اللہ تبارک وتعالیٰ نے تین ذی العقول اور کلام کی صلاحیت سے بہرہ ور مخلوقات کو پیدا کیا۔ فرشتے، جنات اور انسان۔ انسان اس لحاظ سے دیگر مخلوقات کے مقابلے میں ممتاز ہیں کہ ان میں شعور اور کلام کی صلاحیت موجود ہے۔ فرشتوں میں چونکہ شر کا داعیہ نہیں اس لیے وہ ہر وقت اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات کے پابند رہتے ہیں؛ چنانچہ وہ اپنے شعور اور گفتار سے کوئی ایساکام انجام نہیں دیتے جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی کا معمولی سے شائبہ بھی ہو۔ اس کے مدمقابل جنات اور انسانوں میں خیر اور شر کا داعیہ موجودہے اس لیے یہ کئی مرتبہ اپنی زبان کا درست استعمال اور کئی مرتبہ غلط استعمال کرتے ہیں۔ زبان کا درست استعمال جہاں انسان کو مخلوق کی نظروں میں ممتاز کرتا ہے‘ وہیں ا س کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے قریب لے جانے کا سبب بھی بنتا ہے۔ اس کے مدمقابل زبان کا غلط استعمال جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناراضی کا باعث بن سکتا ہے وہیں انسان کو مخلوق کی نظروں میں گرانے کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ زبان سے صادر ہونے والے گناہ متعدد ہیں‘ جن کا کتاب وسنت میں بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں سے چند اہم درج ذیل ہیں۔
1۔دوسروں کا استہزا کرنا: بعض لوگ اپنی مالی، سیاسی اور سماجی حیثیت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے دوسروں لوگوں کا استہزا کرتے ہیں۔ اس طریقے سے وہ جہاں پر ان کو بدنام کرنے کی جستجو کرتے ہیں‘ وہیں ان کی دل شکنی کے بھی مرتکب ہوتے ہیں۔ اس قسم کے گناہوں کی اللہ تبارک وتعالیٰ نے شدید مذمت کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حجرات کی آیت نمبر 11میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے (وہ لوگو) جو ایمان لائے ہو! نہ مذاق کرے کوئی قوم کسی (دوسری) قوم سے‘ ہو سکتا ہے کہ وہ بہتر ہوں اُن سے۔ اور نہ کوئی عورتیں (مذاق کریں دوسری) عورتوں سے‘ ہو سکتا ہے کہ وہ بہتر ہوں اُن سے۔ اور نہ تم عیب لگاؤ اپنے نفسوں (یعنی ایک دوسرے) پر اور ایک دوسرے کو مت پکارو (برے) القاب سے (کسی ) کو فسق والا نام (دینا) بُرا ہے ایمان لانے کے بعد، اور جس نے توبہ نہ کی تو وہ لوگ ہی ظالم ہیں‘‘۔
2۔غیبت: کسی کی پیٹھ پیچھے اس کی برائی کرنا جو اس کو ناگوارہو‘ غیبت کہلاتا ہے۔ اس برائی کا چلن ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ حجرات ہی کی آیت نمبر 12میں اس برائی کی شدید انداز میں مذمت کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''اور نہ غیبت کرے تم میں سے کوئی دوسرے کی‘ کیا تم میں سے کوئی ایک (اس بات کو) پسند کرتا ہے کہ وہ گوشت کھائے اپنے مردہ بھائی کا‘ تو تم نا پسند کرتے ہو اُسے، اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا‘ نہایت رحم کرنے والا ہے‘‘۔
3۔ بہتان طرازی: غیبت کے ساتھ ساتھ تہمت اور بہتان طرازی بھی بہت بڑا گناہ ہے۔ کسی شخص پر ایسا الزام لگانا جو اس میں موجود نہ ہو‘ ہر اعتبار سے قابلِ مذمت ہے۔ بعض لوگ پاک دامن عورتوں کی کردار کشی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے اسلام میں حدِ قذف کو مقرر کیا گیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر 4میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور وہ لوگ جو تہمت لگائیں پاکدامن عورتوں پر‘پھر نہ لائیں چار گواہوں کو تو کوڑے مارو انہیں اسی(80) کوڑے اور نہ قبول کرو ان کی گواہی کو کبھی بھی اور وہی لوگ نافرمان ہیں‘‘۔ ایسے لوگ دنیا اور آخرت میں لعنت کے مستحق ہیں اور ان کو آخرت دردناک عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سورہ نور ہی کی آیت نمبر 23 اور 24میں ارشاد ہوا: ''بے شک وہ لوگ جو تہمت لگاتے ہیں پاکدامن بے خبر مومن عورتوں پر‘ وہ لعنت کیے گئے دنیا اور آخرت میں اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔ جس دن گواہی دیں گے ان کے خلاف ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں‘ اس کی جو وہ عمل کیا کرتے تھے‘‘۔
4۔ جھوٹ : ہمارے معاشرے میں جھوٹ کا چلن بھی عام ہے۔ لوگ معمولی معمولی بات پر جھوٹ بولنے سے نہیں کتراتے۔ ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ جھوٹ بہت بڑا گناہ ہے۔ جھوٹوں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں لعنت کی ہے جبکہ نبی کریمﷺ کی احادیث مبارکہ میں بھی اس حوالے سے سخت وعید آئی ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، منافق کی علامتیں تین ہیں؛ جب بات کرے‘ جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے‘ اس کے خلاف کرے اور جب اس کو امین بنایا جائے تو خیانت کرے۔
5۔گالی:ہمارے معاشرے میں جب لوگ آپس میں لڑتے ہیں تو گالی گلوچ پر اتر آتے ہیں۔ گالی دینا ہراعتبار سے قابلِ مذمت ہے اور نبی کریمﷺ کی حدیث مبارکہ میں بھی اس فعلِ شنیع کی مذمت کی گئی ہے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری کی ایک حدیث درج ذیل ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور مسلمان سے لڑنا کفر ہے۔
جہاں پر زبان کا منفی استعمال نہایت قابلِ مذمت ہے‘ وہیں پر زبان کا مثبت استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔ سچائی سے کام لینا‘ خیر کی بات کہنا اور نرم روی کا مظاہرہ کرنا ہر اعتبارسے قابلِ تحسین ہے۔ لیکن زبان کا سب سے اعلیٰ اور بہترین استعمال یہ ہے کہ انسان زبان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کے ابلاغ کے لیے استعمال کرے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 110میں اُمت محمدیہ کے حوالے سے ارشاد فرمایا: ''ہو تم بہترین اُمت (جسے ) نکالا (پیدا کیا ) گیا ہے لوگوں (کی اصلاح) کے لیے (کہ) تم حکم دیتے ہو نیکی کا اور تم روکتے ہو برائی سے اور تم ایمان لاتے ہو اللہ پر،اور اگر ایمان لے آتے اہل کتاب(تو) یقینا بہتر ہوتا ان کے لیے‘ اُن میں سے کچھ ایمان لے آئے ہیں اور ان کی اکثریت نافرمان ہی ہے‘‘۔ اسی طرح سورہ حٰم سجدہ کی آیت نمبر 33میں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے دین کی دعوت دینے والے کی بات کو بہترین بات قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:''اور کون زیادہ اچھا ہے بات کے لحاظ سے‘ اس سے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ بے شک میں فرمانبردار وں میں سے ہوں ‘‘۔
دعوت دین یقینا ہر اعتبار سے بہترین عمل ہے۔ اس عمل کو مؤثر بنانے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو اس بات کی تلقین کی ہے کہ اِن کو پُرحکمت اور اچھے انداز میں دین کی دعوت دینی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نحل کی آیت نمبر 125میں ارشاد فرماتے ہیں: ''(اے نبی) بلائیے اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت (کے ساتھ) اور بحث کیجئے ان سے اس (طریقہ) سے جو (کہ) وہ سب سے اچھا ہو،بے شک آپ کا رب خوب جاننے والا ہے اس کو جو گمراہ ہوا اس کے راستے سے اور وہ خوب جاننے والا ہے‘ ہدایت پانے والوں کو‘‘۔
دعوتِ دین کا عمل کئی مرتبہ خطرات اور فتنوں سے عبارت ہوتا ہے اور بہت سے بااثر لوگ سچے داعی کے مخالف ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح داعی کو کئی مرتبہ مختلف طرح کی ترغیبات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن حق پرست داعی نہ کسی صاحب ِاثر انسان کے دباؤ کو دیکھتا ہے اور نہ ہی صاحبِ سرمایہ کی طرف سے ملنے والی غلط ترغیب پر کان دھرتا ہے بلکہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی نشرواشاعت کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے رکھتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں دین کی دعوت دینے والے دو عظیم داعیوں کا ذکر کیا۔ سورہ یٰسین میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک مردِ مجاہد کا ذکر کیا جس نے انبیاء علیہم السلام کی دعوت کی طرف راغب کرنے کی بات کی۔اُس کو اِس عمل صالح کی وجہ سے شہید کر دیا گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو جنت میں داخل فرما دیا اور اس کی اچھی باتوں کو ہمیشہ کے لیے قرآن مجید کا حصہ بنا دیا۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ مومن میں ایک ایسے مومن کا ذکر کیا جوآلِ فرعون میں سے تھا اور اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا لیکن جب فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شہید کرنے کا ارادہ کیا تو اس نے نتائج کی پروا کیے بغیر دربارِ فرعون میں نہایت فصیح وبلیغ خطاب کیا۔ جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں درج فرما دیا اور رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ایک مثال بنا دیا۔
زبان کے بامقصد استعمال میں دین کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ تلاوت قرآنِ مجید، ذکر الٰہی، دعا اور حق بات کی تائید کرنا بھی شامل ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں زبان کا درست استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین !