھر جب اسے پار کر لیا اس نے اور ان لوگوں نے جو ایمان لائے‘ اس کے ساتھ وہ (پانی پینے والے) کہنے لگے کوئی طاقت نہیں ہمیں آج جالوت اور اس کے لشکروں سے (لڑنے کی) ‘‘۔
اس واقعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جس وقت انسان اپنے امیریا قائدکی بات سے انحراف کرتا ہے تو اس کی ہمت پست ہوجاتی ہے اور ناکامی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ لشکرِ جالوت کا مقابلہ کرنے کے لیے وہی لوگ آمادہ وتیار ہوئے جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی ملاقات کا یقین تھا اور جو اپنے قائد کے حکم پر دشمنانِ دین سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار تھے۔ اس حقیقت کو اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 249‘ 250‘251 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں : ''کہا ان لوگوں نے جو یقین رکھتے تھے کہ بے شک وہ اللہ سے ملنے والے ہیں بہت سے چھوٹے گروہ غالب آگئے بڑے گروہ پر اللہ کے حکم سے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اور جب وہ مقابلے پر اُترے جالوت اوراس کے لشکروں کے‘ کہنے لگے :اے ہمارے رب فیضان کر ہم پر صبر کا اور جما دے ہمارے قدم (میدان جنگ میں) اور ہماری مدد فرما کافر قوم پر۔پھر انہوں نے شکست دی ان کو اللہ کے حکم سے اور داؤد نے جالوت کو قتل کیا اور دی اس کو اللہ نے بادشاہی اور حکمت اور سکھایا اسے جو کچھ چاہا‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت داؤد ‘ حضرت سلیمان ‘حضرت یوسف علیہم السلام اور اس کے ساتھ ساتھ جنابِ ذوالقرنین کی حکومتوں کا ذکر کیا۔ جب ہم بطور ِحکمران ان عظیم الشان ہستیوں کے اوصاف پڑھتے ہیں تو قیادت کے مندرجہ ذیل اوصاف سامنے آتے ہیں :
1: قائد کو صاحبِ حکمت ہونا چاہیے۔ 2: قائد کو عالم ہونا چاہیے۔3:قائد کو نفسانی خواہشات سے پاک ہونا چاہیے۔4: قائد کو امانت دار ہونا چاہیے۔ 5: قائد کو طاقتور ہونا چاہیے۔ 6: قائد کو بات کرنے پر عبور ہونا چاہیے۔ 7: قائد کو معاملہ فہم ہونا چاہیے۔ 8: قائد کو جرأت مند اور بہادر ہونا چاہیے۔ 9: قائدکو فسادیوں کا قلع قمع کرنا چاہیے۔
اگر ان اوصاف کا حامل قائد میسر آ جائے تو یقینا ادارے ‘ تحریکیں‘ جماعتیں اور ملک ترقی کے راستے پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ کتاب وسنت میں مذکوران اوصاف اور معیار پر پورا اترنے والا قائد کا مل جانا یقینا قوم کی خوش نصیبی ہوتی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے ملک کو بھی بہترین قیادت سے بہرہ ور فرمائے تاکہ ملک ترقی کے راستے پر گامزن ہو سکے۔ آمین ۔