یہ دنیا فانی ہے اور یہاں پر کسی کو دوام اور بقا نہیں ہے۔ دنیا میں جو بھی آیا ہے‘ اپنے وقت کو پورا کرنے اور ایک مقررہ مدت تک زمین پر قیام کرنے کے بعد اسے موت کی وادی میں اترنا پڑے گا۔ موت نہ تو انسان کی عمر کو دیکھتی ہے نہ ہی اس کی معیشت اور طرزِ زندگی‘ بلکہ یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے ہر ذی روح کو وقت معین پر آ لیتی ہے۔ بہت سے لوگ اس دنیا میں ایسی زندگی گزارتے ہیں کہ دوسروں کے لیے پریشانی، تکلیف اور کوفت کا سامان بنے رہتے ہیں، اپنے منفی رویوں کی وجہ سے انسانوں کو اذیت میں مبتلا کرنے والے یہ لوگ اچھی یادیں چھوڑ کر دنیا سے رخصت نہیں ہوتے بلکہ ان کی موت سے دنیا والے یوں محسوس کرتے ہیں گویا کہ انہیں امن اور عافیت نصیب ہو گئی ہے۔ کتاب وسنت کے مطالعے سے بہت سے ایسی شخصیات سامنے آتی ہیں جنہوں نے دنیا میں شر کے پھیلاؤ میں نمایاں کردار ادا کیا اور تاریخ میں اپنے سیاہ کارناموں کی وجہ سے پہچانے گئے۔ فرعون، قارون، ہامان، شداداور ابولہب اسی قبیل کے لوگوں میں شامل تھے۔
اس کے بالمقابل بعض لوگ بڑی بامقصد اور سعادت والی زندگی گزارتے ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی مخلوق کے لیے خیر اور بھلائی کے بہت سے کاموں کو انجام دیتے ہیں۔اللہ کی مخلوق کے کام آنے والے لوگوں میں سے سب سے زیادہ بہتر وہ لوگ ہوتے ہیں جو دین اور دنیا میں صحیح طور پر تواز ن کو قائم رکھتے ہیں اور انسانوں کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی میں بھی کسی قسم کی غفلت کے مرتکب نہیں ہوتے ۔ ایسے مثالی لوگ جب دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو ان سے وابستہ ہر شخص دکھ اور کرب کو محسوس کرتا ہے۔ سابق ایم پی اے حاجی عبدالرزاق بھی ایسی ہی خوبصورت اور دلکش شخصیت تھے جنہوں نے ساری زندگی دین اور دنیا کے درمیان توازن کو برقرار رکھا اور اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں اپنی یادوں کے خوبصورت نقوش چھوڑ کر اس دنیا ئے فانی سے کوچ کر گئے۔
حاجی عبدالرزاق 84برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ آپ زندگی کے آخری وقت تک بالکل چاق وچوبنداور صحت مند تھے۔ آپ کی مثالی صحت کو دیکھ کر ناواقف شخص آپ کی عمر کا تعین کرنے سے بھی قاصر رہتا تھا۔ بلاناغہ چہل قدمی اور ورزش کرنے کے ساتھ ساتھ آپ اپنے جملہ امور بھی ازخود انجام دینے میں مصروف رہا کرتے تھے۔ اس عمر میں بھی اپنی کار کو خود ڈرائیو کرتے اور روزمرہ امور کے ساتھ ساتھ تنظیمی اور سماجی امور کی انجام دہی کے لیے بھی ہمہ وقت آمادہ وتیار رہا کرتے تھے۔ حاجی عبدالرزاق کی مثالی صحت دیکھ کر انسان رشک کرتا تھا اور اس بات کو بھانپ لیتا تھا کہ اس مثالی صحت کے پس منظر میں روحانی اور جسمانی اعتدال کارفرما ہے۔ آپ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کو بجا لانے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے اور نماز ِباجماعت کو دیگر تمام امور پر ترجیح دیا کرتے تھے۔ کسی بھی تنظیمی، سیاسی یا سماجی اجلاس کے دوران جونہی نماز کا وقت آتا‘ تو تمام امور کو ترک کرکے فوراً سے پیشتر نماز کی طرف مائل ہو جایا کرتے۔ ایک ذمہ دار شخصیت نے ان کے انتقال کے بعد مجھے بتلایا کہ ہم کئی مرتبہ ان کو کہتے کہ نماز ہم نے بھی پڑھنی ہے، آپ کچھ انتظار کر لیں لیکن وہ اس انتظار گوارا نہ کرتے اور حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کی صدا کے ساتھ ہی نماز کے لیے تیار ہو جایا کرتے تھے۔ آپ جب سفر پر بھی نکلتے تو پہلے اپنی نمازوں کے اوقات کا تعین کرتے کہ فلاں نماز کو کس مقام پر باجماعت ادا کیا جا سکتا ہے۔ کچھ سال سے نماز کے ساتھ ساتھ آپ نفلی روزوں کے بھی پابند ہو چکے تھے اور پیر ، جمعرات کے مسنون روزے میں مداومت اختیار کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔
حاجی صاحب جہاں پر صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے وہیں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو حق پرستی کا عظیم وصف بھی عطا کیا تھااور سچی بات کہنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتے تھے۔ کئی مرتبہ مجلس کی مصلحت کو دیکھتے ہوئے ان کے ساتھی ان کو اشارہ کرتے یا مشورہ دیتے کہ آپ اپنی گفتگو کو مصلحتاً ملفوف کرکے پیش کریں‘ لیکن حاجی صاحب اس مشورہ کو قبول کرنے پر آمادہ وتیار نہ ہوتے اور جو ان کے دل میں ہوتا فوراً سے پہلے بلا جھجک کہہ گزرتے۔ آپ کو مجالس کے تیور اور لوگوں کے رجحانات کی پروا نہیں ہوتی تھی بلکہ آپ سچائی سے کام لینے کو مجلس کی دلجوئی سے زیادہ اہم تصور کیا کرتے تھے۔ آپ کی حق پرستی کی وجہ سے جہاں پر وقتی طور پر لوگ چبھن محسوس کرتے‘ وہیں پر بعد ازاں وہ آپ کی شخصیت کے اس پہلو پر غور کرکے آپ کی عظمت کے معترف ہوئے بغیر نہ رہ پاتے۔ سچائی کے ابلاغ اور نشرواشاعت کے ساتھ ساتھ آپ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے وقت کی پابند کا بھی عظیم وصف عطا کیا تھا۔ ہر مجلس میں وقت مقررہ پر پہنچنا آپ کا معمول تھا۔ شادی بیاہ کی تقریبات ہوں یا کوئی سماجی ،سیاسی و تنظیمی تقریب ‘حاجی صاحب وقت مقررہ پر اس تقریب میں موجود ہوتے اور اس بات کے امکانات کے باوجود کہ مہمانوں کے آنے میں کچھ تاخیر ہو سکتی ہے‘ آپ بروقت آمد کو کبھی مؤخر نہ کرتے۔ لوگوں کے وقت گنوانے والے طرز ِعمل کو دیکھ کر بھی آپ نے اپنے اسلوب کو بالکل نہ بدلااور زندگی کے آخری وقت تک وقت کی پابندی کرتے رہے۔ مہمانوں سے ہلکے پھلکے انداز میں وقت کی پابند ی کا تقاضاکرنا آپ کا معمول تھا لیکن معاشرے کے اندازواطوار نے آپ کے وقت کی پابندی والے خوبصورت وصف کو بالکل بھی مجروح نہ ہونے دیا تھا۔
حاجی صاحب کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے شگفتہ طبیعت سے نوازا تھا۔آپ ہلکے پھلکے مزاج کے حامل تھے۔ آخری وقت تک لوگوں کی باتوں سے محظوظ ہونا اور ان کو اپنی باتوں سے محظوظ کرنا آپ کا معمول تھا۔ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوبصورت اور خوشی والی باتوں پر خوش ہونا حاجی صاحب کا معمول تھا اور زندگی کے نشیب وفراز کے دوران آپ اس معمول کو ترک کرنے پر کبھی آمادہ وتیار نہیں ہوئے۔ آپ کی طبیعت میں ڈپریشن اور نفسیاتی دباؤ والی کوئی بات نہیں تھی۔ آپ ہمہ وقت مسکراتے اور لوگوں کو بھی دلکش باتیں سنا کر مسکراہٹ پر آمادہ وتیار کر دیا کرتے تھے۔ آپ تبلیغی ذوق کے حامل تھے اور دھرمپورہ کی جامع مسجد میں گاہے گاہے تبلیغی پروگراموں کا بھی انعقاد کیا کرتے تھے۔ فروری 2020ء میں انہوں نے اسی مسجد میں ایک بڑے پروگرام کا انعقاد کیا اور اس پروگرام میں مجھے بھی شرکت کی دعوت دی۔ جلسے کے سٹیج پر جانے سے قبل کھانے کی ٹیبل پر وہ مجھ سے بڑے پیار سے ملے اور بامقصد گفتگو کی اہمیت پر روشنی ڈالتے رہے۔ حاجی صاحب مساجد اور مدارس کی خدمت کے ساتھ ساتھ ساری زندگی مرکزی جمعیت اہلحدیث کے ساتھ وابستہ رہے اور 30برس سے زیادہ عرصہ تک اس کے مرکزی ناظم مالیات رہے۔ اس طویل مالی خدمت کے دوران آپ کا دامن ہر قسم کی کرپشن سے پاک رہا اور آپ نے جماعت کے بیت المال کو مستحکم کرنے کے لیے بہت زیادہ محنت کی اور اس حوالے سے یادگار زندگی بسر کی۔
حاجی صاحب کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں اعلیٰ اخلاقی اوصاف سے بہرہ ور کیا تھا ‘وہیں پر دین سے وابستہ خدمت کرنے والی اولاد سے بھی نوازا تھا۔ حاجی صاحب کی اولاد سے میرے دیرینہ تعلقات ہیں اور ان کے بیٹوں میں خوش اخلاقی، متانت اور دین سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ۔ حاجی صاحب کی اولاد زندگی کے آخری سانس تک ان کی خدمت میں مشغول اور مصروف رہی۔ حاجی صاحب کے ایک بیٹے خلیل میری انجینئرنگ یونیورسٹی کے کلاس فیلو طارق کے گہرے دوست تھے اور اسی نسبت سے ان سے گاہے گاہے ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ جب بھی ملاقات ہوتی ان کا پُرجوش اور بااخلاق رویہ طبیعت پر خوشگوار اثرات چھوڑتا۔
حاجی صاحب کی وفات کے بعد جب میں تعزیت کے لیے ان کے گھر پہنچا تو ماضی کی یادیں میری دماغ کی سکرین پر چلنا شروع ہوگئیں۔ خلیل بھائی کو دیکھ کر ان کی تابعداری اور خدمت والے معاملات بھی ذہن میں آنا شروع ہو گئے۔ بھائی خلیل نے مجھے یہ بتلایا کہ حاجی صاحب اپنی وفات سے ایک گھنٹہ پہلے بھی چاق وچوبند تھے۔ لیکن اللہ کا امر آیا اور آپ 30،35منٹ کی علالت کے بعد اس دنیا ئے فانی سے رخصت ہو گئے۔ یقینا حاجی صاحب کی رخصتی ایک بہت بڑا خلا ہے جو مدتِ مدید تک پُر نہیں ہو سکے گا۔ ان جیسے بزرگ معاشرے کا حسن ہوتے ہیں اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ حاجی عبدالرزاق صاحب کو غریق رحمت کرے، ان کے درجات کو بلند کرے اور ان کے پسماندگان اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین !