موت دنیا کی وہ واحد حقیقت ہے جس پر تمام مذاہب اورادیان کا اتفاق ہے حتیٰ کہ دہریے بھی اس کا انکار نہیں کر سکتے۔ تاہم دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ جتنی بڑی حقیقت ہے انسان اتنا ہی اس سے غافل ہے اور انسانوں کی بہت بڑی تعداد موت کو فراموش کیے ہوئے ہے۔ انسان دنیا کی حسن وخوبی اور رنگ ڈھنگ کچھ اس انداز میں اپنے اندر جذب کر لیتا ہے کہ اپنے آپ کو لافانی سمجھ لیتا ہے۔ دنیا کے مال واسباب اور سرمائے کو جمع کرنے میں انسان اس حد تک مشغول ہو جاتاہے کہ موت کی وادی میں اُتر جانے تک اس کی مدہوشی دور نہیں ہوتی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کا ذکر سورہ تکاثر کی آیت نمبر 1سے 8میں کچھ یوں فرمایا ہے: ''غافل کر دیا تمہیں باہمی کثرت کی خواہش نے‘ یہاں تک کہ تم جادیکھیں قبریں۔ ہر گز نہیں عنقریب تم جان لو گے۔ پھر ہرگز نہیں عنقریب تم جان لو گے۔ ہر گز نہیں کاش تم جان لیتے یقینا کا جاننا۔ یقینا ضرور تم دیکھ لو گے جہنم کو۔ پھر یقینا ضرور تم دیکھ لو گے اسے یقین کی آنکھ سے۔ پھر ضرور بالضرور تم پوچھے جاؤ گے اس دن نعمتوں کے بارے میں‘‘۔سورہ تکاثر کو پڑھنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسان دنیا کو سمیٹتے سمیٹتے اپنی موت کو بھلا دیتا ہے۔وہ اس حقیقت کو فراموش کر دیتا ہے کہ موت اس کے تعاقب میں ہے اور وہ وقت مقررہ پر اس کو آ لیتی ہے ۔ نیک وبد سبھی کواس کا ذائقہ چکھنا پڑتا ہے۔ انسان کو اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ دنیا میں اس کا قیام عارضی ہے اور اس نے بالآخر فنا کے گھاٹ اترنا ہے۔ جبکہ ہمیشہ رہنے والی ذات فقط اللہ تبارک وتعالیٰ کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ رحمان کی آیت نمبر 26‘27میں اس حقیقت کا ذکر کچھ یوں فرماتے ہیں : ''ہر ایک جو اس (زمین) پر ہے فنا ہونے والا ہے۔ اور باقی رہے گا آپ کے رب کا چہرہ (جو) صاحب ِجلال اور عزت والا ہے‘‘۔اسی حقیقت کو اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ قصص کی آیت نمبر 88میں یوں بیان فرماتے ہیں: ''ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے مگر اُس کا چہرہ (یعنی ذات)۔ اسی کے لیے ہے حکم (فرمانروائی ) اور اُسی کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے‘‘۔
موت کو فراموش کرنے کی وجہ سے انسانوں کی بہت بڑی تعداد اپنی مرضی کی زندگی گزارتی ہے ‘ہمہ وقت اپنی خواہشات کی تکمیل میں مصروف رہتی اور اپنے مقصدِ تخلیق کو فراموش کر دیتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے متعدد مقامات پر انسان کے شعور کو اس حوالے سے جھنجوڑا ہے اور اس کو اس بات کا احساس دلایا ہے کہ درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو بلا مقصد پیدا نہیں کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مومنون کی آیت نمبر 115‘116میں ارشاد فرماتے ہیں: ''تو کیا تم نے سمجھ لیا کہ بے شک ہم نے پیدا کیا تمہیں بے مقصد (ہی) اور یہ کہ بے شک تم ہماری طرف تم نہیں لوٹائے جاؤ گے۔ پس بہت بلند ہے اللہ (جو) حقیقی بادشاہ ہے۔ نہیں ہے کوئی معبود مگر وہی رب ہے عزت والے عرش کا‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ ذاریات کی آیت نمبر56‘57میں انسانوں کے مقصدِ تخلیق کو واضح فرما دیا کہ انسانوں اور جنات کو کیوں بنایا گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''اور میں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔ نہیں میں چاہتا ان سے کوئی رزق اور نہ میں چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں‘‘۔
سورہ ذاریات کی ان آیات مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں اور جنات کی تخلیق کا مقصد بنیادی طور پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کرنا ہے ۔ جو لوگ اس مقصد کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں دنیا وی اُمور کو خواہ کتنا ہی کیوں نہ سمجھ لے وہ زندگی کے مقصد کو پانے سے قاصر رہتے ہیں۔ دنیا میں بہت سے پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے افراد‘ تاجر اور سائنسدان ایسے مل جائیں گے جو دنیاوی امور کو تو بہت ہی اچھے طریقے سے سمجھتے ہیں لیکن اپنے مقصدِ تخلیق کے حوالے سے بالکل غافل ہیں ان کے نزدیک دنیا کی چند روزہ زندگی میں جینا اور مرنا ہی زندگی کی حقیقت ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ روم کی آیت نمبر 7میں ارشادفرماتے ہیں: ''وہ جانتے ہیں ظاہر کو دنیوی زندگی سے اور وہ آخر سے (بالکل) وہ غافل ہیں‘‘۔ اس کے بالمقابل اللہ تبارک وتعالیٰ نے عقل مند ان لوگوں کو قرار دیا ہے جو زمین وآسمان کی تخلیق پر غور وفکر کرنے کے بعد اپنے مقصد تخلیق کو پہچان لیتے ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے عذاب سے بچنے کے طلب گار ہو جاتے ہیں۔ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 190‘191میں ارشاد ہوا: بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں یقینا نشانیاں عقل والوں کے لیے۔ وہ لوگ جو ذکر کرتے ہیں اللہ کا کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر اور اپنے پہلوؤں کے بل اور غوروفکر کرتے ہیں آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں (اور کہتے ہیں) اے ہمارے رب ! نہیں پیدا کیا تو نے یہ (سب کچھ) بیکار ‘ تو پاک ہے (ہر عیب سے) پس بچا ہمیں آگے کے عذاب سے۔
سورہ آل عمران میں ہی اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو بیان فرما دیا کہ حقیقی کامیابی اسی کو حاصل ہو گی جو آگ سے بچ کر جنت میں داخل ہو جائے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 185میں ارشاد فرماتے ہیں: ''ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور بے شک تمہیں پورا پورا دیا جائے گا تمہارے اعمال کا قیامت کے دن پس جو بچا لیا گیا (جہنم کی) آگ سے اور وہ داخل کر دیا گیا جنت میں تو یقینا وہ کامیاب ہو گیا اور نہیں ہے دنیاوی زندگی مگر دھوکے کا سامان‘‘۔ ان آیات مبارکہ میں جہاں کامیابی کا معیار آگ سے بچ جانے کو دیا گیا ہے وہیں پر قرآن مجید نے ہمیں یہ بات بھی بتلائی ہے کہ وہ لو گ جو دنیا ہی کی زندگی کو فوقیت اور ترجیح دیتے ہیں اور نا فرمانی اور طغیانی کے راستے پر چل نکلتے ہیں اُن کا ٹھکانہ جہنم کا ٹھکانہ اوراس کے مد مقابل وہ لوگ جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈر تے اور اپنی ناجائز خواہشات کو دبا لیتے ہیں اُن کے لیے جنت ہے؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نازعات کی آیت نمبر 37سے 41میں اس حقیقت کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں : ''پس رہا وہ جس نے سرکشی کی ہے اور اس نے ترجیح دی دنیوی زندگی کو تو بے شک جہنم ہی (اس کا )ٹھکانہ ہے اور رہا وہ جو ڈر گیا اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ا ورا س نے روکا (اپنے) نفس کو (بُری) خواہش سے تو بے شک جنت ہی (اُس کا) ٹھکانہ ہے ‘‘۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو دونوں راستے دکھا دیے ہیں چاہے تو وہ مومن اور شکر گزار بن کے کامیابی کے راستے پر چل نکلے اور چاہے تو نافرمان اورنا شکرا بن کر ہلاکت کے گڑھے میں گر جائے۔ ا س حقیقت کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ دہر کی آیت نمبر 3میں کچھ یوں بھی بیان فرمایا ہے : ''بے شک ہم نے دکھایا اسے راستہ خواہ شکر گزار (بنے) اور خواہ ناشکرا‘‘۔
ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بتائی ہوئی کامیابی کے حصول کے لیے انسان کو سیدھے راستے پر چلنا ہو گا۔ اگر انسان ایسا کرے گا تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی ان عنایات اور انعام کا حقدار ٹھہرے گاجن کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے مختلف مقامات پر کیا ہے؛ چنانچہ انسان کو اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ جہاں پر اس نے دنیاوی اُمور کو انجام دینا ہے وہیں پر اسے اُخروی زندگی کی بھی تیاری کرنا ہو گی۔ اس کے مدمقابل انسان اگر ناشکری اور نافرمانی کے راستے پر رہے گا تو ناکامی ‘ ذلت اور رسوائی اس کا مقدر بن جائے گی۔ اگر وہ دنیا ہی کو حرف آخر سمجھتا ہے اور آخرت کو نظر انداز کرتا ہے تو اس کو سورہ کہف کی آیت نمبر 103سے 106 میں بیان کردہ حقائق کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ ارشا د ہوا: ''کہہ دیجئے کیا ہم خبر دیں تمہیں زیادہ خسارہ پانے والوں کی اعمال کے اعتبار سے وہ لوگ جو (کہ) ضائع ہو گئی ان کی کوشش دنیوی زندگی میں حالانکہ وہ گمان کرتے ہیں کہ بے شک وہ اچھے کام کر رہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے انکار کیا اپنے رب کی آیات اورا س کی ملاقات کا تو ضائع ہو گئے ان کے اعمال سو نہیں ہم قائم کریں گے ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن ۔ یہ ان کی سزا ہے جہنم اس وجہ سے کہ انہوں نے کفر کیا اور انہوں بنایا (اُڑایا) میری آیات اور میرے رسولوں کا مذاق ‘‘۔ اس کے مدمقابل جو لوگ دنیا میں رہتے ہوئے ایمان اور عمل صالح کی راستے پر گامزن رہتے ہیں ان کے بارے میں سورہ کہف کی آیت نمبر 107‘ 108 میں ارشاد ہوا: ''بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل کیے نیک ہوں گے ان کے لیے فردوس کے باغات بطور مہمانی۔ (وہ) ہمیشہ رہنے والے ہیں اس میں نہیں وہ چاہیں گے اس سے جگہ بدلنا‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں شعور‘ ہدایت اور حکمت سے نوازے تاکہ ہم دنیا میں رہتے ہوئے دنیا وی امورکی انجام دہی کے ساتھ ساتھ صحیح طور پر اخروی زندگی کی تیاری کر سکیں۔ آمین