آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود خان ایک نفیس ‘ صاحبِ اخلاق اور علم دوست شخصیت ہیں۔ ایک عرصے سے مسئلہ کشمیر کی مختلف فورمز پر نمائندگی کرنے میں مصروف ہیں۔ 29اکتوبر کو نمازِ ظہر کے بعد آپ مرکزی جمعیت کے مرکز راوی روڈ لاہور تشریف لائے۔ آپ کے استقبال کے لیے مرکزی جمعیت کے امیر سینیٹر پروفیسر ساجد میر ‘ مرکزی رہنما مولانا عبدالرشید حجازی‘ مرکزی جمعیت آزاد کشمیر کے رہنما دانیال شہاب‘ مولانا عتیق الرحمن کشمیری‘ برادر اصغر معتصم الٰہی ظہیر اور راقم الحروف موجود تھے۔ صدر آزاد کشمیر مرکز راوی روڈ پہنچے تو امیر جمعیت نے اپنے رفقا کے ہمراہ مہمان کا پرتپاک انداز میں استقبال کیا۔ جمعیت کے دفتر میں صدر آزاد کشمیر کو مرکزی جمعیت اہلحدیث کی کارکردگی کے حوالے سے ایک ڈاکومنٹری دکھائی گئی اور ان کو جمعیت کی تعلیمی ‘ تنظیمی ‘ رفاہی اور ابلاغی جستجو سے آگاہ کیا گیا۔ بعد ازاں انہیں مرکزی جمعیت اہل حدیث کے زیر اہتمام چلنے والے چار اسلامی سیٹلائٹ ٹیلی ویژن چینلز کے دفاتر کابھی دورہ کرایا گیا۔ صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان صاحب نے ان دفاتر کا بڑی دلچسپی سے معائنہ کیا اور انہوں نے قرآن وسنت کی نشر واشاعت اور ابلاغ کے لیے قائم کیے جانے والے ڈیپارٹمنٹس کے ساتھ ساتھ تکنیکی اعتبار سے ٹیلی ویژن کو چلانے والے عملے سے مختلف سوالات بھی کیے۔ سردار مسعود خان کے سوالات سے اس بات کا اندازہ ہو رہا تھا کہ انہیںدینی معلومات کے ساتھ خصوصی لگاؤ ہے ۔ٹیلی ویژن کے دفاتر کے دورے کے بعد ہم مہمان خصوصی کے ہمراہ مرکز راوی روڈ کے کانفرنس ہال میں داخل ہوئے جہاں کشمیر کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔ 27اکتوبر کو دنیا بھر میں کشمیر میں جاری مظالم کے حوالے سے اہلِ کشمیر اور ان سے وابستہ لوگوں نے یومِ سیاہ کا انعقاد کیاتھا۔ اس موقع پر بین الاقوامی سطح پر بھارت کے ریاستی مظالم کے خلاف بھرپور انداز میں احتجاج کیا گیا تھا۔
مرکزی جمعیت اہلحدیث کے زیر اہتمام ہونے والی یہ کانفرنس اس اعتبار سے بروقت تھی کہ دو روز قبل کشمیر کے حوالے سے یوم سیاہ منایاجا چکا تھا اور توقع تھی کہ آزاد کشمیر کے صدر اس مناسبت سے قوم کو خصوصی پیغام دے سکیں گے۔ کانفرنس سے مقررین نے اپنے اپنے انداز میں اظہارِ خیال کیا۔ مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سربراہ پروفیسر ساجد میر نے اس موقع پر کہاکہ اہلِ کشمیر نے پاکستان سے جس انداز میں محبت کی ہے ‘ سچی بات ہے کہ ہم ان کی محبت کا قرض چکانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ گو ہم نے بھی کسی نہ کسی اعتبار سے اہلِ کشمیر کے لیے آواز اُٹھائی ہے لیکن کشمیریوں نے عملی قربانیاں دیں جبکہ ہماری محبت زبان وبیان تک محدود رہی۔ اس موقع پر میں نے بھی اپنی چند گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھا جنہیں میںقارئین کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں:
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لحاظ سے مسئلہ کشمیر انتہائی اہم اور سنگین مسئلہ ہے۔ کشمیر میں گزشتہ کئی دہائیوں سے نوجوانوں کا استیصال کیا جا رہا ہے۔ بہو ‘ بیٹیوں اور بہنوں کی آبروریزی کی جا رہی ہے اور ریاستی جبر کے ذریعے انسانوں کے حقوق غصب کیے جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ اور اقوام عالم کی یہ ذمہ داری ہے کہ مسئلہ کشمیر پر خصوصی توجہ دیں لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ اقوام عالم کا ضمیر بھی گروہی اور مذہبی عصبیتوں میں جکڑا ہوا ہے۔ اگر دنیاکے کسی مقام پر غیر مسلموں کا استحصال ہو تو عالمی ضمیر فوراً حرکت میں آجاتا ہے لیکن مسلمانوں کے استحصال پرعالمی ضمیر پر جمود طاری رہتا ہے اور فلسطین‘ کشمیر اور برما کی ناگفتہ بہ صورتحال پر اقوام متحدہ اور اقوام عالم اپناکردار ادا کرنے پر آمادہ وتیار نہیں ہوتیں۔ کشمیر کے بسنے والوں کی اکثریت مسلمان ہے اس لیے اُمت مسلمہ کو اس مسئلے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ حجرات میں مومنوں کو بھائی بھائی قرار دیا ہے اور بقول شاعر ؎
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستان کا ہر پیرو جواں بے تاب ہو جائے
چنانچہ اُمت کی یہ ذمہ داری ہے کہ مسئلہ کشمیر پر خصوصی توجہ دے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عالم اسلام کی ترجیحات میں اُمت کے مسائل اس سطح پر نہیں جس پر ہونے چاہئیں۔ماضی میں رابطہ عالم اسلامی کے ذمہ داران نے اس حوالے سے اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کیا ہے‘ لیکن سچی بات یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کو جس انداز میں اُٹھایا جانا چاہیے تھا اس انداز میں نہیں اُٹھایا جا سکا۔ کشمیریوں پر ہونے والی ظلم کی بنیادی اور بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ کشمیری پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں اس لیے پاکستان کی ریاست اور افراد پر اس حوالے سے سب سے بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو خصوصی طور پر اجاگر کیا جائے۔ بدنصیبی سے ہمارے رہنماؤں کی سیاسی ترجیحات اپوزیشن میں کچھ اور ہوتی ہیں اور برسر اقتدار آنے کے بعد کچھ اور ہو جاتی ہیں۔ کشمیر کے مسئلے کو اس انداز میںاہمیت نہیں دی جا سکی جس انداز میں اس کو اہمیت ملنی چاہیے تھی؛ چنانچہ کشمیری ایک عرصے سے ظلم وستم کی چکی میں پسنے کے دوران پاکستانی عوام اور حکام کی تائید کے منتظر ہیں۔ اس حوالے سے حکومتیں اپنی ذمہ داری کو نبھانے سے قاصر نظر آ رہی ہیں۔ عوام کا یہ حق بنتا ہے کہ حکومت پر اجتماعات‘ جلسے ‘ جلسوں اور ریلیوں کے ذریعے دباؤ ڈالاجائے کہ وہ اہلِ کشمیر کی مدد کریں اور اس حوالے سے پاکستان کے اداروں کو بھی کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ کشمیری ایک عرصے سے قربانیاں دے رہے ہیں لیکن خدانخواستہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ظلم کی چکی میں پستے پستے الحاقِ پاکستان کے علاوہ دیگر آپشنز پر بھی غور کرنے پر مجبور ہو جائیں۔
اس موقع پر پر صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان صاحب نے بھی بڑے فصیح وبلیغ انداز میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا اور یہ کہا کہ کشمیر کے نوجوان ایک عرصے سے بھارتی ظلم وستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ‘ کشمیری نوجوانوں پر کریک ڈاؤن کے بہانے گھروں میں گھس کر بہنوں اور بیٹیوں کی آبروریزی کی جاتی ہے اور جب کسی گھر میں چھاپہ پڑتا ہے تو باپ اور بھائی اپنی بیٹی اور بہن کو عقبی دروازے یا کسی محفوظ راستے سے سب سے پہلے گھر سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس موقع پر ہونے والی زیادتی اور استحصال کے خلاف آواز اُٹھانے کی صورت میں نوجوان تو نوجوان رہے نابالغ اور کمسن بچوں کو بھی دودوسال کے لیے قید وبند کی صعوبتیں سہنا پڑتی ہیں اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو ذہنی رجحانات بدلنے والے مراکز یعنی کنسنٹریشن کیمپس میں منتقل کرکے ان کی برین واشنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس تمام ظلم وستم کے باوجود پاکستان کے یوم ِآزادی پر کشمیر میں جوش وجذبہ اپنے پورے عروج پر نظر آتا ہے اور کشمیری پاکستان کی محبت سے ہر موقع پر سرشار نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر حریت رہنما علی گیلانی اور دیگر کشمیری رہنماؤں کے جذبات کا بھی ذکر کیا کہ انہوں نے ہمیشہ پاکستان سے والہانہ وابستگی کا اظہار کیا ہے۔ سردار مسعود خان صاحب نے مسئلہ کشمیر کے سیاسی اور سفارتی حل کی جستجو کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی ذکر کیا کہ کشمیر کی آزادی کے لیے جہاد کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے ریاست کو جہادی بیانیے کواختیار کرنا چاہیے اور اس مسئلے میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔انہوں نے دکھ کا اظہار کیا کہ بعض علما بھی اس حوالے سے شش وپنج اور کشمکش کا شکار ہیں جبکہ ظلم اور بربریت کے خلاف جدوجہد کرنا یہ ہر مسلمان کے لیے لازم ہے۔ انہوں نے اس موقع پر پاکستان کے حکمرانوں کی ذمہ داریوں کا ذکر کرتے ہوئے اس امر کی طرف توجہ مبذول کروائی کہ گاہے بگاہے مختلف سطح پر مسئلہ کشمیر کے لیے آواز اٹھائی جاتی ہے لیکن حکمرانوں کے ضمیروں کو جھنجوڑنے کے لیے ایک بھرپور عوامی تحریک کی ضرورت ہے۔ انہوں اس حوالے سے ویتنام کا بھی حوالہ دیا کہ ویتنام جنگ کے ذریعے ان حقوق کو حاصل نہیں کر سکا جو ایک بھرپور عوامی تحریک کے ذریعے حاصل کیے گئے۔
سردار مسعود خان صاحب نے اس موقع پر پاکستان کی مذہبی جماعتوں سے بالعموم اور مرکزی جمعیت اہلحدیث سے بالخصوص اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی اپیل کی۔ ان کا یہ گمان تھا کہ اگر پاکستان کی تمام مذہبی جماعتیں اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں تو اہل کشمیر کے دکھوں کا مداوا ہو سکتا ہے۔ کشمیر کانفرنس اپنے جلو میں بہت سی دکھ اور درد بھری یادوں‘ جذبات اور احساسات لیے ہوئے اختتام پذیر ہو گئی۔ لوگوں نے اس کانفرنس سے کشمیر کاز کے حوالے سے بھرپور آگہی حاصل کی اور ایک نئے جذبے کے ساتھ وہاں سے رخصت ہوئے کہ اگر پاکستان کے مذہبی قائدین اور کشمیر سے وابستگی رکھنے والے رہنما انہیں اس حوالے سے کال دیں گے تو یقینا وہ اپنا کردار ادا کرنے کے لیے آمادہ رہیں گے۔