انسانوں کی بڑی اکثریت کواپنے مال سے بہت زیادہ محبت ہوتی ہے اورانسان اس کو جمع کرنا پسند کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کا بیان سورہ عادیات کی آیت نمبر 8میں کچھ یوں فرمایا ہے: ''اور بے شک وہ مال کی محبت میں یقینا بہت سخت ہے‘ـ‘۔ ایک طرف مال کی یہ شدید محبت ہے اور دوسری طرف یتامیٰ، مساکین ، مانگنے والوں اور غریبوں کا حق ہے۔ مال کی محبت اور مستحقین کے حق کے درمیان کشمکش یقینا انسان کے لیے ایک آزمائش ہے۔ کتاب وسنت کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے جو شخص اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتا اُس کو مختلف طرح کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جن میں سے دو اہم درج ذیل ہیں:
1۔ مال کا تلف ہو جانا: اپنے مال کو اللہ کے راستے میں خرچ نہ کرنے کا پہلانقصان یہ ہے کہ دنیا میں انسان کا مال تلف ہو سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجیدمیں بہت سے ایسے اشخاص کا ذکر کیا جنہوں نے اپنے اموال کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں خرچ نہ کیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے لیے ان کے مال کو تلف کر دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ قصص میں قارون کے انجامِ بد کا ذکر کرتے ہیں کہ جس کو اس کی بستی کے اہلِ علم اللہ تبارک وتعالیٰ کے احسان کا شکریہ ادا کرنے کی دعوت دیتے تھے لیکن اس نے اپنے مال کی نسبت اپنے ہنر اور صلاحیت سے کی اور اپنے مال پر گھمنڈ کیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو اس کے گھر بار اور خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا۔
قرآن مجید کی سورہ کہف میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک بڑے جاگیر دار کے باغ کے تباہ ہونے کا ذکر کیا جو آخرت کا منکر تھا اورا پنے دین دار ہمسائے کی نصیحتوں کو نظر انداز کیا کرتا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ کہف کی آیت نمبر 42،43میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اورگھیر لیا گیا (یعنی تباہ کر دیا گیا) اس کے پھل کو تو اس نے صبح کی (اس حال میں کہ) وہ ملتا تھا اپنی دونوں ہتھیلیاں اس پر جو اس نے خرچ کیا اس میں اس حال میں کہ وہ گرا ہوا تھا اپنی چھتوں پر اور وہ کہتا تھا اے کاش! میں شریک نہ بناتا اپنے رب کے ساتھ کسی کو۔ اور نہ ہوئی اس کے لیے کوئی جماعت (کہ) وہ مدد کرتے اس کی اللہ کے سوا‘ اور نہ تھا وہ بدلہ لینے والا‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ قلم میں ایک نیک باغبان کی اولاد کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اپنے باغ کی پیداوار کو لوگوں سے چھپانے کا ارادہ کیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے باغ کو تباہ وبرباد کر دیا تھا۔ احادیث مبارکہ میں بھی اپنے مال کو خرچ نہ کرنے کے نتیجے میں مال کے برباد ہونے کے واقعات موجود ہیں۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں ایک اہم واقعہ مذکور ہے کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے، ایک کوڑھی، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا، اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ان کا امتحان لے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس ایک فرشتے کو بھیجا۔ فرشتہ کوڑھی کے پاس آیا اور اس کی خواہش پر‘ جب فرشتے نے اس پر اپنا ہاتھ پھیرا تو کوڑھی کا رنگ بھی خوبصورت ہو گیا اور چمڑی بھی اچھی ہو گئی۔ فرشتے نے پوچھا: کس طرح کا مال تم زیادہ پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ اونٹ! (یا اس نے گائے کہی، حدیث کے راوی اسحاق بن عبداللہ کو اس سلسلے میں شک تھا کہ کوڑھی اور گنجے دونوں میں سے ایک نے اونٹ کی خواہش کی تھی اور دوسرے نے گائے کی) چنانچہ اسے حاملہ اونٹنی دی گئی اور کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے گا، پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کا عیب جاتا رہا اور اس کے بجائے عمدہ بال آ گئے۔ فرشتے نے پوچھا: کس طرح کا مال پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ گائے! بیان کیا کہ فرشتے نے اسے حاملہ گائے دے دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت دے گا۔ پھر اندھے کے پاس فرشتہ آیا اور اس پر ہاتھ پھیرا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی اسے واپس دے دی۔ پھر پوچھا کہ کس طرح کا مال تم پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ بکریاں! فرشتے نے اسے حاملہ بکری دے دی۔ پھر تینوں جانوروں کے بچے پیدا ہوئے، یہاں تک کہ کوڑھی کے اونٹوں سے اس کی وادی بھر گئی، گنجے کی گائے‘ بیل سے اس کی وادی بھر گئی اور اندھے کی بکریوں سے اس کی وادی بھر گئی۔ پھر دوبارہ فرشتہ اپنی اسی پہلی شکل میں کوڑھی کے پاس آیا اور کہا کہ میں ایک نہایت مسکین و فقیر آدمی ہوں، سفر کا تمام سامان و اسباب ختم ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی سے حاجت پوری ہونے کی امید نہیں، لیکن میں تم سے اسی ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں اچھا رنگ اور اچھی چمڑی اور مال عطا کیا، ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں جس سے سفر کو پورا کر سکوں۔ اس نے فرشتے سے کہا کہ میرے ذمہ اور بہت سے حقوق ہیں۔ فرشتے نے کہا: غالباً میں تمہیں پہچانتا ہوں، کیا تمہیں کوڑھ کی بیماری نہیں تھی جس کی وجہ سے لوگ تم سے گھن کھاتے تھے۔ تم ایک فقیر اور قلاش تھے۔ پھر تمہیں اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں عطا کیں؟ اس نے کہا کہ یہ ساری دولت تو میرے باپ دادا سے چلی آ رہی ہے۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں تمہاری پہلی حالت پر لوٹا دے۔ پھر فرشتہ گنجے کے پاس اپنی اسی پہلی صورت میں آیا اور اس نے بھی کوڑھی والا جواب دیا۔ فرشتے نے اسے بھی وہی بدعا دی ۔اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس آیااور اس سے اس کے ماضی کے اندھے پن اور محتاجی کا ذکر کیا اور ایک بکری کا سوال کیا۔ اندھے نے جواب دیا کہ واقعی میں اندھا تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے بینائی عطا فرمائی اور واقعی میں فقیر و محتاج تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے مالدار بنایا، تم جتنی بکریاں چاہو لے سکتے ہو، اللہ کی قسم جب تم نے اللہ کا واسطہ دیا ہے تو جتنا بھی تمہارا جی چاہے لے جاؤ، میں تمہیں ہرگز نہیں روک سکتا۔ فرشتے نے کہا کہ تم اپنا مال اپنے پاس رکھو، یہ تو صرف امتحان تھا اور اللہ تعالیٰ تم سے راضی اور خوش ہے اور تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہے۔
2۔ آخرت کا دردناک عذاب: اپنے مال کو خرچ نہ کرنے والوں کو آخرت کے دردناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر 34،35میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور وہ لوگ جو جمع کرکے رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور نہیں خرچ کرتے اسے اللہ کی راہ میں تو خوشخبری سنا دیں اُنہیں دردناک عذاب کی۔ جس دن تپایا جائے گا اس (سونا چاندی) کو جہنم کی آگ میں پھر داغا جائے گا اُن سے اُن کی پیشانیوں کو اور اُن کے پہلووں کو اور اُن کی پیٹھوں کو، (اور کہا جائے گا) یہ ہے جو تم نے جمع کر کے رکھا اپنے نفسوں کے لیے ، تو مزا چکھو (اس کا) جو تھے تم جمع کرکے رکھتے۔‘‘
اس کے مدمقابل وہ لوگ جو اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے اپنے مال کو خرچ کرتے ہیں تو اُن کو دنیا و آخرت میں بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ مال میں اضافہ: اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں خرچ کیے جانے والے مال کے بدلے میں اللہ تبارک وتعالیٰ مزید مال عطا فرماتے ہیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ سبا کی آیت نمبر 39میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو تم (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہوکوئی چیز تو وہ عوض دیتا ہے اُس کا (یعنی اس کی جگہ اور دیتا ہے) اوروہ سب رزق دینے والوں سے بہتر ہے‘‘۔
2۔ خوف اور غم کا خاتمہ : قرآن مجید کے مطالعے سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ جو لوگ اپنے مال کو صبح وشام اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے خوف اور غم کو دور فرما دیتے ہیں۔سورہ بقرہ کی آیت نمبر 262میں ارشاد ہوا: ''وہ لوگ جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال اللہ کی راہ میں‘ پھر وہ نہیں جتاتے احسان (اس پر) جو وہ خرچ کریں اور نہ ہی دکھ (دیتے ہیں) ان کے لیے ان کا اجر ہے ان کے رب کے پاس اور نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘‘۔
3۔تزکیہ و طہارت کا حصول : کلامِ حمید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ انفاق کے نتیجے میں انسان کو پاکیزگی اور طہارت حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر 103میں ارشادفرماتے ہیں: ''آپ لیجئے ان کے مالوں میں سے صدقہ (تاکہ) آپ پاک کریں انہیں اور آپ تزکیہ کریں ان کا اس کے ذریعے‘‘۔
4۔ اُخروی سر بلندی: اللہ تبارک وتعالیٰ انفاق فی سبیل للہ کی برکت سے قیامت کے دن بھی انسان کو سرخرو کریں گے اور خرچ کیے ہوئے مال کے بدلے اسے آگ سے بچائیں گے۔ سورہ بلد کی آیت نمبر 11سے 14 میں ارشاد ہوا: ''پس نہیں وہ داخل ہوا دشوار گھاٹی میں۔ اور آپ کیا جانیں (کہ) دشوار گھاٹی کی ہے ۔ چھڑانا ہے گردن کا۔ یا کھانا کھلانا بھوک والے دن میں‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 261 میں انفاق کی مثال ایک ایسے دانے کے ساتھ دی ہے جس کے نتیجے700 دانے پیدا ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہے مزید بڑھا سکتا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنے راستے میں خرچ کرنے والے لوگوں میں شامل فرمائے اور بخل سے محفوظ فرمائے۔ آمین!