"AIZ" (space) message & send to 7575

متوازن زندگی

اسلام دینِ فطرت ہے‘ جو اپنے ماننے والوں کو ایک متوازن اور معتدل زندگی گزارنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اسلام میں دین اوردنیا کے تمام اُمور کو احسن طریقے سے انجام دینے کی تلقین کی گئی ہے اور اہم دنیاوی کاموں کی انجام دہی میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ حائل نہیں کی گئی ۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں رہتے ہوئے ہر مسلمان پرتقویٰ اور طہارت والی زندگی گزارنے کی ذمہ داری بھی عائد کی گئی ہے۔ اسلام سے قبل بہت سے مذاہب ایسے گزرے ہیں جن کے ماننے والوں کو دینی زندگی گزارنے کے دوران بہت زیادہ صعوبتوں کو سہنا پڑا۔ مسیحیوں نے اپنے اوپر اللہ کے حکم کے بغیر رہبانیت کو لازم کر دیا اور حلال اشیا اور نکاح سے بھی اجتناب کے راستے پر چل نکلے‘ جس کا نتیجہ بعد ازاں اباحیت پسندی کی شکل میں نکلا اور منکرات ‘ فحاشی‘ عریانی اور حرام کاری کو کھلے عام اختیار کر لیا گیا۔ یورپ کا موجودہ معاشرہ اس کی منہ بولتی تصویر ہے کہ جہاں خواہشات اور مرضی کو پورا کرنے کے لیے کسی قسم کی کوئی قدغن عائد نہیں کی گئی جبکہ ایک وقت ایسا تھا جب مسیحیوں میں صنف ِمخالف سے دور رہنے کے لیے شادی اور نکاح والی زندگی کی بھی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی اور تجرد کو روحانی ترقی کے لیے ضروری خیال کیا جاتا تھا۔ اس غیر فطری طرزِ زندگی کے ردعمل کے طور پر ایک ایسا معاشرہ پیدا ہوا جس میں جبلی تقاضے اور حیوانی خواہشات اپنے پورے عروج پر پہنچ گئیں۔ 
جب ہم ہندوسماج کا تجزیہ کرتے ہیں تو اس میں بھی بہت زیادہ افراط وتفریط نظر آتی ہے۔ عورت کو شوہر کے پاؤ ں کی جوتی سمجھا جاتا رہا اور اس کو شوہر کی موت کے بعد زندگی کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جاتا رہا ۔ اسی طرح جب ہم بہت سے دیگر مذاہب کی تعلیمات پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان کے یہاں پر ایک اچھا دین دار ہونے کے لیے ترکِ دنیا یا دنیا سے بے رغبتی انتہائی ضروری ہے۔ اس کے برعکس اسلام اپنے ماننے والوں کو دنیاوی اور دینی امور میں توازن اختیار کرنے کی رغبت دلاتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے رسول اللہﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے دینی امور کے ساتھ ساتھ امورِ دنیا کو نہایت احسن طریقے سے انجام دیا۔ کسبِ حلال کی حوصلہ افزائی کی‘ اپنے اہلخانہ اور اپنی بیٹیوں کے ساتھ بہترین سلوک کیا‘ دوست احباب کی خوشیوں اور غموں میں شرکت فرما کر اور اُن کے دکھ درد بانٹ کر دنیا والوں کو اس بات کا سبق دیا کہ بہترین انسان وہ ہے جو لوگوں کے لیے نفع کا باعث ہو۔ قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ مسلمانوں کو آخرت کی کامیابی کی تیاریاں کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے اندر بھی کامیابی کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا گور ہنا چاہیے؛ چنانچہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 201میں ایک بہترین دعا کا ذکر ہوا جو درج ذیل ہے:
''اے ہمارے رب ہمیں دے دنیا میں بھلائی اور آخرت میں (بھی) بھلائی اور ہمیں بچا لے آگ کے عذاب سے‘‘۔
جب ہم قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کتاب ِحمید میں جہاں پر جابجا مقامات پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی عباد ت اور بندگی کا ذکر کیا گیا ہے وہیں پر والدین ‘ قرابت داروں اور دیگر مستحقین کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تلقین کی گئی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سور ہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 23‘24میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور فیصلہ کر دیا آپ کے رب نے کہ نہ تم عبادت کرو مگر صرف اسی کی اور والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا (حکم دیا) اگر واقعی وہ پہنچ جائیں تیرے پاس بڑھاپے کو ان دونوں میں سے ایک یا دونوں تو مت کہہ ان دونوں سے اُف بھی اور مت ڈانٹ ان دونوں کو اور کہہ ان دونوں سے نرم بات اور جھکا دے ان دونوں کے لیے عاجزی کا بازو‘ رحمدلی سے اور کہہ (اے میرے) رب رحم فرما ان دونوں پر جس طرح ان دونوں نے پالا مجھے پچپن میں‘‘۔ سورہ نساء میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں اپنی عبادت کا ذکر کیا وہیں پر والدین‘ قرابت داروں‘ یتیموں‘ مسکینوں‘ ہمسایوں اور مسافروں کے حقوق کوبھی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ آیت نمبر36 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اورتم عبادت کرو اللہ تعالیٰ کی اور نہ تم شریک بناؤ اُس کے ساتھ کسی کو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو اور قرابت والوں اور یتیموں کے ساتھ اور مسکینوں اور قرابت والے (رشتے دار) ہمسائے اور اجنبی ہمسائے اور پہلو کے ساتھی اور مسافر اور جس کے مالک بنے ہیں تمہارے داہنے ہاتھ (ان سب کے ساتھ حسن سلوک کرو) بے شک اللہ تعالیٰ نہیں پسند کرتا جو ہو مغرور فخرکرنے والا‘‘۔ سورہ بقرہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بنی اسرائیل سے لئے گئے میثاق کا ذکر کیا۔ اس میثاق میں بھی جہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کی بات کی گئی وہیں پر والدین ‘ قرابت داروں‘ یتیموں اور مساکین کے ساتھ حسنِ سلوک کا بھی ذکر کیا گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر83 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جب ہم نے لیا نبی اسرائیل سے پختہ عہد (کہ) نہیں تم عبادت کرو گے مگر اللہ کی اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو گے اور قریبی رشتہ داروں اور یتیموں اور مساکین سے (بھی) اور لوگوں سے اچھی بات کہنا اور نماز قائم رکھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا پھر تم پھر گئے (اپنے قول سے) مگر تھوڑے سے تم میں سے (جو اپنے قول پر قائم رہے) اور تم ہو ہی پھر جانے والے‘‘۔ 
حضرت لقمان کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے حکمت سے نوازا تھا اور اُن میں دانائی‘ فہم و فراست ‘ بصیرت اور شعور والے خو بصورت اوصاف موجود تھے۔ سورہ لقمان میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت لقمان کی اُن نصیحتوں کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔ اُن نصیحتوں کو پڑھنے کے بعد اس بات کو سمجھا جا سکتا ہے کہ جہاں پر ایک مثالی باپ اپنی اولاد کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی اور شرک سے بچنے کی تلقین کرتا ہے وہیں پر وہ اُمورِ دنیا میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور اچھے اخلاق کا بھی سبق دیتا ہے۔ سورہ لقمان کی آیت نمبر 13سے19 میں اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت لقمان کی نصیحتوں کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''اور جب کہا لقمان نے اپنے بیٹے سے جبکہ وہ اسے نصیحت کر رہے تھے اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنابے شک شرک یقینا بہت بڑا ظلم ہے اور ہم نے وصیت (تاکید) کی انسان کو اپنے والدین کے ساتھ (حسن سلوک کی) اُٹھائے رکھا اُسے اس کی
ماں نے کمزوری پر کمزوری (کے باوجود) اور اُس کا دودھ چھڑانا دوسالوں میں (اور) یہ کہ تم شکر کرو میرا اور اپنے والدین کا میری ہی طرف (تم سے کو) لوٹنا ہے۔ اور اگر وہ دونوں زور دیں تجھ پر اس پر کہ تو شریک ٹھہرائے میرے ساتھ (اُسے) جو (کہ) نہیں ہے تجھے اُس کا کوئی علم تو تم اطاعت نہ کرو اُن دونوں کی اور سلوک کر اُن دونوں سے دنیا میں اچھے طریقے سے اور پیروی کر اُس شخص کے راستے جو رجوع کرتا ہے میری طرف‘ پھر میری ہی طرف تمہارا لوٹنا ہے۔ تو میں تمہیں خبر دوں گا (اُس) کی جو تم عمل کرتے تھے۔ اے میرے پیارے بیٹے بے شک وہ (اچھائی یا برائی) اگر ہو رائی کے کسی دانے کے برابر پھر وہ ہو کسی چٹان میں یا (وہ ہو) آسمانوں میں یا زمین میں (تو) لے آئے گا اُس کو اللہ بے شک اللہ بہت باریک بین خوب خبردار ہے۔ اے میرے پیارے بیٹے! تو نماز قائم کر اور نیکی کا حکم کر اوربرائی سے روک اور صبر کراس (تکلیف) پر جو تجھے پہنچے۔ بے شک یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے۔اور نہ پھلا اپنا رخسار لوگوں کے لیے اور مت چل زمین میں اکڑ کر بے شک اللہ نہیں پسند کرتا ہر تکبر کرنے والے فخر کرنے والے کو۔ اور میانہ روی رکھ اپنی چال میں اور پست رکھ اپنی آواز کو بے شک بدترین آوازوں میں سے یقینا گدھوں کی آواز ہے‘‘۔ 
حضرت لقمان کی ان نصیحتوں پر غور وفکر کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بہترین انسان وہی ہے جس کے دین اور دنیا میں توازن ہو اور وہ حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ والدین اور دیگر انسانوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرتا ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول حضرت محمد ﷺ کی حیاتِ مبارکہ ہمارے لیے رہنمائی کا بہترین ذریعہ ہے کہ آپﷺ نے جہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کے لیے زبردست جستجو کی وہیں پر آپﷺ نے بہترین گھریلو زندگی ‘عائلی زندگی اور معاشرتی زندگی گزاری۔ آپﷺ کے اخلاقِ حسنہ رہتی دنیا تک کے لیے ایک مثال ہیں۔ آپﷺ نے اہل ایمان کو بیک وقت حقوق اللہ اور حقوق العباد کو نبھانے کا حکم دیا؛ چنانچہ ہمیں کامیاب زندگی گزارنے کے لیے دین اور دنیا میں توازن کوبرقرار رکھنے کی جستجو کرنی چاہیے تاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوشنودی کو حاصل کیا جا سکے اور نبی کریمﷺ کی سنت مبارکہ پر صحیح طور پر عمل کیا جا سکے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں مثالی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں