پاکستان کو آزاد ہوئے 73 برس کا عرصہ بیت چکا ہے ‘ان 73 سالوں کے دوران وطن عزیز کی نسبت سے جتنا عتاب اہلِ کشمیر نے سہا ہے اتنا شاید ہی کسی دوسرے علاقے کے لوگوں نے سہا ہو۔ تحریک پاکستان کے دوران جہاں پر برصغیر کے طول وعرض میں بسنے والے مسلمانوں نے حضرت قائد اعظم، حضرت علامہ محمد اقبال، حضرت مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا مظاہرہ کیا تھا‘ وہیں پر کشمیرکے مسلمانوں نے بھی اس تحریک کی بھرپور تائید کی تھی۔ پاکستان سے الحاق کی خواہش اہلِ کشمیر کے سینوں میں بھی اسی طرح موجزن تھی جس طرح پنجاب، خبیر پختونخوا، سندھ اوربلوچستان کے لوگوں کے دلوں میں تھی۔ کشمیر کی پاکستان کے ساتھ بوجوہ گہری نسبت ہے۔ مذہب، جغرافیہ اور زبان کی نسبت سے کشمیری ہمارے ساتھ ہم آہنگی رکھتے ہیں لیکن ان کو ایک سازش کے تحت جبراً پاکستان سے علیحدہ رکھا گیا اور ان کے پاکستان کے ساتھ الحاق کو استصوابِ رائے سے مشروط کر دیا گیا۔ بعدازاں استصوابِ رائے پر بھی لیت ولعل سے کام لیتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو گمبھیراور پیچیدہ بنا دیا گیا۔
بھارت کے اثرورسوخ اوربین الاقوامی طاقتوں کے ساز باز کے باوجود اہلِ کشمیر پاکستان سے علیحدہ رہنے پر آمادہ وتیار نہ ہوئے اور کشمیر کے طول وعرض میں پاکستان کے الحاق کی کوششیں کئی عشروں سے مسلسل جاری وساری ہیں۔مقبوضہ کشمیر کے لوگ پاکستان سے والہانہ وابستگی کا اظہار کرنے وجہ سے ظلم، ستم اور عتاب کا نشانہ بن رہے ہیں۔ کشمیری نوجوانوں کی بڑی تعداد کو دین اور پاکستان سے محبت کی وجہ سے بڑی بے دردی سے شہید کیا جاتا ہے جبکہ نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد جیلوں اور عقوبت خانوں میں بھارت کے ریاستی جبرا ور تشدد کا نشانہ بنتی ہے، حریت پسند بوڑھوں کی داڑھیوں کو لہو سے رنگین کیا جاتا ہے، ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے دوپٹوں اور چادروں کو نوچا جاتا ہے لیکن ان تمام آزمائشوں کے باوجود اہلِ کشمیر نے پورے استقلال کے ساتھ پاکستان کے ساتھ والہانہ وابستگی کو برقرار رکھا۔ گوکشمیر کے بعض قوم پرستوں نے آزاد ریاست کے حصول کا بھی نعرہ لگایا لیکن پاکستان سے الحاق کا نعرہ مقبوضہ کشمیر میں خود مختار کشمیر کی تحریک کے مقابلے میں زیادہ مضبوط اور مؤثر رہا۔ گزشتہ سات عشروں کے دوران جس انداز سے کشمیریوں کو ہراساں کیا گیا اور ذہنی اذیت اور تکالیف کا نشانہ بنایا گیا‘ یہ اہلِ کشمیر ہی کی جرأت اور بہادری ہے کہ وہ ان تمام مصائب پر صبر کرتے رہے اور پوری خندہ پیشانی کے ساتھ اپنے عقائد، نظریات اور افکار کا تحفظ کرتے رہے۔اہلِ کشمیر گو عرصۂ دراز سے ظلم اور استبداد کا شکار تھے لیکن کشمیر کے مسئلے پر جس انداز سے مودی حکومت نے انتہا پسندانہ رویے کا اظہار کرتے ہوئے اس کی متنازع حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا وہ ہر اعتبار سے قابل مذمت ہے۔اس ظلم وبربریت کی سنگینی اپنی جگہ پر لیکن المیہ یہ ہے کہ اہل کشمیر کے ساتھ ہونے والے ظلم، جبر اور استبداد پر اقوام عالم کا ضمیر سویا ہوا ہے اور انسانی حقوق کی پامالی پر عالمی ضمیر میں کسی قسم کی حرکت اور بیداری نظر نہیں آتی۔ اگر بین الاقوامی سیاست کا تجزیہ کیا جائے تو اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ بین الاقوامی مسائل پر اقوام عالم کا معیار دہرا ہے ‘ سوڈان، انڈونیشیا یا دنیا کے کسی اور مقام پر مسیحی اگر اپنے سیاسی حقوق کے لیے آواز اُٹھائیں تو بین الاقوامی طاقتیں اور عالمی ادارے متعلقہ مسائل پر فوراً سے پہلے اپنی توجہات مرتکز کر دیتے ہیں لیکن مسلمان اُمت سے متعلقہ مسائل میں جس بیدردی، بے رُخی اور غفلت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے یقینا وہ ہر اعتبار سے افسوسناک ہے۔ فلسطین، میانمار اور کشمیر کے لوگ ایک عرصے سے ریاستی ظلم وستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں لیکن اُن کے حوالے سے عالمی سطح پر کوئی مضبوط ردّعمل سامنے نہیں آتا۔اقوام عالم کے بعد کشمیر کا مسئلہ فلسطین اور میانمار کے مسائل کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کی توجہات کا بھی طلبگار ہے لیکن عالم اسلام ان مسائل پر ایک اکائی کی حیثیت سے کردار ادا کرنے کے بجائے اپنی اپنی سیاسی ترجیحات کے تحت مختلف مسائل پر توجہات مرتکز کرتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل پاکستان تشریف لائے تو انہوں نے اس موقع پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے دردِ دل کا اظہار کیا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اوآئی سی،رابطہ عالم اسلامی اور دیگر مسلمان ادارے گاہے گاہے مسئلہ کشمیر پر مذمتی قرار داد اور مذمتی بیانات جاری کرتے رہتے ہیں لیکن اس مسئلے پر جس تحرک اور توجہ کی ضرورت ہے اس انداز میں مسئلے پر توجہ نہیں دی جاتی۔
اقوام عالم اور اُمت مسلمہ سے کہیں بڑھ کر پاکستان کی حکومت اورعوام پر اہلِ کشمیر کی آزادی کے حوالے سے ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ مختلف ادوار میں پاکستان کی حکومتوں نے مسئلہ کشمیر پر سیاسی بیانات بھی دیے اور کئی مرتبہ اہلِ کشمیر سے یکجہتی کا اظہار بھی کیا لیکن جس منظم انداز میں سفارت کاری کی ضرورت تھی‘ سچی بات یہ ہے کہ پاکستان کی حکومتیں اس انداز میں منظم سفارتی کوششیں کرنے سے قاصر رہی ہیں۔ اہلِ پاکستان مختلف ایام میں اہلِ کشمیر سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہیں اور پاکستان کی دینی و سیاسی جماعتیں خصوصیت سے 5 فروری کو یوم کشمیر کی مناسبت سے جلسے، جلوس اور اجتماعات کا انعقاد کرتی ہیں۔ اس موقع پر بڑی تعداد میں پاکستانی جذبات اور دردِ دل کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ پاکستان کی مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے قائدین اس موقع پر مؤثر اور پُرجوش تقریریں بھی کرتے ہیں لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو جس انداز میں تسلسل سے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے اس انداز سے اس مسئلے کو اجاگر نہیں کیا جاتا۔ میں نے کشمیری احباب سے دنیا کے ـمختلف مقامات پر ملاقاتیں کی ہیں۔ یہ لوگ مجھے ہمیشہ پاکستان کی محبت سے سرشار نظر آئے ہیں۔ پاکستان کے دینی رہنماؤں اور مذہبی شخصیات سے بھی اہلِ کشمیر خصوصی عقیدت رکھتے ہیں۔ پاکستان کے طول وعرض میں بھی مجھے مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے احباب سے ملنے کا موقع میسر آیا۔ ان لوگوں نے پاکستان کی محبت میں اپنے ملک سے ہجرت کر لی، اپنے گھر بار اور دیس کو چھوڑ دیا اور اپنے خاندانوں سمیت پاکستان میں آباد ہو گئے۔ میں نے برطانیہ کے سفروں کے دوران بھی بہت سے کشمیری احباب کے جذبات کو سنا اور ان کو پاکستان کی محبت سے سرشار دیکھا۔ پاکستان کا جہاں پر نام آتا ہے وہیں پروہ لوگ جوش اورجذبات سے لبریز ہو جاتے ہیں اور ان کی آنکھوں میں ایک چمک آ جاتی ہے۔