"AIZ" (space) message & send to 7575

ازدواجی مسائل کاحل

دسمبر اورجنوری کے مہینے میں سردی اپنے پورے عروج پر ہوتی ہے۔ اس موسم میں شادی بیاہ کی تقریبات بھی بکثرت ہوتی ہیں۔ ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ اُن کی اولاد کو اچھا شریکِ زندگی میسر آ جائے؛ چنانچہ والدین اپنی بساط کی حد تک اپنے بچوں کے لیے بہتر سے بہتر شریکِ زندگی تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں الحمدللہ ابھی تک خاندانی نظام مضبوط ہے اور شرح طلاق بہت سے دیگر ممالک کے مقابلے میں کم نظر آتی ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے گھروں میں ناچاقیاں اور ذہنی تناؤ پایا جاتا ہے اور بہت سے لوگ رشتہ ٔازدواج میں منسلک ہونے کے باوجود حقیقی خوشیوں سے محروم نظر آتے ہیں۔ بہت سے لوگ پوچھنے پر رشتے کے بے جوڑ ہونے کی شکایت بھی کرتے ہیں اور کئی لوگ شادی سے پہلے کی زندگی کو خوشگوار یادوں پر مبنی زندگی قرار دیتے ہوئے شادی کے بعد کی زندگی کو ایک المیے سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی معاشرتی ناہمواری کے متعدد اسباب ہیں جن پر ٹھنڈے دل سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ان مسائل پر صحیح طور پر توجہ دی جائے تو یقینا ہر گھر خوشیوں کا گہوارہ بن سکتا ہے اور گھروں میں پائی جانے والی ناچاقیوں کاخاتمہ ہوسکتا ہے۔ شریعتِ اسلامیہ نے اس حوالے سے بہت سے ایسے نکات کی طرف اہل ِاسلام کی رہنمائی کی ہے کہ جن پر عمل پیرا ہو کر نکاح والا دن اوربعد میں آنے والی زندگی خوشیوں اور سعادتوں سے معمور ہو سکتی ہے۔ معاشرے میں پائے جانے والے عائلی مسائل پر غور کرنے کے بعد بیگاڑ کی مندرجہ ذیل وجوہات سامنے آتی ہیں :
1۔ لڑکے اور لڑکی کی رضامندی کے بغیر شادی کر دینا: ہمارے معاشرے میں بہت سے والدین اپنی اولاد کی خواہشات کو مدنظر رکھے بغیر ان کی شادیاں کر دیتے ہیں‘ جس کی وجہ سے اولاد بدگمانی کا شکار ہو کر شادی کے بعد والی زندگی کے لیے پوری طرح آمادہ وتیار نہیں ہوتی۔ احادیث مبارکہ کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اولاد کی رضا مندی خصوصاً بچیوں کی رضا مندی کو اس حوالے سے خصوصی اہمیت دینی چاہیے۔ اس حوالے سے ایک حدیث درج ذیل ہے: 
صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ جعفر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ایک خاتون کو اس کا خطرہ ہوا کہ ان کا ولی (جن کی وہ زیر پرورش تھیں) ان کا نکاح کر دے گا جبکہ وہ اس نکاح کو ناپسند کرتی تھیں؛ چنانچہ انہوں نے قبیلہ انصار کے دو شیوخ عبدالرحمٰن اور مجمع کو‘ جو جاریہ کے بیٹے تھے‘ کہلا بھیجا ‘انہوں نے تسلی دی کہ کوئی خوف نہ کریں کیونکہ خنسا بنت خذام رضی اللہ عنہا کا نکاح ان کے والد نے ان کی ناپسندیدگی کے باوجود کر دیا تھا تو رسول اللہﷺ نے اس نکاح کو رد کر دیا تھا۔
2۔ ولی کی رضا مندی کے بغیر نکاح: ہمارے معاشرے میں عائلی بیگاڑ کی بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بعض لوگ پسندیدگی کی وجہ سے لڑکی کے ولی کی رضا مندی کے بغیر اس سے نکاح کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بہت سے لوگ عدالتی ذرائع سے یہ کام کر گزرتے ہیں۔ ایسے شادیوں میں چونکہ دونوں خاندانوں کی سرپرستی شامل نہیں ہوتی اس لیے لڑکا اور لڑکی شادی کے بعد والی زندگی کے نشیب وفراز کا خاندانوں کی تائید کے بغیر کما حقہ مقابلہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور کئی مرتبہ پیش آمدہ مشکلات کا مقابلہ نہ کر سکنے کی وجہ سے شوہر اور بیوی کے درمیان اختلافات بھی جنم لینا شروع کر دیتے ہیں؛ چنانچہ لڑکی کو ہمیشہ اپنے والدین یا سرپرستوں کی رضا مندی کے ساتھ ہی نکاح کرنا چاہیے۔ ایسے نکاح کو شریعت میں غلط قرار دیا گیا ہے جس میں ولی کی رضا مندی نہ ہو۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے: 
مسند احمد‘ جامع ترمذی‘ سنن ابوداؤد‘ ابن ماجہ اور دارمی میں حدیث ہے کہ حضرت ابوموسیٰ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ۔اسی طرح ایک حدیث میں ولی کے بغیر نکاح کو باطل بھی قرار دیا گیا ہے؛ چنانچہ ہمارے معاشرے کے نوجوان لڑکے‘ لڑکیوں کو اس بات کو ذہن نشین کرنا چاہیے کہ ولی کی رضا مندی کے بغیر شادی نہ کی جائے۔ 
3۔ جہیز کا مطالبہ: شادی کے بعد آنے والی زندگی میں بیگاڑ اور بے سکونی کی بہت بڑی وجہ لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کا تقاضابھی ہے۔ بہت سے لوگ لڑکی والوں سے جہیز کا تقاضا اصرار کے ساتھ کرتے ہیں اور اس دوران لڑکی والوں کی مالی حیثیت کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔ لڑکی والے چاروناچار لڑکے والوں کی خواہشات کو پورا کرتے ہیں لیکن اس کی وجہ سے ان کو شدید کوفت اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے نتیجتاً شادی سے پہلے ہی لڑکی مخمصے کا شکار ہو جاتی ہے اور شادی کی خوشیاں مانند پڑ جاتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں باطل طریقے سے دوسروں کا مال کھانے سے منع کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 29میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! مت کھاؤ اپنے مال تم آپس میں باطل طریقے سے مگر یہ کہ ہو تجارت (کا لین دین) باہمی رضا مندی سے تمہاری (طرف) سے اور نہ قتل کرو اپنے آپ کو بے شک اللہ تم پر بڑامہربان ‘‘۔چنانچہ ایسے غلط مطالبات سے گریز کرنا چاہیے اور رزق کا مالک اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کو سمجھنا چاہیے ۔ مثبت سوچ اور فکر کی وجہ سے گھروں میں خیرخواہی اور امن وسکون پیدا ہوتا ہے اور شادی کے بعد دلہا دلہن کے درمیان الفت اور محبت پیداہوتی ہے۔ 
4۔ شادی بیاہ کے موقع پر کیے جانے والے تکلفات: احادیث مبارکہ میں شادی بیاہ کے موقع پر سادگی کی تلقین کی گئی ہے لیکن بالعموم اس موقع پر تکلفات کا بہت زیادہ مظاہرہ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے دونوں گھرانوں پر معاشی دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔ کئی مرتبہ غریب اور متوسط گھرانے کے لوگ قرضہ لے کر شادی بیاہ کے اخراجات پورے کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس انداز میں کی گئی شادی کی وجہ سے خاندان ذہنی الجھنوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ معاشی تنگی کی وجہ سے شادی کے بعد آنے والی زندگی مسائل اور اختلافات کا شکار ہو جاتی ہے۔ 
5۔ شادی بیاہ کے موقع پر جھوٹ سے کام لینا: شادی بیاہ کے موقع پر بالعموم لڑکے کی آمدن اور لڑکی کی عمر اور تعلیم کے حوالے سے جھوٹ سے کام لیا جاتا ہے۔جھوٹ کی بے برکتی کی وجہ سے بھی ایک دوسرے کے ساتھ تلخیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سچائی میں بہت زیادہ برکت رکھی ہے اور جس کام میں سچائی شامل ہو اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی تائید کو بھی اس میں شامل حال فرما لیتے ہیں؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ احزاب کی آیت نمبر 70‘71میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے (وہ لوگو) جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈور اور بالکل سیدھی بات کہووہ درست کر دے گا تمہارے لیے تمہارے اعمال اور وہ بخش دے گا تمہارے لیے تمہارے گناہ ‘‘۔ 
6۔ حقوق اور فرائض کی ادائیگی میں غفلت: شادی کی ناکامی کی ایک بہت بڑی وجہ حقوق کے مطالبے میں غلو کرنا اور فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی کرنا ہے۔ جبکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے دلہا اور دلہن دونوں کے حقوق اور فرائض کو قرآن مجید میں اُجاگر فرمایا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 228میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور ان (عورتوں) کے لیے (ویسے ہی حقوق ہیں) جس طرح ان پر (مردوں کے حقوق ہیں) دستور کے مطابق اور (البتہ) مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے اور اللہ غالب‘ حکمت والا ہے‘‘۔ اگر شوہر اور بیوی ایک دوسرے سے اضافی توقعات کو وابستہ کرنے کی بجائے فرائض کی ادائیگی میں تندہی کا مظاہرہ کریں تو معاشرے میں بہت سے بیگاڑ کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ 
7۔ بے پردگی اور اختلاط: گھروں میں پائے جانے والی بیگاڑ کی بہت بڑی وجہ بے پردگی اور اختلاط بھی ہے۔ جب شوہر اپنی بیوی کوغیر مردوں کے ساتھ بے تکلفانہ انداز میں گفتگو کرتے دیکھتا ہے یا عورت اپنے شوہر کو غیر عورتوں کے ساتھ بے تکلفی کے ساتھ گفتگو کرتے دیکھتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے بدگمان ہو تے ہیں جس کی وجہ سے شکوک وشبہات جنم لیتے ہیں اور اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے؛ چنانچہ شادی کے بعد آنے والی زندگی کی کامیابی کے لیے گھروں میں پردہ داری اور شرم وحیا کا چلن بھی ضروری ہے تاکہ گھروں کو شکوک وشبہات اور بدگمانی سے پاک کرکے ان کو امن وسکون کا گہوارہ بنایا جا سکے۔ 
8۔ قناعت کا فقدان: شادی میں ناکامی کی بہت بڑی وجہ معاشی تنگی بھی ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ معاشی کشادگی کے دنوں میں ایک دوسرے کے ساتھ اچھے طریقے سے رہتے ہیں لیکن معیشت تنگ ہو جائے تو وہ ایک دوسرے سے بدگمان ہونا شروع ہو جاتے ہیں حالانکہ اس بات کو ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ معاشی فراخی اور تنگی درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ ہی دنوں کو بدلنے والے ہیں؛ چنانچہ تنگی کے دنوں میں صبر کرنے والے اور کشادگی کے دنوں میں شکر کرنے والے لوگ ہمیشہ خوشگوار زندگی گزارتے ہیں۔ اگر مندرجہ بالا نکات پر عمل کر لیا جائے تو یقینا شادی کے بعد گھر امن وسکون کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہر گھر کوامن وسکون کا گہوارہ بنائے۔ آمین

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں