"AIZ" (space) message & send to 7575

اُمتِ مسلمہ کی ذمہ داریاں

ہم دنیا میں رہتے ہوئے والدین ، رشتہ دار، اعزہ واقارب ، دوست احباب، ہمسایوں اوراولاد کے حقوق کی بات کرتے اور سنتے رہتے ہیں لیکن بالعموم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ان حقوق‘ جو اُمت کے ذمہ واجب الادا ہیں‘ کے حوالے سے کم ہی گفتگو کی جاتی ہے۔ حالیہ ایام میں جب فرانس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں ناپاک گستاخی کی جسارت کی تو اس کے بعد جہاں پر گستاخی کے تدارک کے حوالے سے گفتگو ہوئی‘ وہیں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کے حوالے سے بھی اپنے نظریات اور تصورات کی اصلاح کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے اُمتیوں پر بہت سے حقوق ہیں جن کی ادائیگی کے لیے اُمت کو ہمہ وقت کوشاں رہنا چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اہم حقوق درج ذیل ہیں:
1۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ایمان لانا: اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر ایمان لانے کے بعد ملائکہ، آسمانی کتابوں ،اللہ کے رسولوں ، یومِ حساب اور تقدیر پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان رکھتے ہیں اور آپﷺکو اللہ تبارک وتعالیٰ کا محبوب نبی اور رسول مانتے ہیں اور دنیا والوں کو اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ بھی آپؐ کی رسالت اور نبوت پر ایمان لائیں۔ 
2۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی تسلیم کرنا: جہاں پر آپﷺ کی رسالت اور نبوت پر ایمان لانا ضروری ہے وہیں پر نبی کریمﷺ کو اللہ تبارک وتعالیٰ کا آخری نبی ماننا بھی ضروری ہے۔ کتاب وسنت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپﷺ کے بعد قیامت تک کسی نئے نبی آنے کے کوئی امکانات نہیں رہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قرب قیامت دمشق کی جامعہ مسجد کے شرقی مینار پر نازل ہوں گے؛ تاہم آپؑ کو نبوت ورسالت نبی کریمﷺ کی تشریف آوری سے پہلے مل چکی ہے۔اس لیے آپؑ کے نزول سے کسی نئے نبی کے امکان کی گنجائش نہیں نکلتی ۔ ختم نبوتﷺ کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ احزاب کی آیت نمبر 40 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''نہیں ہیں محمدﷺ باپ تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے‘ لیکن (وہ) اللہ کے رسول اور خاتم النبیین (آخری نبی) ہیں ‘‘۔
3۔ نبی کریمﷺکی عظمت کا اعتراف: نبی کریمﷺ کی عظمت کا اعتراف کرنا بھی ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی جمیع مخلوقات میں سے جو مقام اور رتبہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے جمیع انبیاء کرام کو حاصل ہے وہ کسی دوسرے کو حاصل نہیں لیکن نبی کریمﷺ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سابقہ انبیاء کرام کے مقابلے پر مختلف اسباب کی وجہ سے فضیلت عطا فرمائی۔ آپﷺ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے آفاقی اور عالمگیر نبوت عطا فرمائی۔ آپﷺ کی نبوت کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے دوام عطا فرمایا اور آپﷺکو ختم نبوت کے شرف سے بہرہ ور فرمایا۔ آپﷺ کو اللہ تعالیٰ نے شافعِ روزِ محشر، ساقی ِ حوضِ کوثر اور صاحبِ مقامِ محمود بنایا۔ نبی کریمﷺ کو جہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے رہتی دنیا تک کے لوگوں کا ہادی اور مقتدیٰ بنایا وہاں پر سفرِ معراج میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے نماز میں حبیب علیہ السلام کو سابقہ انبیاء علیہم السلام کا امام بنا کر اس بات کو ثابت کر دیا کہ آپﷺ محض آنے والوں کے امام بن کر نہیں آئے بلکہ جانے والوں کے بھی امام اور مقتدیٰ ہیں۔ 
4۔نبی کریمﷺ سے والہانہ محبت: کسی بھی مسلمان کو نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کے ساتھ تمام دوست احباب اور رشتہ داروں سے بڑھ کر محبت ہونی چاہیے اور اس وقت تک انسان کا ایمان کامل نہیں ہو سکتا جب تک وہ نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کے ساتھ دنیا کی تمام چیزوں سے بڑھ کر پیار نہیں کرتا ۔ اس حقیقت کا اظہار اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ توبہ کی آیت نمبر 24میں یوں کیا: ''کہہ دیجئے اگر ہیں تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان اور وہ مال (کہ) تم نے کمایا اُن کو اور (وہ ) تجارت (کہ) تم ڈرتے ہو اُس کے مندا پڑ جانے سے اور (وہ) گھر (کہ) تم پسند کرتے ہو اُنہیں‘ زیادہ محبوب ہیں تمہیں اللہ اوراس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے تو تم انتظار کرو یہاں تک لے آئے اللہ اپنے حکم کو ، اور اللہ نہیں ہدایت دیتا نافرمانی کرنے والے لوگوں کو ‘‘۔ اسی طرح مختلف احادیثِ مبارکہ سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کے ساتھ والہانہ محبت کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ اس حوالے سے دو اہم احادیث درج ذیل ہیں: 
1۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بیشک رسول اللہﷺنے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے‘ تم میں سے کوئی بھی صاحبِ ایمان نہ ہو گا جب تک میں اس کے والد اور اولاد سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں۔
2۔صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا : ''تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہو جائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا۔ اول یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب بن جائیں، دوسرے یہ کہ وہ کسی انسان سے محض اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھے۔ تیسرے یہ کہ وہ کفر میں واپس لوٹنے کو ایسا برا جانے جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے۔‘‘
5۔نبی کریمﷺ کی غیر مشروط اطاعت: مسلمانوں کے لیے نبی کریمﷺ کی غیر مشروط اطاعت کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ جو شخص نبی کریمﷺ کے احکامات کو مانتا ہے درحقیقت کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی اطاعت کو اختیار کرتا ہے؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 80میں ارشاد فرماتے ہیں: ''جو اطاعت کرے گا رسول اللہﷺ کی تو درحقیقت اس نے اطاعت کی اللہ تعالیٰ کی ‘‘۔ 
اسی طرح سورہ آل عمران میں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ جو اللہ تبارک وتعالیٰ کے نبیﷺ کی اطاعت کرتا ہے وہ اللہ کا محبوب بن جاتا ہے۔ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 31میں ارشاد ہوا:''آپ کہہ دیں اگر تم محبت کرتے ہو اللہ سے تو میری پیروی کرو‘ اللہ تم سے محبت کرنے لگے گااور وہ معاف کر دے گا تمہارے گناہ اور اللہ بہت بخشنے والا بہت مہربان ہے‘‘۔ 
6۔ نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس پر درودبھیجنا: اچھا انسان ہمیشہ اپنے محسنوں کا قدردان ہوتا اور ان کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بنی اسرائیل میں اپنے والدین کے لیے دعا کرنے کا حکم دیا ‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اہل ایمان کو اس بات کی بھی تلقین کی ہے کہ انہیں نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس پر درود بھیجنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ احزاب کی آیت نمبر 56میں ارشاد فرماتے ہیں : ''بلاشبہ اللہ اور اُس کے فرشتے صلوٰۃ (رحمت ) بھیجتے ہیں نبی (ﷺ) پر، اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم بھی درود بھیجو اُس (نبیﷺ) پر اور تم سلام بھیجو‘ خوب سلام بھیجو‘‘۔ حدیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جو شخص آپﷺ پر مسلسل درود و سلام بھیجتا رہتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے گناہ معاف فرما دیتے ہیں اور اس کے غموں کو دور کر دیتے ہیں۔ 
7۔سیرت النبیﷺ اور نعت رسول مقبول کا بیان:مسلمانوں پر یہ بھی لازم ہے کہ آپﷺ کی سیرت اور نعتِ نبیﷺ کو بیان کریں ۔ حضر ت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جاری ہونے والا یہ سلسلہ تاحال جاری وساری ہے۔ ہر دور میں سیرت نگار اور نعت خواں اپنے اپنے انداز میں اپنے اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کرتے آ رہے ہیں اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔ سیرت بیان کرنے والے اور نعت کہنے والے کو اس بات کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ یہ کام انتہائی ذمہ داری کا کام ہے اور اس حوالے سے غیر مستند اور کمزور گفتگو کرنا درست نہیں۔ جو بات بھی کہی جائے کتاب وسنت کے مطابق ہونی چاہیے اور تحقیق اور صحت کے معیار پر پوری اترنی چاہیے تاکہ صحیح طور پر آپﷺ کی سیرت سے دنیا والوں کو آگاہ کیا جا سکے۔ 
8۔آپﷺ کی حرمت کا دفاع کرنا: نبی کریمﷺ کی عزت، ناموس اور حرمت کا دفاع کرنا بھی ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ کتاب وسنت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طرزِ عمل سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حرمت رسول اللہﷺ پر حملہ کرنے والا شخص واجب القتل ہے۔ پاکستان میں اس شرعی فیصلے کو قانونی شکل دی جا چکی ہے ۔ چنانچہ 295-C کے قانون کا استعمال کرتے ہوئے حرمت رسول اللہﷺ پر حملہ کرنے والے کو قانونی طریقے سے کیفر کردار تک پہنچانا ریاست کی ذمہ داری ہے اور تمام مسلمانوں کو اس حوالے سے اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ 
9۔نبی کریمﷺ کے عطا کردہ نظام کا قیام: نبی کریمﷺ ایک ایسا کامل نظام لے کر آئے جو زندگی کے تمام شعبوں پر محیط تھا۔ اُس نظام کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کی حیات مبارکہ اور آپﷺ کے خلفائے عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں میں باقی ادیان پر غالب کر دیا تھا۔ اسلامی نظام عرصہ دراز تک سیاسی ، سماجی اور معاشی حوالے سے انسانوں کی رہنمائی کرتا رہا اور دنیا پر غالب رہا۔ مسلمانوں کی بدعملی کی وجہ سے بتدریج ہم اس عظیم نظام کے فیوض وبرکات سے محروم ہوتے چلے گئے۔ اس نظام کے احیا کے لیے کوشش کرنا ازحد ضروری ہے اور ہم تمام مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں اس نظام کے قیام کے لیے بھرپور انداز میں جستجو کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہٖ وسلم کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں