انسان کی زندگی میں بہت سے مواقع ایسے آتے ہیں جب انسان خوشی اور مسرت کو اپنی روح کی گہرائیوں تک اترتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ خوشی کے اِن لمحات میں یادگار لمحات وہ بھی ہوتے ہیں جب انسان کی محبوب اولادکی شادی خانہ آبادی کی تقریب ہوتی ہے۔ میرا بیٹا قیم الٰہی والدین کی تابعداری کرنے والا ہونہار فرزند ہے۔ اس نے زندگی کے طویل ماہ وسال کے دوران ہمیشہ میری بات کو بڑی توجہ کے ساتھ سنا اور اس پر عمل کرنے کی بھرپور جستجو کی۔ میرے دینی، گھریلو، نجی اور جماعتی کاموں میں اس نے ہمیشہ میری بھرپور معاونت کی ہے۔ عصری اور دینی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مرکز قرآن وسنہ کی تنظیم اور ترقی کے لیے ہمہ وقت کوشاںرہتا ہے۔ بہن بھائیوں کے کسی کام کے لیے اس کو کہا جائے تو فوراً سے پیشتر اس کام کو انجام دینے کی کوشش کرتا ہے۔ شریعت مطہرہ پر اپنی بساط کی حد تک عمل پیرا رہتا ہے۔ اللہ کی خشیت ، رسول کریمﷺ کی محبت سے سرشار ہے اور تبلیغ کا بہت زیادہ ذوق رکھتا ہے۔ 27 دسمبر کا دن میری زندگی کا یادگار دن تھا کہ اس بیٹے کی نکاح کی تقریب مرکز قرآن وسنہ یو ای ٹی کالونی لاہور میں منعقد ہوئی۔ میری خوشی اس وجہ سے دو چند ہو چکی تھی کہ بیٹے کا نکاح پڑھانے کے لیے واجب الاحترام اورانتہائی شفقت کرنے والے چچا ڈاکٹر فضل الٰہی اسلام آبادسے اپنے بیٹے حافظ حماد الٰہی کے ہمراہ خصوصی طور پر تشریف لائے۔ ڈاکٹرفضل الٰہی نے اس موقع پر بڑا ہی بلیغ اور فکر انگیز خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپ نے نکاح کی شان وعظمت اور اہمیت کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا اور شرکائے مجلس کے سامنے اس بات کو رکھا کہ نکاح پاکدامنی اور طہارت کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ہے ۔ نکاح انسان کی نظر کی حفاظت کرتا ہے اوراس کے نتیجے میں انسان کو اللہ کے فضل اور رحمت سے سکون حاصل ہوتا اور بہت سے نفسیاتی عارضوں سے نجات ملتی ہے۔ نکاح انسان کے نصف دین کی تکمیل کا سبب ہے اور کتاب وسنت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے نتیجے میں انسان کی معیشت مستحکم ہوتی ہے۔ نکاح کے نتیجے میں انسان جہاں پر اپنے جبلی تقاضوں اور فطری خواہشات کو پورا کرکے بے حیائی اور فحاشی کے راستے سے دور ہو کر پاکدامنی والی زندگی گزارتا ہے‘ وہیں پر اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کواس رشتے کے نتیجے میں اولاد کی نعمت سے بھی نوازتے ہیں۔ نکاح کے نتیجے میں اُمت پھلتی پھولتی ہے اور اس سے دوری کے نتیجے میں اُمت مٹنا اور سکڑنا شروع ہو جاتی ہے۔
بہت سے لوگ نکاح کو بغیر کسی معقول وجہ کے مؤخر کرتے اور بعض لوگ اس کی افادیت کو سمجھنے سے اس حد تک قاصر رہتے ہیں کہ پوری زندگی بغیر نکاح ہی کے گزار دیتے ہیں۔ جن معاشروں میں بھی نکاح کی اہمیت کو کم کیا گیا یا اس کوکم سمجھا گیا تو وہاں پر خاندانی نظام تباہی اور بربادی کا شکار ہو گیا۔ نکاح کی اہمیت اس امر سے واضح ہو جاتی ہے کہ نبی آخرالزماںﷺ اور انبیاء کرام علیہم السلام نے بھی نکاح فرمائے۔ انہوں نے نکاح کے لیے نیک عورت چننے کی رغبت دلائی۔ حدیث مبارکہ کی روشنی میں دنیا کا بہترین خزانہ نیک خاتون کو قرار دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر فضل الٰہی نے اس موقع پر نکاح کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہ بھی بیان کیا کہ نکاح انسان کی دینی اور روحانی ترقی کا سبب بھی ہوتا ہے۔ انہوں نے اس موقع پر معاشرے میں پائی جانے والی غلط رسوم ورواج کی بھی نشاندہی کی اوراس نکتے کو واضح کیا کہ نکاح کا اصل مقصد تو بے حیائی پر قابو پانا تھا لیکن بہت سے لوگوں نے نکاح کی تقریبات کو بھی بے حیائی کے فروغ کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ بہت سی عورتیں اس موقع پر بے پردگی کامظاہرہ کر کے نکاح کے تقدس کو مجروح کرتی ہیں اور مردوزن کے اختلاط کی وجہ سے معاشرہ نکاح کی برکات سے محروم ہو جاتا ہے۔ انہوں نے نکاح کے موقع پر کیے جانے والے تکلفات اور رسومات کی بھی بھرپور انداز میں مذمت کی اور تعلیمات رسول کریمﷺ کی روشنی میں اس بات کو واضح کیا کہ بہترین اور برکت والا نکاح وہ ہے جس میں آسانی کو اختیار کیا جائے۔ انہوں نے نکاح کے موقع پر کیے جانے والے تکلفات اور بے جا اسراف کو خاندانوں کی معاشی بدحالی کا بڑا سبب قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان تکلفات کو شادی بیاہ کی تقریبات کا لازمی حصہ بنا دیا گیا ہے اور بہت سے لوگ نکاح کرنے سے فقط اس لیے قاصر ہو جاتے ہیں کہ نکاح کے تکلفات اور رسومات کی ادائیگی ان کے لیے ممکن نہیں ہوتی ۔ قرونِ اولیٰ میں کیے جانے والے نکاح بڑی سادگی کے ساتھ ہوتے تھے۔ جس کے نتیجے میں معاشرے میں امن ، اطمینان اور سکون تھا اور لوگ معاشی دباؤ کا شکار ہوئے بغیر ان تقریبات کو اچھے طریقے سے نبھالیتے تھے۔ انہوں نے اس موقع پر سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا اور دلہاکو دلہن اور اس کے گھر والوں کے احترام کا سبق دیا اوردلہن کو دلہااور اس کے گھر والوں کے احترام کی تلقین کی۔ اُن کے اِس موقع پر دیے جانے والے درس میں جہاں حاضرین کی علمی تشنگی کو دور کرنے کا سامان تھا وہیں پر انہوں نے معاشرے میں نکاح اور اس کی تقریبات کے حوالے سے پائی جانے والی الجھنوں کے حوالے سے بھی بہترین انداز میں رہنمائی کی۔ خطبہ نکاح کے بعد ایجاب وقبول کا مرحلہ مکمل ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ بیٹے کی ولادت سے لے کر شادی کے دن تک کا وقت نہایت تیزی کے ساتھ گزر گیا ہے۔ زندگی یقینا کسی موقع پر ٹھہرتی نہیں بلکہ ہر لحظہ اور ہر لمحہ چلتی ہی چلی جاتی ہے اورماہ وسال گزرنے کا کئی مرتبہ اندازہ ہی نہیں ہو پاتا۔
قیم بیٹے کا نکاح جہاں پر خوشیوں کے حصول کا سبب تھا وہیں پر اسی دن ایک دیرینہ دوست ،مشفق ساتھی اور عالم باعمل مولانا مفتی مبشر احمد ربانی صاحب کی شدید بیماری کی اطلاع موصول ہوئی کہ وہ فالج کے شدید حملے کی وجہ سے ہسپتال منتقل کر دیے گئے ہیں۔ مفتی مبشر احمد ربانی ایک بلند پایہ عالم دین ہیں۔ آپ جہاں تحریر وتقریر اور فتاویٰ کے حوالے سے ممتاز شخصیت ہیں وہیں پر آپ میں پیار ، محبت ، خلوص اور اخوت والی بہت سی خوبصورت صفات بھی پائی جاتی ہیں ۔آپ ہمیشہ اپنے چاہنے اور پیار کرنے والوں کے ساتھ نہایت محبت اور گرمجوشی سے پیش آتے ہیں۔ آپ کی مجلس میں شریک ہونے والا شخص آپ کے پیار اور اُنس کو اپنے ذہن وقلوب میں اترتا ہوا محسوس کرتا ہے۔
مفتی مبشر احمد ربانی صاحب کی یہ بیماری یقینا میرے لیے انتہائی دکھ اور کرب کا سبب تھی اور میں نے دل سے ان کے لیے اللہ کی بارگاہ میں دُعا مانگی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے اس عظیم بھائی کو شفا یاب فرما تاکہ وہ دین اور ملت کی خدمت کا فریضہ احسن انداز میں انجام دیتے رہیں۔ بیٹے کی شادی کے ساتھ ہی ایک عزیز القدر دوست کی بیماری جہاں پر پریشانی کا سبب تھی وہیں پرزندگانی کی حقیقت کو بھی اجاگر کر دینے والی تھی کہ زندگی کسی بھی مقام پر رکتی یا ٹھہرتی نہیں بلکہ اس کے رنگ ہر آن اور ہر لحظہ بدلتے رہتے ہیں۔ جب انسان کو اللہ کے فضل اور توفیق سے خوشیوں کے لمحات میسر آئیں تو انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور جب انسان کسی صدمے سے دوچار ہو تو اس کو صبر اور دعا کے راستے کو اختیار کرنا چاہیے تاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا حاصل کی جا سکے۔ جو لوگ زندگی کے بدلتے ہوئے لمحات کے دوران اپنے پروردگار کو یاد رکھتے ہیں یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ کی تائید اور نصرت ان کے شامل حال ہو جاتی ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ ایسے لوگوں کو دنیا اور آخرت کی کامیابیوں سے ہمکنار فرما دیتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ نہ دنیا کی خوشیوں میں ہمیشگی ہے اور نہ ہی دنیا کے غموں کو دوام ہے۔ حقیقی خوشیاں یقینا انسان کو آخرت میں جنت کے حصول کے بعد حاصل ہوں گی اور حقیقی غم آخرت میں ناکام ہو کر جہنم کی آگ میں چلے جانے والوں کا مقدر بنے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ زندگی کے ان بدلتے ہوئے رنگوں کے دوران ہمیں اپنی اطاعت و فرمانبرداری کو اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !