"AIZ" (space) message & send to 7575

رزق حلال کی اہمیت

میرے بھانجے ڈاکٹر سبیل اکرام قرآن مجیدکے حافظ ہیں۔ ایم بی بی ایس کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد آپ نے کچھ عرصہ ہاؤس جاب کی اور اس کے بعد اپنے معاشی معاملات کو چلانے کے لیے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے وابستہ ہو گئے۔ حالیہ ایام میں انہوں نے ایک نئے پراجیکٹ کی افتتاحی تقریب میں بڑی تعداد میں دوست احباب کو مدعو کیا اور معاشرے کے کئی نمایاں لوگ بھی اس تقریب میں شریک ہوئے۔ 5نومبر کو مغرب کی نماز کی ادائیگی کے بعد جب میں پراجیکٹ کے لیے خریدی گئی زمین کے سامنے واقعہ سڑک پر پہنچا تو بڑی تعداد میں مہمانوں کو وہاں موجود پایا۔ ڈاکٹر اکرام اوران کے دونوں بیٹوں نے اس موقع پر میرا استقبال کیا اور میں اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر کے بعدپی ٹی آئی سنٹرل پنجاب کے صدر اعجاز چوہدری صاحب بھی تقریب میں تشریف لے آئے۔ تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا۔ اس کے بعد نعت رسول مقبولﷺ کو پڑھا گیا۔ اس موقع پر اعجاز چوہدری صاحب نے پراجیکٹ کے حوالے سے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ اس موقع پر مجھے بھی اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔ اس موقع پر میں نے اللہ کی طرف سے رزق کی تقسیم اور حلال رزق کی اہمیت کے حوالے سے اپنی چند گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھا جنہیں میں کچھ اضافے اور ترمیم کے ساتھ قارئین کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں۔ 
رزق اللہ تبارک وتعالیٰ کی تقسیم ہے اور زمین میں موجود جملہ مخلوقات کے رزق کا مالک اللہ تبارک وتعالیٰ ہے۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ہود کی آیت نمبر 6میں کچھ یوں فرماتے ہیں: ''اور نہیں ہے کوئی چلنے والا (جاندار) زمین میں مگر اللہ ہی پرہے اس کا رزق اور وہ جانتا ہے اس کے قرار کی جگہ اور اس کے سونپے جانے کی جگہ‘‘۔ دنیا میں رزق کی تگ ودو کرنے کے دوران یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ رزق میں اضافہ اور کمی اللہ تبارک وتعالیٰ کے قبضہ و اختیار میں ہے؛ چنانچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے بہت سے نیک بندوں کو معاشی اعتبار سے فراوانی حاصل نہ ہوئی جب کہ اس کے مدمقابل بہت سے نافرمان لوگوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمین پر کشادگی عطا فرمائی۔اللہ تبارک وتعالیٰ کی تابعداری کرنے والے لوگوں نے جہاں پر رزق کے ذریعے اپنے دنیاوی اُمور کو چلایا وہیں پر انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں اپنے مال کو خرچ کرکے دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کو بھی سمیٹ لیا‘ جبکہ بہت سے لوگ رزق کی فراوانی کے سبب دین اور یوم جزا کی فکر سے دور ہو گئے اور نتیجتاً دنیا کے چند روز کے عروج کے بعد آخرت کی ناکامی ان کا مقدر بن گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس طرح کی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے بعض لوگوں کو رزق کی بہتات دینے کے بعد ان کے غلط رویوں کو دیکھ کر دنیا ہی میں ان کو نشانِ عبرت بنا دیا۔ قرآن مجید میں قارون کا واقعہ بڑی تفصیل کے ساتھ موجود ہے کہ جس کے پاس رزق کی بہتات تھی لیکن وہ اس رزق کی نسبت اپنے علم سے کیا کرتا تھا اورا للہ تبارک وتعالیٰ کے احسان کو فراموش کرکے بنی نوع انسان کے ساتھ اچھے سلوک پر آمادہ وتیار نہ تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو نشان ِعبرت بنا دیا۔ اس واقعہ کی تفصیل سورہ قصص کی آیت نمبر 76سے 81تک میں کچھ یوں موجود ہے: 
''بے شک قارون موسیٰ علیہ السلام کی قوم سے تھا پس اُس نے سرکشی کی اُن پر اور ہم نے دیا تھا اُسے خزانوں سے (اس قدر) کہ بے شک اُس کی چابیاں یقینا (اُٹھانی) مشکل ہوتی تھیں ایک طاقت والی جماعت کو جبکہ اُس سے اُس کی قوم نے نہ تُو اترا بلاشبہ اللہ نہیں پسند کرتا اترانے والوں کو۔ اور توُ تلاش کر اس میں جو دیا ہے تجھے اللہ نے آخرت کا گھر اور نہ بھول تو اپنا حصہ دنیا سے اور احسان کر (لوگوں پر) جس طرح اللہ نے احسان کیا ہے تجھ پر اور نہ تلاش کر زمین میں فساد بے شک اللہ نہیں پسند کرتا فساد کرنے والوں کو۔ اس نے کہا یقینا صرف میں دیا گیا ہوں یہ (مال) ایک علم (کی بنیاد) پر (جو) میرے پاس ہے۔ اور کیا نہیں اُس نے جانا کہ بے شک اللہ یقینا ہلاک کر چکا ہے اس سے پہلے کئی اُمتیں جو وہ بہت زیادہ سخت تھے اس سے قوت میں اور بہت زیادہ تھے جماعت میں اور نہیں پوچھے جائیں گے مجرم لوگ اپنے گناہوں کے بارے میں۔ پھر وہ نکلا اپنی قوم کے سامنے اپنی زینت میں کہا (اُن لوگوں نے) جو چاہتے تھے دنیوی زندگی اے کاش ہمارے لیے ہوتا(اس کی) مثل جو قارون کو دیا گیا ہے بلاشبہ وہ یقینا بڑے نصیب والا ہے۔ اور کہا (اُن لوگوں نے) جو علم دیئے گئے تھے افسوس تم پر اللہ کا ثواب بہت بہتر ہے (اُس شخص) کے لیے جو ایمان لایااور اس نے نیک عمل کیا اور نہیں دی جاتی یہ چیز مگر صبر کرنے والوں ہی کو۔ تو ہم نے دھنسا دیا اس کو اور اس کے گھر کو (خزانوں سمیت) زمین میں پھر نہ تھا اُس کے لیے کوئی گروہ (جو) مدد کرتے اس کی اللہ کے سوا اور نہ تھاوہ (خود) بدلہ لینے والوں میں سے‘‘۔ قارون کے عبرت ناک واقعہ کے علاوہ بھی قرآن مجید کی سورہ کہف اور سورہ قلم میں فراواں رزق رکھنے والوں کی کج روی کی وجہ سے ان کے باغوں کی تباہی کا ذکر ہے۔ اسی طرح صحیح بخاری میں بھی بنی اسرائیل کے تین افراد کا واقعہ مذکور ہے جن میں سے ایک کوڑی‘ ایک گنجا اور ایک اندھا تھا۔ ان تینوں کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے شفا اور رزق دے کر آزمایا لیکن کوڑی اور گنجے نے معاشی کشادگی حاصل ہونے کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے سے انکار کیاتو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے مال کو تلف کر دیا جب کہ اندھے نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے پربسر وچشم آمادگی کا اظہار کیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُس کی معیشت میں کشادگی اور فراحی کو برقرار رکھا۔ 
گو رزق کی تقسیم اللہ تبارک وتعالیٰ کے قبضہ و اختیار میں ہے لیکن اس کے باوجود بحیثیت مجموعی انسان کو اللہ کی زمین پر رہتے ہوئے رزق کی تلاش کرنا پڑتی ہے۔ رزق کی تلاش کے دوران انسان کو اس بات کو اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اس کا رزق حلال ہو۔ بہت سے لوگ حصولِ رزقِ حلال کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور اس راستے میں آنے والے نشیب وفرار اور مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہوئے حلال کمائی کے لیے پرُ عزم رہتے ہیں‘جبکہ اس کے مدمقابل بہت سے لوگ‘ جھوٹ ‘ دھوکہ ‘ فراڈ اور لوگوں کا استحصال کرکے جلد از جلد امیر ہونے کی جستجو کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو قوم مدین کی تباہی سے عبرت حاصل کرنی چاہیے جن کی تباہی کی وجہ معاشی معاملات میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکموں سے انحراف تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے بہت سے مقامات پر قوم مدین کی تباہی کا ذکر کیا ہے۔ سورہ ہود کی آیت نمبر 84‘85 اور 86میں یہ واقعہ کچھ یوں مذکور ہے: ''اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو (بھیجا)اسنے کہا اے میری قوم (ایک )اللہ کی عبادت کرو نہیں ہے تمہارے لیے کوئی معبود اس کے سوا اور نہ کمی کرو ماپ اور تول میں بے شک میں دیکھتا ہوں تمہیں اچھے حال میں اوربے شک میں ڈرتا ہوں تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب سے۔ اور اے میری قوم! پورا کرو ماپ اور تول کو اور انصاف کے ساتھ اور نہ کم دو لوگوں کو ان کی چیزیں اور مت پھرو زمین میں فسادی بن کر۔اللہ کا باقی بچا ہوا (جائز منافع) بہتر ہے تمہارے لیے اگر ہو تم ایمان لانے والے اور نہیں ہوں میں تم پر ہر گز کوئی نگہبان‘‘ ۔انہوں نے جب حضرت شعیب علیہ السلام کی نصیحتوں کو قبول کرنے سے انکار کیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان پر قوم ثمود کی طرح چنگھاڑ کے عذاب کو مسلط کر دیااور ان کو نشانِ عبرت بنا دیا۔ 
اللہ تبارک وتعالیٰ رزق طیب کمانے والے کی عزت میں اضافہ فرماتے ہیں جبکہ رزق حرام کو کمانے والا انسانوں کی نظروں سے گر جاتا ہے۔ کتاب وسنت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ رزقِ حرام کمانے والے کے نیک اعمال کو بھی قبول نہیں فرماتے۔ انسان کی دعا جو اس کو مشکلات سے نکالتی ہے اور غاروں کے دھانوں پر موجود ٹنوں وزنی پتھر کو ہٹا دیتی ہے وہ بھی رزقِ حرام کی وجہ سے قبول نہیں ہوتی۔ اس حوالے سے صحیح مسلم کی ایک حدیث درج ذیل ہے: 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺنے ایک آدمی کا ذکر کیا جو طویل سفر کرتا ہے بال پرا گندا اور جسم غبار آلود ہے ۔ (دعا کے لیے)آسمان کی طرف اپنے دو نوں ہا تھ پھیلا تا ہے اے میرے رب‘ اے میرے رب! جبکہ اس کا کھا نا حرام کا ہے ‘اس کا پینا حرا م کا ہے‘ اس کا لبا س حرا م کا ہے اور اس کو غذا حرا م کی ملی ہے تو اس کی دعا کہا ں سے قبو ل ہو گی!۔
چنانچہ ہمیں کتاب وسنت کے واقعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیشہ رزقِ حلال کمانے کی کوشش کرنی چاہیے اور حرام کمائی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس درس کو لوگوں نے توجہ کے ساتھ سنا اور بعدازاں مہمانوں کے لیے پرتکلف ضیافت کا اہتمام کیا گیا اور یوں یہ تقریب اپنے جلومیں بہت سی خوشگوار یادوں کو لیے ہوئے اختتام پذیر ہو گئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں