"AIZ" (space) message & send to 7575

تکبر کا انجام

ہمارے معاشرے میں نجی، اجتماعی، سماجی اور سیاسی سطح پر اختلاف کی ایک بڑی وجہ تکبر بھی ہے۔ تکبر انسان کو اس سطح پر لے جاتا ہے کہ وہ دوسرے کو حقیر اور کم تر سمجھتا اور کسی بھی طور پر دوسرے کی ذات، شخصیت اور بات کو اہمیت دینے پر آمادہ و تیار نہیں ہوتا؛ چنانچہ ہم مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ بہت سے گھروں میں شوہر اور بیوی کے درمیان ناچاقی کی بڑی وجہ شوہر کا بیوی کو کم تر سمجھنا ہوتا ہے۔ شوہر اپنی مالی اور خاندانی حیثیت کی وجہ سے اپنے آپ کو برتر سمجھتا اور اپنی بیوی کو حقیر جانتا ہے؛ چنانچہ وہ اس کی کسی بھی ناپسندیدہ اور ناگوار بات کو نظر انداز کرنے پر آمادہ و تیار نہیں ہوتا۔ تکبر کی وجہ سے وہ اپنی بیوی کو سب وشتم اور لعن طعن کرتا اور اس پر تشدد کرنے پر بھی آمادہ و تیار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سی بڑی لکھی اور صاحبِ حیثیت خواتین اپنے علم، خاندان اور معاشرتی پس منظر کی وجہ سے اپنے شوہر کے مقام کو تسلیم کرنے پرآمادہ و تیار نہیں ہوتیں اور کئی مرتبہ کسی معقول اور مناسب بات یا نصیحت کو بھی توہین سمجھ کر شوہر کے ساتھ لڑائی جھگڑے پر تیار ہو جاتی ہیں۔ کئی مرتبہ نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ بیوی اپنے خاندان کے سامنے بھی اپنے شوہر کی تحقیر کرنے پر بھی آمادہ ہو جاتی ہے۔ یہ رویے کئی مرتبہ خاندانوں کے ٹوٹنے پر منتج ہوتے ہیں اور خاندان ٹوٹنے کے بعد بھی تکبر کی وجہ سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا عمل جاری و ساری رہتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے دوران کئی مرتبہ احکامات اور اصول و ضوابط کی تعمیل کروانے کے بجائے ذاتی حیثیت اور عہدے کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے ماتحتوں کی نامناسب انداز میں تحقیر اور تذلیل کی جاتی ہے۔ ماتحت اصول و ضوابط اور افسروں کی حیثیت کی وجہ سے سمجھوتا کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے لیکن اس رویے کی وجہ سے ذہنی اذیت اور نفسیاتی مسائل کاشکار ہو جاتا ہے۔ سیاسی کشمکش کے دوران بھی کئی مرتبہ اصولی اختلافات سے قطع نظر تکبر کا عنصر نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ مختلف علاقوں میں اپنے دھڑے کے مخالفین کی تحقیر کی جاتی اور ان کی کسی جائز بات کو بھی قبول نہیں کیا جاتا۔ اس کے مدمقابل اپنے ساتھیوں کی ہر جائز و ناجائز بات کو تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ تکبر اور تحقیر پر مبنی رویوں کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں کئی مرتبہ نوبت لڑائی جھگڑے، فسادات اور قتل وغارت گری تک پہنچ جاتی ہے۔ لسانی، فرقہ وارانہ اور سیاسی تنازعات میں کئی مرتبہ تکبر کا بہت زیادہ عمل دخل ہوتا ہے۔
جب ہم کتاب وسنت کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو تکبر انتہائی ناپسند ہے اور اس ناپسندیدہ عمل کی وجہ سے انسان کی بہت سی نیکیاں ضائع ہو جاتی ہیں اور انسان بلندی سے پستی میں آ گرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے مختلف مقامات پر حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس کے واقعہ کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ اعراف کی آیت نمبر 11 سے 18 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''پھر ہم نے کہا فرشتوں سے (کہ) سجدہ کرو آدم کو تو انہوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے‘ نہ ہوا وہ سجدہ کرنے والوں میں سے۔ کہا (اللہ نے) کس (چیز) نے روکا تجھے کہ نہ تو سجدہ کرے جب کہ میں نے حکم دیا تجھے؟ اس نے کہا: میں بہتر ہوں اس سے‘ تو نے پیدا کیا مجھے آگ سے اور تو نے پیدا کیا اسے مٹی سے۔ فرمایا: پھر اتر جا اس (بہشت) سے پس نہ تھا (لائق) تیرے لیے کہ تو تکبر کرے اس میں، پس نکل جا بے شک تو ذلیل ہونے والوں میں سے ہے۔ اس (ابلیس) نے کہا: تو مہلت دے مجھے اس دن تک (کہ) وہ اٹھائے جائیں گے۔ فرمایا: بے شک تو مہلت دیے جانے والوں میں سے ہے۔ اس نے کہا: تو اس وجہ سے کہ تو نے ملعون کیا مجھے لازماً میں بیٹھوں گا ان (کو گمراہ کرنے) کے لیے تیرے سیدھے راستے پر۔ پھر ضرور میں آؤں گا ان کے پاس ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے اور نہیں پائیں گے آپ ان کی اکثریت کو شکر کرنے والے۔ فرمایا: نکل جا اس سے مذمت کیا ہوا دھتکارا ہوا ۔ یقینا جس نے تیری پیروی کی ان میں سے ضرور میں بھر دوں گا جہنم کو تم سب سے‘‘۔
ان آیات مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ابلیس کی ذلت اور رسوائی کی بنیادی وجہ اس کا تکبر تھا۔ اس تکبر کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو ہمیشہ کے لیے راندۂ درگاہ بنا دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت سے ایسے کرداروں کا ذکر کیا ہے جو تکبر کی وجہ سے تباہی اور ذلت کی گہرائیوں میں گر گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت دی اور بہت سے حسی معجزات بھی فرعون کے سامنے آئے۔ اس نے یدبیضا، معجزاتی عصاء، ٹڈیوں، مینڈکوں، جوئوں، خون کی بارش اور طوفانوں کو دیکھنے کے باوجود سیدھا راستہ اختیار کرنے کے بجائے تکبر کی وجہ سے کفر کا راستہ اختیار کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے بہت سے مقامات پر اس کے متکبرانہ اندازِ گفتگو کا ذکر کیا ہے۔ جن میں سے اہم مقام سورہ زخرف بھی ہے۔ سورہ زخرف کی آیت نمبر51 سے 56 میں ارشاد ہوا: ''اور فرعون نے اپنی قوم میں منادی کی‘ اس نے کہا: اے میری قوم! کیا میرے پاس مصر کی بادشاہی نہیں؟ اور یہ نہریں میرے تحت چل رہی ہیں تو (بھلا) کیا تم دیکھتے نہیں ہو۔ بلکہ میں بہتر ہوں اس سے وہ جو حقیر ہے اور قریب نہیں (کہ) وہ بات واضح کر سکے۔ پھر کیوں نہیں ڈالے گئے اس پر سونے کے کنگن یا (کیوں نہیں) آئے اس کے ہمراہ فرشتے مل کر۔ چنانچہ اس نے ہلکا (یعنی کم عقل) بنا دیا اپنی قوم کو تو انہوں نے اس کی بات مان لی‘ بے شک وہ نافرمان لوگ تھے۔ پھر جب انہوں نے ہمیں غصہ دلایا (تو) ہم نے انتقام لیا ان سے پس ہم نے غرق کر دیا انہیں سب کے سب کو۔ پھر ہم نے بنا دیا اُنہیں گئے گزرے اور پیچھے آنے والوں کے لیے مثال (بنا دیا)‘‘۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ قصص میں قارون کی تباہی اور بربادی کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا ہے اس لیے کہ وہ اپنے مال کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی عطا سمجھنے کے بجائے اپنے عمل اور ہنر کو اس کی بنیاد قرار دیا کرتا تھا۔ اس کی بستی کے کم عقل لوگ اس کے مال سے متاثر ہو کر اس جیسے مال کو حاصل کرنا چاہتے تھے۔ بستی کے اہل علم ان کو نصیحت کیا کرتے تھے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ملنے والا ثواب قارون کے مال سے بہت بہتر ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اتمام حجت کے لیے قارون کو اس کے خزانے سمیت زمین میں دھنسا دیا جس پر بستی کے وہی لوگ‘ جو اس کے مال کی طرح کا مال حاصل کرنا چاہتے تھے‘ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل اور احسان پر اس کا شکریہ ادا کرنے لگے کہ اگر ہم پر اللہ کا احسان نہ ہوتا تو ہم بھی قارون کی طرح زمین میں دھنسا دیے جاتے۔ قارون کا واقعہ بیان کرنے کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کو بھی واضح کر دیا کہ اُخروی کامیابی انہیں لوگوں کا مقدر بنے گی جو زمین پر اترانے اور فساد مچانے سے اعراض کرتے ہیں۔ سورہ قصص کی آیت نمبر 83 میں ارشاد ہوا: ''یہ اُخروی گھر ہم (تیار) کرتے ہیں اُسے (ان لوگوں) کے لیے جو نہیں چاہتے کوئی بڑائی زمین میں اور نہ کوئی فساد اور (بہترین) انجام متقین کے لیے ہے‘‘۔
احادیث مبارکہ میں بھی تکبر کی بڑے شدید انداز میں مذمت کی گئی ہے۔ اس حوالے سے چند اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنا کپڑا (پاجامہ یا تہبند وغیرہ) تکبر اور غرور کی وجہ سے زمین پر گھسیٹتا چلے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا بھی نہیں۔
2۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ''ایک شخص تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند زمین سے گھسیٹتا ہوا جا رہا تھا کہ اسے زمین میں دھنسا دیا اور اب وہ قیامت تک یوں ہی زمین میں دھنستا چلا جائے گا‘‘۔
3۔صحیح بخاری میں حضرت حارثہ بن وھب الخزاعیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کہ میں تمہیں بہشتی آدمی کے متعلق نہ بتا دوں۔ وہ دیکھنے میں کمزور و ناتواں ہوتا ہے (لیکن اللہ کے یہاں اس کا مرتبہ یہ ہے کہ) اگر کسی بات پر اللہ کی قسم کھا لے تو اللہ اسے ضرور پوری کر دیتا ہے اور کیا میں تمہیں دوزخ والوں کے متعلق نہ بتا دوں‘ ہر بدخو، بھاری جسم والا اور تکبر کرنے والا۔
4۔صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے اور انہوں نے نبی کریمﷺ سے روایت کی، آپﷺ نے فرمایا: ''جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہو گا، وہ جنت میں داخل نہ ہو گا‘‘۔ ایک آدمی نے کہا: انسان چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کے جوتے اچھے ہوں۔ آپ نے فرمایا: ''اللہ خود جمیل (خوبصورت) ہے، وہ جمال کو پسند فرماتا ہے۔ تکبر، حق کو قبول نہ کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے‘‘۔
ان تمام آیات اور احادیث کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم سب کو تکبر سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنی زندگی کو عاجزی، انکساری اور خیر خواہی کے ساتھ بسر کرنا چاہیے تاکہ ہم دنیا وآخرت میں اللہ کی رضامندی کو حاصل کرنے والے بن جائیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو تکبر سے بچنے کی توفیق دے۔ آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں