حافظ ـمحسن جاوید میرے بہنوئی ہیں لیکن مجھے ان کے ساتھ بھائیوں جیسی وابستگی ہے۔ گزشتہ کئی سال کے دوران جب بھی ہم آپس میں ملتے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے گویا کہ دو قریبی دوست یا بھائی آپس میں ملاقات کر رہے ہوں۔ آپ خوش اخلاق ہیں اور کسی کی دل شکنی یا کسی پر طعن وتشنیع سے گریز کرتے ہیں۔ خوش مزاج ‘ خوش لباس اور خوش خوراک حافظ محسن جاوید ہمیشہ لوگوں کے کام آنے پر آمادہ وتیار رہتے ہیں۔ لوگوں کی خوشی ‘ غمی پر پہنچنا ان کا معمول ہے۔ بلا ضرورت گفتگو نہیں کرتے لیکن ہلکے پھلکے مزاح پر ہمیشہ متبسم رہتے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں کے دوران میں نے کبھی بھی ان کے چہرے پر حزن وملال کے اثرات نہیں دیکھے لیکن گزشتہ جمعرات کو اچانک جب اس بات کی اطلاع ملی کہ حافظ محسن جاوید کے والد جاوید صاحب اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے ہیں تو جہاں پر مجھے ان کی وفات پر بہت زیادہ صدمہ پہنچا وہیں پر ان کو والد کے جنازے کے موقع پر حزن وملال میں ڈوبے ہوئے دیکھا۔ محسن جاوید نہ صرف یہ کہ اپنے والد کے تابعدار فرزند تھے بلکہ ان کے رفیقِ کار اور تمام معاملات میں معاون بھی تھے۔ اپنے والد کی خدمت کرنا اور ان کے احکامات کی تعمیل کرنا اپنے لیے اعزاز سمجھتے تھے۔ بھائی ملک جاوید کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت سی خصوصیات سے نوازا تھا۔ تقویٰ‘ للہیت اور نماز کی پابندی کے ساتھ ساتھ جسمانی صحت کے اسرارورموز کو سمجھنے والے تھے۔ ورزش کرنا ان کا معمول تھا اور مختلف جڑی بوٹیوں کے اثرات سے بخوبی آگاہ تھے۔ مجلس میں بیٹھتے تو حکمت اور دانائی پر مبنی گفتگو کرکے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا کرتے تھے۔ کسی کو بیمار دیکھتے تو اس کی تیمار داری کے ساتھ ساتھ اس کو صحت یابی کے لیے کوئی نہ کوئی مثبت نصیحت بھی ضرور کر دیا کرتے تھے۔ مرکز قرآن وسنہ میں جمعہ اور تراویح کی نماز باقاعدگی سے ادا کیا کرتے تھے ۔دروس قرآن بڑی توجہ اور انہماک سے سنتے اور علم وحکمت کے موتیوں کو چننے کے بعد موقع بہ موقع ان کو بکھیرا کرتے تھے۔ آپ کا مزاج ہلکاپھلکا تھااور آپ کی شخصیت ہمہ وقت متبسم نظر آتی تھی۔ آپ کی اچانک موت نے سب کو چونکا کر رکھ دیا۔ حافظ محسن جاوید کے غم میں ڈوبے ہوئے چہرے کو دیکھ کر میں نے بھی اپنے دل میں دکھ اور غم کی لہر کو اترتے ہوئے محسوس کیا اور دنیا کی بے ثباتی ایک مرتبہ پھرواضح ہو کر سامنے آ گئی۔
ہم ہر روزجنازوں کواٹھتا دیکھتے ہیں لیکن یہ ہماری کوتاہ بینی ہے کہ ہم اِن جنازوں سے عبرت حاصل نہیں کرتے۔ہم بالعموم یہی گمان کرتے ہیں کہ مرنے والا تو دنیا سے چلا گیاہے لیکن ہم نے ہمیشہ دنیا میں ہی رہنا ہے۔ ہم کو موت دوسروں کے لیے نظر آتی ہے لیکن اپنے آپ کو ہمیشہ قبر سے دور محسوس کرتے ہیں۔ زندگی کے مقاصد عام طور پر مال ودولت‘ حسن وجمال‘ طاقت اور عہدوں کو اکٹھا کرنا بن چکا ہے۔ موت کو لوگوں کی اکثریت نے فراموش کر دیا ہے۔ ہر گھر میں ہونے والی اموات وقتی طور پر لوگوں کو دکھی کرتی ہیں لیکن بعدازاں لوگ ان اموات کو فراموش کر کے اپنے مشاغل اور پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ تکاثر میں انسانوں کی کوتاہ بینی کا نقشہ بڑے ہی عبرت انگیز انداز میں کھینچا ہے۔ سورہ تکاثر کی آیت نمبر 1‘2میں ارشاد ہوا: ''غافل کر دیا تمہیں باہمی کثرت کی خواہش نے۔ یہاں تک کہ تم نے جا دیکھیں قبریں ‘‘۔سورہ تکاثر کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کثرت کی یہ دوڑجلد یابدیر ختم ہونے والی ہے اور انسان کو عنقریب قبروں میں جانا ہو گا۔ قبروں میں جانے کے بعد انسانوں کے لواحقین ‘ پیارے‘ اعزاء واقارب انہیں کچھ عرصے تک یاد رکھیں گے لیکن گزرتے ہوئے ماہ وسال کے دوران ان کی یادیں مدھم پڑتی جائیں گی۔ قبر کی تنہائیوں میں انسان کے کام یا تو اس کے اعمال آئیں گے یا نیک اعزاء واقارب کی دعائیں اس کے درجات کی بلندی کا سبب بن جائیں گی۔
بالعموم انسان دنیاوی مشاغل میں جذب ہو کر آخرت کو فراموش کر دیتا ہے ۔ انسان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اسلام ہمیں دین اور دنیا میں توازن رکھنے کا حکم دیتا ہے اور آخرت کی سربلندی کے ساتھ ساتھ دنیا کے مال واسباب کو بھی جائز طریقے سے کمانے کے راستے میں رکاوٹوں کو حائل نہیں کرتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں جامع ترین دعا کا ذکر کیا ہے جس میں دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کو طلب کیا گیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 201میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے ہمارے رب !ہمیں دے دنیا میں بھلائی اور آخرت میں (بھی) بھلائی اور ہمیں بچا لے آگ کے عذاب سے‘‘۔اس دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کو دنیا میں کامیابی سے نہیں روکتے لیکن وہ لوگ جو دنیا داری میں گم ہو کر آخرت کی زندگی کو یکسر فراموش کردیتے ہیں ایسے لوگ یقینا ناکام ونامراد ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو قرآن مجید کے مختلف مقامات پر بیان فرمایا ہے۔ سورہ کہف کی آیت نمبر 103سے 105میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''کہہ دیجئے کیا ہم خبر دیں تمہیں زیادہ خسارے پانے و الوں کے اعمال کے اعتبار سے‘ وہ لوگ جو (کہ) ضائع ہو گئی ان کی کوشش دنیوی زندگی میں حالانکہ وہ گمان کرتے ہیں کہ بے شک وہ اچھے کام کر رہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے انکار کیا اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا تو ضائع ہو گئے ان کے اعمال سو نہیں ہم قائم کریں گے ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن‘‘۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نازعات میں بھی اس حقیقت کو واضح فرما دیا کہ دنیا کی زندگی میں طغیانی کے راستے کو اختیار کرنے والے جہنم میں ڈال دیے جائیں گے جبکہ اس مد مقابل اپنی خواہشات کو دبانے والے لوگوں کے لیے جنتوں کو تیار کر کیا گیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نازعات کی آیت نمبر 37سے 41میں ارشاد فرماتے ہیں : ''پس رہا وہ جس نے سرکشی کی اور اس نے ترجیح دی دنیوی زندگی کو ۔ تو بے شک جہنم ہی (اُس کا)ٹھکانا ہے۔ اور رہا وہ جو ڈر گیا اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے اور اس نے روکا (اپنے) نفس کو (بری ) خواہش سے ۔ تو بے شک جنت ہی (اُس کا) ٹھکانا ہیـ‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ اعلیٰ کی آیت نمبر 16‘17میں اس زندگی کو ہی ترجیح دینے والے لوگوں کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ''بلکہ تم ترجیح دیتے ہو دنیوی زندگی کو۔ حالانکہ آخرت بہتر اور زیادہ پائیدار ‘‘۔
دنیاوی علوم کو سمجھنے والے لوگ اگر آخرت سے غافل ہوں تو ان کا علم اور دانش یقینا ان کی فلاح کا سبب نہیں بن سکتے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسے لوگوں کے بارے میں سورہ روم کی آیت نمبرسات میں ارشاد فرمایا ہے : ''وہ جانتے ہیں ظاہر کو دنیوی زندگی سے اور وہ آخرت سے (بالکل) وہ غافل ہیں‘‘۔ انسانوں کی اخروی فلاح کے لیے یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ ان کی تخلیق کا مقصد کیا ہے اور موت کے بعد کی زندگی میں کامیابی کی اساس کیا ہوگی؟ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ذاریات کی آیت نمبر 56میں مقصدِ تخلیق کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''اورمیں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔ انسانوں کی بڑی تعداد کی کج فہمی کو دور کرنے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں انسان کی توجہ اس کے انجام کی طرف مبذول کروائی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مومنون کی آیت نمبر 115میں ارشاد فرماتے ہیں: ''تو کیا تم نے سمجھ لیا کہ بے شک ہم نے پیدا کیا تمہیں بے مقصد(ہی) اور یہ کہ بے شک ہماری طرف تم نہیں لوٹائے جاؤ گے‘‘۔
اخروی نجات کے حوالے سے انسان کو اس بات کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ فقط مادی عروج انسان کی اخروی کامیابی کا باعث نہیں بن سکتا ۔ فرعون کی حکومت‘ قارون کا سرمایہ‘ شداد کی جاگیر ‘ ہامان کا منصب اور ابولہب کی چودھراہٹ آخرت میں ان کے کسی کام نہیں آئے گی۔ آخرت میں انسانوں کے کام کوئی چیز آئے گی تو اس کے اعمال ہوں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ آخرت میں قائم کیے جانے والے میزان کے بارے میں سورہ قارعہ کی آیت نمبر 6سے 11میں ارشاد فرماتے ہیں:''پس رہا وہ جو (کہ) بھاری ہو گئے اس کے پلڑے۔ تو وہ پسندیدہ زندگی میں ہو گا ۔ اور رہا وہ جو (کہ) ہلکے ہو گئے اس کے پلڑے تو اس کا ٹھکانا ہاویہ ہے۔ اور آپ کیا جانیں وہ (ہاویہ) کیا ہے۔ آگ ہے دہکتی ہوئی‘‘۔ اسی حقیقت کو سورہ آل عمران کی نمبر 185میں کچھ یوں بیان کیا گیا : ''ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور بے شک تمہیں پورا پورا دیا جائے گا تمہارے اعمال کا بدلہ قیامت کے دن۔ پس وہ جو بچالیا گیا (جہنم کی ) آگ سے اوروہ داخل کر دیا گیا جنت میں تو یقینا وہ کامیاب ہو گیا اور نہیں ہے دنیاوی زندگی مگر دھوکے کا سامان‘‘۔ ان آیات مبارکہ پر غور وفکر کرنے کے بعد اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ حقیقی کامیابی درحقیقت آخرت میں آگ کے عذاب سے بچ کر جنت میں داخل ہو جانا ہے اوراس کامیابی کے حصول کے لیے انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضاکے حصول کے لیے جستجو کرنی چاہیے۔ جو شخص اچھے اعمال کرے گا اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کے لیے آخرت میں بھلائیوں اور جنتوں کو تیار کر رکھاہے اور جو شخص اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے یوم ِ حساب کو فراموش کر دے گا یقینا وہ شخص ناکام اور نامراد ٹھہرے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو موت سے عبرت حاصل کرتے ہوئے مقصدِ تخلیق کو سمجھنے اور اچھے اعمال کو بجا لانے کی توفیق دے۔ آمین