ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کی تقریبات کا بہت اہتمام کے ساتھ انعقاد کیا جاتا ہے اور اس موقع پر بے جا تکلفات اور اسراف سے بھی کام لیاجاتا ہے۔ والدین اپنے بچوں کی خوشیوں کو پورا کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں، توانائیوں اور وسائل کو صرف کر دیتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجوددیکھنے میں آیا ہے کہ شادی کے بعد بہت سے گھرانوں میں اعتدال اور سکون کے بجائے ناچاقی اور لڑائی جھگڑے جنم لینا شروع ہو جاتے ہیں اور کئی مرتبہ نوبت طلاق تک جا پہنچتی ہے۔ بعض اوقات اس طرح کے معاملات بھی دیکھنے میں آتے ہیں کہ طلاق کے بعد بھی فریقین کی آپس میں رسہ کشی جاری رہتی ہے۔ ان تمام معاملات کا ٹھنڈے دل سے تجزیہ کرنا نہایت ضروری ہے تاکہ شادی کے بعدوالی زندگی کو پُرامن اور پُرسکون بنایا جا سکے۔ ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کے حوالے سے جن اُمور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ان کو کئی مرتبہ یکسر نظر انداز کر دیاجاتا ہے جس وجہ سے شادی کے بعد تنازعات جنم لینا شروع ہو جاتے ہیں۔ وہ بعض اہم اُمور جن پر توجہ دینے سے معاشرے میں امن وسکون اور اطمینان پیدا ہو سکتا ہے درج ذیل ہیں:
1۔ لڑکی کی رضا مندی: شادی بیاہ کے موقع پر لڑکی کی رضامندی کو خصوصی اہمیت دینی چاہیے۔ بہت سے لوگ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کا رشتہ زبردستی کر دیتے ہیں۔ لڑکیاں کئی مرتبہ دباؤ قبول کرنے کے بجائے بغاوت پر آمادہ وتیار ہو جاتی ہیں اور نوبت کورٹ میرج تک جا پہنچتی ہے۔ اس کے مد مقابل بعض لڑکیاں والدین کے دباؤ کے ساتھ سمجھوتا کر لیتی ہیں لیکن ذہنی طور پر شادی کے لیے آمادہ وتیار نہیں ہوتیں۔ جس کے نتیجے میں شادی کے بعد نئے مسائل جنم لینا شروع ہو جاتے ہیں۔ اسلام میں شادی کے موقع پر لڑکی کی رائے کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور اس رائے کو کسی بھی طور پر نظر انداز کرنا مناسب نہیں یہاں تک کہ اگر لڑکی کے والدین اس کی مرضی کے بغیر اس کا نکاح کر دیتے ہیں تو ایسی صورت میں لڑکی کو اپنا نکاح فسخ کروانے کا حق بھی حاصل ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ جعفرؓ کی اولاد میں سے ایک خاتون کو اس کا خطرہ ہوا کہ ان کا ولی (جن کے وہ زیر پرورش تھیں) ان کا نکاح کر دے گا۔ حالانکہ وہ اس نکاح کو ناپسند کرتی تھیں۔ چنانچہ انہوں نے قبیلہ انصار کے دو شیوخ عبدالرحمن اور مجمع کو‘ جو جاریہ کے بیٹے تھے‘ کہلا بھیجا، انہوں نے تسلی دی کہ کوئی خوف نہ کریں کیونکہ خنساء بنت خذامؓ کا نکاح ان کے والد نے ان کی ناپسندیدگی کے باوجود کر دیا تھا تو رسول اللہﷺ نے اس نکاح کو رد کر دیا تھا۔
2۔ ولی کی رضا مندی: کامیاب شادی کے لیے لڑکی کی رضامندی کے ساتھ ساتھ ولی کی رضا مندی بھی نہایت ضروری ہے۔ بہت سی لڑکیاں اپنے سرپرست یا ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیتی ہیں۔ عائلی زندگی کے نشیب وفراز کے دوران عورت کو اپنے ولی کی رضامندی اور تائید حاصل نہ ہونے کی وجہ سے سخت قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کئی موقعوں پر عورت کااضافی استحصال کیاجاتا ہے۔ کئی مرتبہ لڑکی حالات کے جبر کا تنہا مقابلہ کرتے کرتے سنگین قسم کے نفسیاتی اور سماجی مسائل کا شکار ہو جاتی ہے اور بہت سی لڑکیوں کا مستقبل بالکل تاریک ہو جاتا ہے۔ چنانچہ نکاح کے موقع ولی کی رضا مندی کو ہر صورت پیش نظر رکھنا چاہیے تاکہ نکاح کے بعد آنے والی زندگی کو بہتر انداز میں گزارا جا سکے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
سنن ابن ماجہ، سنن ابی داؤد، جامع ترمذی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے‘‘۔
3۔ دین کی بنیاد پر نکاح :ہرانسا ن اچھے شریک زندگی کا طلب گار ہوتا ہے اور اس حوالے سے شریک زندگی کے بہت سے اوصاف پر غوروخوض کیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ صرف حسن وجمال اور مال کو ترجیح دیتے ہیں اور دین اور اخلاق کا یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ حسن وجمال کی اہمیت اپنی جگہ پر ہے لیکن شادی کی کامیابی کے لیے دین اور اخلاق کوا ہمیت دیناانتہائی ضروری ہے۔ دین اور اخلاق کی بنیاد پر کی گئی شادیوں کے کامیاب رہنے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں اور شریعت اسلامیہ میں اس امر کی بہت زیادہ رغبت دلائی گئی ہے۔ اس حوالے سے دو اہم احادیث درج ذیل ہیں:
i۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:''عورت سے چار چیزوں؛ اس کے مال، اس کے حسب و نسب، اس کے حسن و جمال اور اس کے دین کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے... تم دین دار کے ساتھ نکاح کر کے کامیابی حاصل کرو‘‘۔
ii۔جامع ترمذی میں حضرت ابو حاتم المزنیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''تمہارے پاس جب کوئی ایسا شخص (نکاح کا پیغام لے کر) آئے، جس کی دین داری اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس سے نکاح کر دو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فساد برپا ہو گا۔ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ! اگر اس میں کچھ ہو؟ آپﷺ نے تین بار یہی فرمایا: ''جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص آئے جس کی دین داری اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس سے نکاح کر دو۔
4۔ شادی بیاہ کے تکلفات سے اجتناب: شادیوں کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ شادی بیاہ کے تکلفات بھی ہیں۔ بہت سے لوگ لڑکے والوں کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے اپنی بیٹی کو جہیز دیتے اور مہنگی تقریبات کا انعقاد تو کر لیتے ہیںلیکن ان تکلفات کی وجہ سے جس معاشی اور ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ شادی کے بعد آنے والی خوشیوں کو بے کیف کر دیتا ہے۔ اگر شادی کے موقع پر تکلفات سے اجتناب کیا جائے اور سادگی کے ساتھ نکاح کا اہتمام کیا جائے تو یقینا ایسی شادی میں خیر وبرکت پیدا ہو جاتی ہے اور لڑکی کے دل میںلڑکے اور اس کے گھر والوں کے بارے میں ــمحبت اور احترام کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیںجس کی وجہ سے شادی کے بعد آنے والی زندگی بہت ہی اچھے طریقے سے گزرتی ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے: مسند احمد میں حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ برکت والا نکاح وہ ہے جو محنت کے لحاظ سے آسان ہو۔
5۔ قناعت اور صبر:شادی کے بعد والی زندگی میں ایک دوسرے سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرنے کے بجائے اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا پر راضی رہنا چاہیے اور جو نعمتیں میسر ہوں ان پر شکر کرنا چاہیے۔ بہت سے لوگ ناشکری کی وجہ سے اپنی گھریلو زندگی کو انتشار کا شکار بنا لیتے ہیں۔ شوہر بیوی کے نقائص پر جبکہ بیوی قلتِ وسائل پر زیادہ توجہ دیتی ہے اور شوہر بیوی کی خدمات کو اور بیوی شوہر کی عنایات کو نظر انداز کر کے گھریلو زندگی کی ناخوشگواری میں اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ حدیث مبارکہ کے مطالعے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ناشکریٔ عورت کو ناپسند کیا گیا ہے اور اس سے کنارہ کشی کی رغبت دلائی گئی ہے۔
اس حوالے سے صحیح بخاری میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایک سبق آموزواقعہ مذکور ہے کہ انہوں نے حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی عدم موجودگی میں جب ان کی بیوی کو ناشکرا پایا تو اس سے علیحدگی اختیار کرنے کی تلقین کی اور جب دوبارہ آمد پر دوسری بیوی کو شکر گزار پایا تو اس سے تعلق برقرار رکھنے کی تلقین کی۔
6۔ ایثار اور خیر خواہی: گھریلو نظام کو بہتر بنانے کے لیے شوہر اور بیوی میں ایثار اور خیر خواہی کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ جن گھروں میں ایثار اور خیر خواہی سے کام لیا جاتا ہے ان گھروں میں پیار اور محبت کے امکانات بڑ ھ جاتے ہیں جبکہ خیر خواہی اور ایثار کی عدم موجودگی میں کھینچا تانی اور خودغرضی کو فروغ ملتا ہے اور ازدواجی زندگی بے چینی اورتنازعات کی وجہ سے ناکام ہو جاتی ہے۔ اس کے اثرات فقط شوہر اور بیوی پر ہی نہیں پڑتے بلکہ بچوں کی تربیت اور مستقبل پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں؛ چنانچہ ازدواجی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے شوہر اور بیوی کو ایثار اور خیرخواہی سے کام لینا چاہیے۔
اگر مندرجہ بالا نکات پر عمل کر لیا جائے تو یقینا ازدواجی زندگی پُرسکون اور مسرت سے لبریز ہو سکتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے گھروںمیں امن، سکون اور اطمینان پیدا کرے اور ہر شخص کو کامیاب گھریلو زندگی گزارنے کی توفیق دے۔ آمین !