ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر عدم برداشت کے راستے پر ہے۔ سیاسی ، مذہبی اورنجی اختلافات میں تشدد کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔ لوگ معمولی اختلافات پر ایک دوسرے کی عزت اور جان کے درپے ہو جاتے ہیں۔ عدم برداشت کے اسباب پر غور کیا جائے تو بہت سے وجوہات سامنے آتی ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ علم کی کمی: جب کسی قوم میں علمی انحطاط وقوع پذیر ہو جاتا ہے تو لوگ دلیل کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے تشدد کے راستے پر چل نکلتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں ہمیشہ دلیل کے تبادلے کی بات کی۔ اس حوالے سے دو اہم مقامات درج ذیل ہیں:
سورہ احقاف کی آیت نمبر 4میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''مجھے دکھاؤ انہوں نے کیا چیز پیدا کی ہے زمین میں سے؟ یا ان کا کوئی حصہ ہے آسمانوں میں؟ لاؤ میرے پاس کوئی کتاب اس (قرآن) سے پہلے کی یا علم کی کوئی نقل شدہ بات اگرتم سچے ہو ‘‘۔
سورہ بقرہ کی آیت 111 میں ارشاد ہوا: ''اور (یہود و نصاریٰ) نے کہا ہرگز جنت میں داخل نہ ہو گا مگر وہ جو یہودی یا نصرانی ہو‘ یہ ان کی تمنائیں ہیں‘ تم کہو تم اپنی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو‘‘۔
دنیاوی علوم اعلیٰ اخلاق کے حصول کے لیے کافی نہیں بلکہ اعلیٰ اخلاق کے حصول کے لیے دینی علوم کا ہونا نہایت ضروری ہے۔پیشہ ورانہ تعلیم معاشی اور سماجی استحکام کا ذریعہ ہے جبکہ دینی تعلیم انسان کو اعلیٰ اخلاقی اقدار سے مزین کرتی ہے۔ دنیا میں کئی لوگ بظاہر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود تشدد اور عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ دینی علوم اور آخرت کی جوابدہی کے احساس سے غافل ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ روم کی آیت نمبر 7میں یوں فرماتے ہیں: ''وہ جانتے ہیں ظاہر کو دنیوی زندگی سے اور وہ آخرت سے (بالکل) غافل ہیں‘‘۔
2۔ ناانصافی اور تعصب: عدم برداشت کا بہت بڑا سبب ناانصافی اور تعصب بھی ہے۔ ہمارے معاشرے میں لوگ بالعموم ناانصافی اور تعصب کی بنیاد پر دشمنی پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور عصبیت ہی کی بنیاد پر ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔ ناانصافی اور عدل کے فقدان کی وجہ سے معاشرے میں عدم برداشت کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہلِ ایمان کو قرابت داری اور رشتہ داری کی بنیادکے بجائے عدل کی بنیادپر معاملات چلانے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 135میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! ہو جاؤ انصاف پر قائم رہتے ہوئے گواہی دینے والے اللہ کی خاطر اور اگرچہ اپنے آپ کے خلاف ہی ہو یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے (خلاف ہی کیوں نہ ہو) اگر ہو وہ امیر یا فقیر تو اللہ تعالیٰ (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے اُن دونوں کا‘ تو نہ پیروی کرو خواہشِ نفس کی کہ تم عدل (نہ ) کرو اور اگر توڑ مروڑ کر بات کرو گے (گواہی دیتے ہوئے) یا منہ موڑو گے (گواہی دینے سے) تو بے شک اللہ (اُس) پر جو تم عمل کرتے ہو خوب خبردار ہے‘‘۔ قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ کسی قوم کے تعصب کی وجہ سے عدل کا راستہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 8میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! ہو جاؤ قائم رہنے والے اللہ کے لیے گواہی دینے والے انصاف کی طرف‘ اور نہ ہرگز آمادہ کرے تم کو کسی قوم کی دشمنی اس بات پر کہ تم عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ زیادہ قریب ہے تقویٰ کے اور اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ ، بے شک اللہ تعالیٰ خوب باخبر ہے اس سے جو تم عمل کرتے ہو‘‘۔
3۔ حسد:تعصب اور نا انصافی کی طرح عدم برداشت کی ایک بڑی وجہ حسد بھی ہے۔ حسد انسان کو ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی اور زیادتی پر آمادہ کر دیتا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے کا قتل بھی حسد ہی کی بنیاد پر ہوا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 27سے 30میں اس واقعہ کوکچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''اور پڑھ کر سنائیے اِن کو آدم کے دوبیٹوں کی خبر حق کے ساتھ، جب دونوں نے قربانیاں پیش کیں تو قبول کر لی گئی ان دونوں میں سے ایک کی (قربانی) اور نہ قبول کی گئی دوسرے سے (تو) اس نے کہا: ضرور بالضرور قتل کر دوں گا تمہیں۔(دوسرے بھائی نے) کہا: بے شک قبول کرتا ہے اللہ تعالیٰ متقین سے؛ البتہ اگر تو نے بڑھایا میری طرف اپنا ہاتھ تاکہ تو مجھے قتل کرے (تو) میں نہیں بڑھانے والا اپنا ہاتھ تیری طرف تاکہ میں قتل کروں تجھے‘ بے شک میں اللہ سے ڈرتا ہوں (جو) تمام جہانوں کا رب ہے۔ بے شک میں چاہتا ہوں کہ تو سمیٹ لے میرے گناہ کو اور اپنے گناہ کو‘ پس تو ہو جائے اہلِ دوزخ میں سے اور یہی بدلہ ہے ظالموں کا۔ پس آمادہ کیا اس کو اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل پر تو اس نے قتل کر دیا اُسے۔ پس ہو گیا خسارے پانے والوں میں سے‘‘۔
4۔ غرور: معاشرے میں عدم برداشت کی ایک بڑی وجہ غرور بھی ہے۔ بہت سے لوگ بوجوہ اپنے آپ کو دوسروں سے بالا تر سمجھتے اور دوسروں کو کم تر اور حقیر جانتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کسی تنازع کی صورت میں دوسروں کے ساتھ حقارت کی وجہ سے تشدد کا مظاہرہ کرتے ہیں۔قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابلیس کی ذلت کی وجہ گھمنڈ کرنا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کو غرور سخت نا پسند ہے۔ انسان کو عاجزی اختیار کرنا اور ہر حالت میں غرور سے بچنے کی کوشش کرنا چاہیے۔
4۔ صبر کی کمی: بالعموم دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جلد غصے میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ انسان کو پیش آنے والی تکالیف پر صبر کرنا چاہیے اور یک لخت رد عمل دینے کے بجائے ٹھنڈے دل سے معاملات پر غوروخوض کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ لقمان میں حضر ت لقمان کی ان نصیحتوں کا ذکر کیا جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔ جہاں پر انہوں نے اپنے بیٹے سے بہت سی قیمتی باتیں کیں‘ وہیں پر اپنے بیٹے کو صبرکرنے کا بھی حکم دیا۔ سورہ لقمان کی آیت نمبر17 میں حضرت لقمان کی نصیحت کا کچھ یوں ذکر کیا گیا : ''اور صبر کر اس (تکلیف) پر جو تجھے پہنچے‘ بے شک یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اہلِ ایمان کو صبر اور نماز کے ساتھ اپنی مدد حاصل کرنے کی تلقین کی اور ساتھ ہی صبرکرنے والوں کے ساتھ اپنی معیت کا بھی ذکر کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 153میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! مدد حاصل کرو صبرسے اور نماز سے بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ سورہ بقرہ میں ہی اللہ تبارک وتعالیٰ نے نیکی کے بعض اہم کاموں کا ذکر کیا جن میں مصائب پر صبر کرنے والے لوگوں کا بھی ذکر ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 177میں ارشاد فرماتے ہیں :''نیکی (یہی) نہیں کہ تم پھیر لو اپنے چہرے مشرق اور مغرب کی طرف (نماز میں) بلکہ (اصل) نیکی یہ ہے جو ایمان لائے اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور فرشتوں پر اور کتاب (قرآن مجید) اور نبیوں پر اور دے (اپنا) مال اس (اللہ ) کی محبت کی خاطر قریبی رشتہ داروں اور یتیموں اور مساکین کو اور مسافروں اور مانگنے والوں کو اور گردنیں (آزاد کرانے) میں اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے اور پورا کرنے والے ہوں اپنے عہد کو جب (بھی) وہ عہد کریں اور صبر کرنے والے ہوں تنگ دستی اور بیماری میں اور جنگ کے وقت‘ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی لوگ پرہیز گار ہیں‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 134میں غصہ پینے والوں کی تحسین کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ''جو خرچ کرتے ہیں خوشحالی اور تنگدستی (ہرحال) میں اور غصہ پی جانے والے ہیں اور درگزر کرنے والے ہیں لوگوں سے تو اللہ پسند کرتا ہے نیکی کرنے والوں کو‘‘۔
قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعے کا ذکر کیا ہے کہ جن کے بھائیوں نے ان کے ساتھ عداوت ، بغض اورحسد کا مظاہرہ کیا اور ان کے حسد اور عداوت کی وجہ سے سیدنا یوسف علیہ السلام کو اپنے محبوب والد حضرت یعقوب علیہ السلام کی آنکھوں سے دور ہونا پڑا۔ بعد ازاں حضرت یوسف علیہ السلام کو زندگی میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ پر اپنا فضل خاص فرما کر آپ کو روحانی سربلندی کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی اقتدار عطا فرما دیا۔ بعدازاں حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی ان کے پاس اس حالت میں پہنچے کہ وہ ان سے انتقام لینے پر قادر تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے نہ صرف ان سے انتقام نہ لیا بلکہ ان سب کو معاف کر دیا۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ یوسف کی آیت نمبر 92 میں یوں فرماتے ہیں: ''کہا (یوسف نے) کوئی ملامت نہیں تم پر آج‘ معاف کرے اللہ تم کو،اور وہ بہت رحم کرنے والا ہے ‘‘۔ اسی طرح نبی کریمﷺ کی سیرتِ مطہرہ سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپﷺ نے بھی فتح مکہ کے روز بہت سے معاندین اور ـمخالفین سے انتقام لینے پر قدرت رکھنے کے باوجود ان کو معاف فرما دیا۔
اگر ہم معاشرے میں اشتعال انگیزی کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں مندرجہ بالا اسباب پرغوروفکر کرنا ہو گا۔ ان نکات پر غوروفکر کرنے کے بعد ہی ہم حقیقی معنوں میں معاشرے کو امن وسکون کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے معاشرے کو تشدد اور عدم برداشت کے راستے کے بجائے امن وسلامتی کی راہ پر چلنے والا بنائے۔ آمین !