اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمام انسانوں میں احساسات اور جذبات کو ودیعت کیا ہے۔ اسی طرح انسانوں میں جوش، حمیت اور غیرت کے جذبات بھی موجود ہیں۔ جب بھی کبھی کسی انسان کے کسی پیارے یا قابلِ احترام رشتہ دار ،عزیز یا استاد کی توہین کی جائے تو انسان مشتعل ہو جاتا ہے اوراس کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ توہین کرنے والے سے اس کی زیادتی کا بدلہ چکایا جا سکے۔ یہ غیرت ، حمیت ، جوش اور جذبہ اس وقت اپنے پورے عروج پر پہنچ جاتا ہے جب کسی ایسی شخصیت کی توہین ہو جسے انسان مقدس و مقدم سمجھتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کے بعد سب سے زیادہ قابل عزت و قابلِ احترام حضرت رسول اللہ ﷺکی ہستی مبارک ہے ۔نبی مہربانﷺ مسلمانوں کے لیے انتہائی قابلِ تعظیم ہیں اور اُمت مسلمہ کسی بھی شخصیت اور ہستی کو رسول اللہﷺ کی ذاتِ اقدس سے زیادہ مقدس اور معزز نہیں سمجھتی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے بھی سورہ منافقون کی آیت نمبر 8میں اس امر کا اعلان فرمایا: '' عزت تو صرف اللہ کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اور مومنوں کے لیے ہے اور لیکن منافق نہیں جانتے۔‘‘
مسلمان جہاں حضرت رسول اللہ ﷺکی تعظیم کے جذبات سے لبریز ہیں ‘وہیں پر اہلِ ایمان کے دل میں آپؐ کی والہانہ عقیدت اور محبت بھی موجود ہے اور یہ عقیدت دنیا کے ہر رشتے سے بڑھ کر ہے۔ دنیا میں انسان کی اپنے خونی رشتے اورقریبی اعزا واقارب، والدین اور بہن بھائیوں سے ، اسی طرح گھر بار اور سامان ِ تجارت سے بہت سے زیادہ وابستگی ہوتی ہے لیکن کوئی بھی شخص اس وقت تک مومن ومسلمان نہیں ہو سکتا جب تک اس کو حضرت رسول اللہ ﷺکی ذاتِ اقدس ان تمام چیزوں اور رشتوں سے بڑھ کر عزیز نہیں ہو گی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کو سورہ توبہ کی آیت نمبر 24میں یوں بیان فرماتے ہیں: ''کہہ دیجئے اگر ہیں تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان اور وہ مال (کہ) تم نے کمایا ہے اُس کو اور (وہ) تجارت (کہ) تم ڈرتے ہو اُس کے مندا پڑ جانے سے اور (وہ) گھر (کہ) تم پسند کرتے ہو اُنہیں‘ محبوب ہیں تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے تو تم انتظار کرو یہاں تک کہ لے آئے اللہ اپنے حکم کو، اور اللہ نہیں ہدایت دیتا نافرمانی کرنے والوں کو‘‘۔
محبت اورتعظیم کے ان شدید جذبات کی وجہ سے مسلمان توہین کی ناپاک جسارت پر شدید غم وغصہ، ذہنی انتشار اور بے قراری کا شکار ہو جاتا ہے اور حقیقی مسلمان کے دل میں ایک ہی تڑپ اور تمنا ہوتی ہے کہ توہین کی ناپاک جسارت کرنے والے شخص کو کسی نہ کسی طریقے سے بدترین انجام سے دو چار ہوتا ہوا دیکھ سکے۔ اس فطری خواہش کی تائید شریعت اسلامیہ سے بھی ہوتی ہے۔نبی کریمﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں آپؐ کو ایذا دینے والے اور آپؐ کی شان میں توہین کرنے والوں کوریاستِ اسلامیہ میں کڑی سزاؤں کا سامنا کرناپڑا۔ کعب ابن اشرف یہودی کو اس کی شقاوت کے سبب حضرت محمدبن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، اسی طرح ابو رافع یہودی کو حضرت عبداللہ ابن عتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے انجام سے دوچار کیا تھا۔ اسما بنت مروان نامی گستاخ عورت کو حضرت عمیر ابن عدی رضی اللہ تعالیٰ نے واصلِ جہنم کیا تھا۔ شاتم رسول شرعی اعتبار سے سزائے موت کا حقدار ہے۔ اس حوالے سے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے '' الصارم المسلول علی شاتم الرسول صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کے نام سے ایک باقاعدہ کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں کتاب وسنت کے دلائل اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت وکردار سے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ شاتم رسول موت کا حقدار ہے۔ شریعت کے اس فیصلے کو مختلف بلادِ اسلامیہ میں قانونی حیثیت حاصل ہے۔ پاکستان میں بھی اس حوالے سے 295-C کا قانون موجود ہے جو توہین رسالت کی ناپاک جسارت کرنے والوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کی ضمانت دیتا ہے؛ چنانچہ بلادِ اسلامیہ اورپاکستان میں توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والے کسی بھی شخص کو کیفر کردار تک پہنچانے کے قانونی راستے اور امکانات موجود ہیں۔ اس قانونی راستے کی وجہ سے معاشرے میں خلفشار اور کشیدگی پیدا ہونے کے خدشات تقریباً معدوم ہو جاتے ہیں۔ اس کے مدمقابل یورپی ممالک میں حرمت رسولﷺ کے حوالے سے قوانین موجود نہیں ہیں اور ان ملکوں میں کئی مرتبہ توہین پر مبنی اقدامات کی حریتِ فکر اور آزادی ٔ اظہار کی آڑ میں نہ صرف یہ کہ اجازت دی جاتی ہے بلکہ کئی مرتبہ ان ناپاک اقدام کی باقاعدہ طور پر حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے۔ ماضی میں شاتمِ رسول سلمان رشدی ملعون کو باقاعدہ طور پر سرکاری اعزاز دیا گیا۔ اسی طرح گیرٹ ویلڈرز نے بھی توہین رسالت کی سیاہ کارروائیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بدنام زمانہ جریدہ چارلی ہیبڈو بھی اس فعل شنیع میں ملوث رہا۔ جب ہم ان ناپاک اقدامات اور جسارتوں کے محرکات پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان ناپاک جسارتوں کے مقاصد درج ذیل ہیں:
1۔ اسلام کے خلاف نفرت کا اظہار کرنا۔
2۔ معاشرے میں اسلام کی طرف مائل لوگوں کو دینِ حق سے بدظن کرنے کی کوشش کرنا۔
3۔ مسلمانوں کو اشتعال دلانا۔
یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کی بڑی تعداد ان توہین آمیز اقدامات پر بہت زیادہ گھٹن، بے قراری اور بے بسی محسوس کرتی ہے اور اس حوالے سے وہ رہنمائی طلب کرتے ہیں کہ ان کی اس ضمن میں کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں! یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کو اس ضمن میں دو حوالوں سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
1۔ اپنے ملک کے سیاسی نمائندگان، دانشوروں اور ریاستی عہدیداران کے سامنے یہ بات رکھی جائے کہ اگر انہوں نے ہتکِ عزت اور توہینِ عدالت کے قوانین وضع کر رکھے ہیں تو اُن کو مسلمانوں کے مقتدیٰ، پیشوا اور پیغمبرﷺ کے حوالے سے بھی قانون سازی کرنا چاہیے۔
2۔ احادیث مبارکہ اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے مستند لٹریچر کو ان ممالک میں بڑے پیمانے پر تقسیم کرنے کا بندوبست کریں تاکہ سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے کیے جانے والے منفی پروپیگنڈے کا بھرپور طریقے سے ازالہ ہو سکے۔
مسلمان ممالک میں رہنے والے زعما اور رہنماؤں کی بھی اس حوالے سے بہت سی ذمہ داریاں ہیں، ان کو اپنے اجتماعات، جلسے، جلوسوں کے ذریعے حکمرانوں کو دباؤ میں لانا چاہیے اور ان سے اس بات کا مطالبہ کرنا چاہیے کہ توہین رسالت کی ناپاک جسارت کرنے والے عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے اپنے سیاسی اثر و رسوخ کو استعمال میں لایا جائے۔ اسی طرح اگر توہین آمیز اقدامات کی سرپرستی کرنے والی کوئی ریاست یا حکومت ہو توا س سے سفارتی اور تجارتی تعلقات کو منقطع کرنا انتہائی ضروری ہے۔ وہ لوگ جو ہمارے پیاروں یا قریبی افراد کو برا بھلا کہتے ہوں‘ ہم ان کے ساتھ ترکِ تعلقات پر فی الفور آمادہ ہو جاتے ہیں تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ جن حکومتوں اور ریاستوں نے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت پر حملہ کیا ہو‘ ہم ان کے ساتھ بدستور سفارتی اور تجارتی تعلقات برقرار رکھیں۔فرانس کے صدر میکرون کے اقدامات درحقیقت دنیا میں تہذیبوں کے تصادم کو ہوا دینے کا بہت بڑا ذریعہ بن سکتے ہیں‘ اس لیے ان اقدامات کی روک تھام کے لیے دنیائے اسلام کو فرانس کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات منقطع کرنا چاہئیں۔
عصر حاضر میں معاشی بحران کا سامنا کرنا کسی بھی ریاست اور ملک کے لیے نہایت مشکل ہے۔ اگر دنیائے اسلام متحد ہو کر فرانس کا معاشی اور سیاسی بائیکاٹ کر دے تو یقینا فرانس کے پالیسی ساز اس بات کو سمجھ جائیں گے کہ فرانس کے صدر اور ریاست غلط راستے پر چل رہے ہیں۔ اس حوالے سے مسلمان حکومتیں نمایاں کردار ادا کر سکتی ہیں لیکن بے حسی اور غفلت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ حکمرانوں کے شعور اور ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے اجتماعی احتجاج کرنا پڑتا ہے۔اس اجتماعی احتجاج ہی کے ذریعے مسلمان حکمرانوں کو ٹھوس اقدامات کرنے پر آمادہ و تیار کیا جا سکتا ہے۔ بلادِ اسلامیہ میں رہنے والے مسلمانوں کو حرمت رسول اللہﷺ کے حوالے سے کردار ادا کرنے والے رہنماؤں اور علما کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے تاکہ توہین رسالت کے ناپاک اقدامات کو روکا جا سکے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حرمت رسولﷺ کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!