"AIZ" (space) message & send to 7575

پاکستان کا سیاسی مستقبل

پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے جس کا قیام ایک لمبی سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں عمل میں آیا۔ تحریک پاکستان کے قائدین نے برصغیرکے طول وعرض میں دو قومی نظریے کو اجاگر کیا اور برصغیر ''پاکستان کا مطلب کیا‘ لا الا الہ اللہ‘‘ کے نعروں سے گونج اُٹھا۔ قائداعظم، علامہ اقبال، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان اور دیگر قائدین کی قیادت میں عشروں کی مسلسل جدوجہد کے بعد 1947ء میں پاکستان دنیا کے نقشے پر عالم اسلام کی سب سے بڑی ریاست کی حیثیت سے اُبھر ا۔ 
بدقسمتی سے قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک‘ پاکستان سیاسی اعتبارسے مستحکم نہیں ہو سکااور وقفے وقفے سے پاکستان میں سیاسی تحریکیں چلتی رہتی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پاکستان بہت سے سیاسی بحرانوں کا سامنا کر چکا ہے۔1971ء میں پاکستان دولخت ہوگیاتھا جس کی ایک بڑی وجہ سیاسی کشمکش تھی۔ 1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کی حیثیت سے اُبھری مگر بوجوہ اس کو اقتدار منتقل نہ ہو سکا۔ عوامی لیگ نے قوم پرست بنگالیوں کے جذبات کو انگیخت کیا اور بھارت کی پشت پناہی سے علیحدگی کی تحریک چلائی۔ یہ تحریک حقوق کے حصول کے نعرے اور علاقائی عصبیت کی وجہ سے زور پکڑتی چلی گئی۔ بہت سی محب وطن جماعتوں اور رہنماؤں کی کوششوں کے باوجود پاکستان دو لخت ہو گیا۔ 
1977ء میں قومی اسمبلی کے انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات کے خلاف قومی اتحاد نے ایک منظم تحریک چلائی۔ یہ تحریک ابتدائی طور پر تو انتخابی دھاندلیوں کے خلاف تھی لیکن بعد ازاں سوشلزم کے خلاف نظام مصطفیﷺ کے قیام کی خواہش نے اس تحریک میں مذہبی رنگ اور ولولہ پیدا کر دیا۔ اس تحریک کے حتمی نتیجے میں سابق وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو مرحوم کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے اور ملک ایک طویل عرصہ تک کے لیے مارشل لا کی زدّ میں آ گیا۔1988ء میں جنرل ضیاء الحق مرحوم کے رحلت کے بعد ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی لیکن اپنے اقتدار کی مدت کو پورا نہ کر سکی۔ 1990ء میں مسلم لیگ برسر اقتدار آئی لیکن میاں محمد نواز شریف بھی اپنے اقتدار کی مدت کو پورا نہ کر سکے۔ 1993ء میں ایک مرتبہ پھر پاکستان پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی لیکن اس دفعہ بھی اقتدار کی مدت مکمل نہ ہو سکی۔ 1997ء میں میاں محمد نواز شریف ایک بار پھر بھاری اکثریت سے برسراقتدار آئے۔ اس اقتدار کے دوران حکومت اور اداروں کے درمیان کشمکش اپنے پورے عروج پر پہنچ گئی نتیجتاً میاں محمد نواز شریف کو اقتدار سے محروم ہو کر کئی برس تک جلا وطنی کے ایام کاٹنا پڑے۔ 2008ء کے انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو ایک قاتلانہ حملے میں جاں بحق ہو گئیں جس کے نتیجے میں ملک بھر میں پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے ایک ہمدردی کی لہر پیداہوئی اور 2008ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنی۔ یہ پہلی سیاسی حکومت تھی جس نے اپنی مدت کو مکمل کیا۔
2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نون برسراقتدار آئی اور پاکستان تحریک انصاف ایک بڑی جماعت بن کر اُبھری۔ پاکستان تحریک انصاف نے حکومت پر انتخابی دھاندلیوں کا الزام لگایا اور حکومت کے خلاف لمبی تحریک چلائی۔ اس تحریک کے باوجود حکومت نے اپنی مدت کو پورا کیا لیکن تحریک انصاف ایک نمایاں جماعت کی حیثیت سے ملک کے سیاسی منظر نامے پر ابھر کر سامنے آ گئی۔ 2018ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف برسر اقتدار آئی۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ان انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا، مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن کی دیگر کئی جماعتوں نے ان کی تائید کی۔مولانا فضل الرحمن کا یہ موقف تھا کہ اسمبلی کی نشستوں پر براجمان ہونے کے بجائے نئے انتخابات کا مطالبہ کیا جائے لیکن مولانا کی اس بات سے اپوزیشن جماعتوں نے اتفاق نہ کیا۔ مولانا نے بعد ازاں حکومت کے خلاف لانگ مارچ بھی کیا جس میں عوام کی کثیر تعداد شریک ہوئی۔ مولانا اپنے سیاسی مطالبات کو منوانے میں بظاہر کامیاب نہ ہو سکے لیکن ان کے مطالبات کی بازگشت قومی سطح پر سنائی دینے لگی۔ بعدازاں بھی انہوں نے حکومت کے خلاف جدوجہد کو جاری رکھا۔ حالیہ ایام میں ایک مرتبہ پھر مولانا نے پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نون اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے نام سے اتحاد قائم کیا اور حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا۔
16اکتوبر کو گوجرانوالہ میں ایک بڑے جلسے عام کا انعقاد ہوا جس میں حکومت کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے دھاندلی کرنے والے عناصر کے خلاف زبردست احتجاج کیا گیا۔ اس دوران اداروں کی سیاست میں مداخلت پر بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ اپوزیشن کے جلسے کے ردعمل کے طور پر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف کے زیراہتمام ایک کنونشن کاانعقاد کیا۔ اس کنونشن میں اپوزیشن کے الزامات کو بھرپور طریقے سے مسترد کیا اور اپوزیشن رہنمائوں پر الزام لگایا کہ یہ اپنی لوٹ مار چھپانے کے لئے اکٹھے ہو چکے ہیں۔ عمران خان کا یہ کہنا تھا کہ وہ ایک نئے روپ میں سامنے آئیں گے اور قومی خزانہ لوٹنے والوں کو عام عوام کی طرح جیلوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 
عام عوام کے ذہن میں اس حوالے سے یہ سوال موجودہے کہ عمران خان کو برسر اقتدار آئے دو سال سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے لیکن تاحال قومی خزانہ لوٹنے کے الزامات کو سیاسی کارڈ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور قومی خزانے کی وصولی کے حوالے سے کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہو سکی۔ عوام یہ چاہتے ہیں کہ اگر قومی خزانے کو لوٹا گیا ہے تو عمران خان کو اس حوالے سے عملی اقدامات کرنا چاہئیں اور اپوزیشن کی تحریک، جلسے اور اجتماعات کے انعقاد کی صورت میں اس الزام کو فقط ا پنے سیاسی دفاع یا بیانیے کے طورپر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ 
18اکتوبر کو کراچی میں بھی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ایک بڑے جلسہ عام کا انعقاد ہوا جس میں ایک مرتبہ پھر مولانا فضل الرحمن، بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ کے رہنماؤں نے حکومت کے خلاف بھرپور بیانات دیے۔پاکستان مسلم لیگ کے رہنما کیپٹن صفدر نے مزارقائد پر جا کر حکومت کے خلاف نعرے بازی بھی کی جس پربعد ازاں کیپٹن صفدر کو گرفتار کر لیا گیا جس پر اپوزیشن نے بھرپور احتجاج کیا۔ البتہ چند گھنٹوں کی اسیری کے بعدوہ ضمانت پر رہا ہو گئے۔ اس گرفتاری اور رہائی پر مختلف قسم کا ردّعمل سامنے آیا۔ حکومتی نمائندگان کا کہنا تھاکہ مزارِ قائد کی توہین کو برداشت نہیں کیا جا سکتا جبکہ پاکستان کے مذہبی طبقات نے اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا کہ ماضی میں مقدساتِ اُمت کی توہین کے سنگین واقعات رونما ہوئے لیکن حکومت نے ذمہ داروں کی گرفتار ی کے لیے کوئی مؤثر کردا ر ادا نہیں کیالیکن اپوزیشن رہنما کی نعرے بازی پر فوراً سے پہلے قانون متحرک ہو گیا۔ اپوزیشن کی سیاست فی الوقت انتخابی دھاندلیوں اور مہنگائی کے گرد گھوم رہی ہے جب کہ حکومت اس کو قومی خزانہ لوٹنے والوں کا اکٹھ قرار دے کر اپوزیشن کے خلاف جارحانہ عزائم کا اظہار کر رہی ہے۔
اگر ہم ٹھنڈے دل سے غور کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پاکستان جن مقاصد کے لیے قائم کیا گیا تھا‘ عرصۂ طویل گزر جانے کے باوجود بھی وہ مقاصد تاحال پورے نہیں ہو سکے۔ پاکستان کے قیام کا مقصد ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تھا جس میں کتاب وسنت کی عملداری ہو اور لوگوں کے مسائل کو کتاب وسنت کی روشنی میں حل کیا جائے۔ پاکستان میں تاحال قحبہ خانے موجود ہیں اور مختلف مقامات پر شراب کی تجارت ہو رہی ہے۔پاکستان میں عام آدمی کو انصاف میسر نہیں ہے اور اگر وطن عزیز میں کسی غریب آدمی کا استحصال ہو جائے تو کوئی اُس کی داد رسی کے لیے کردار ادا نہیں کرتا۔ اسی طرح پاکستان میں عوام کے ووٹوں کے مطابق حکومتوں کی تشکیل انتہائی ضروری ہے اور انتخابی عمل میں اداروں کی مداخلت کو کسی بھی طور پر درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی جمہوری ریاست کی حیثیت سے قائم کرنے کے لیے اگر قائد اعظم اورعلامہ اقبال کے وژن کو مدنظررکھا جائے تو یقینا پاکستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام کو اس بارے میں شدید قسم کے تحفظات ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اورہر حکومت کے مہنگائی پر قابو پانے کا دعویٰ کرنے کے باوجود پاکستان کی معیشت مستحکم نہیں ہو سکی۔ 
معاشی عدم استحکام کی وجوہات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم غور کریں تواس کی بہت بڑی وجہ معیشت میں سود کے ایک بڑے عنصر کا موجود ہونا ہے۔ سود کالین دین یقینا بہت بڑی بے برکتی کا سبب اور اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کے مترادف ہے۔ جب تک ہم داخلی اور خارجی سطح پر سودی لین دین کا تدارک نہیں کریں گے اس وقت تک معاشی بحرانوں سے نجات حاصل نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح قومی خزانے میں ذاتی تصرف کرنا کسی بھی اعتبار سے درست نہیں ہے۔اس تصرف کو روکنے کے لیے ملک میں غیر جانبدار اداروں کا قیام ازحد ضروری ہے جو سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کرکرپشن کرنے والے حکومتی اور غیر حکومتی عناصر کے خلاف بھرپور انداز میں کارروائی کرنے کا مینڈیٹ رکھتے ہوں۔ اگر ان اصولوں پر عمل کر لیا جائے تو یقینا پاکستان ترقی کے راستے پر چل سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ پاکستان کو سیاسی اور معاشی اعتبار سے مستحکم فرمائے، آمین !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں