اس وقت عالمِ اسلام کوبہت سی ابتلاؤں کا سامنا ہے۔ فلسطین میں مسلمان ظلم وستم اور جبر کوبرداشت کر رہے ہیں۔ اسی طرح کشمیر کا مسلمان بھی بے بسی اور بے کسی کے ایام گزار رہا ہے۔ برما (میانمار) میں مسلمانوں کی قتل وغارت گری اپنے پورے عروج پہ ہے اور ان کا زندہ رہنا محال ہو چکا ہے۔ ان تمام مناظر کو دیکھ کر انسان کے ذہن میں مختلف طرح کے سوالات اور خیالات اُبھرتے ہیں جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا میں مختلف طرح کے لوگ گزرے ہیں۔ بہت سے ایسے لوگ بھی دنیا میں آئے جنہوں نے زمین پر فساد پھیلایا، قتل وغارت گری کو عام کیا اور بداعتقادی کی حوصلہ افزائی کی۔ یہ لوگ صاحبِ اثرورسوخ ہونے کے باوجود تاریخ میں ذلت ورسوائی کی علامت بن گئے۔ فرعون، قارون، ہامان، شداد، نمرود اور ابولہب کا شمار اسی قسم کے لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی توانائیوں، صلاحیتوں، اقتدار اور طاقت کو لوگوں کے استحصال کے لیے استعمال کیا اور لوگوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور حق کی مخالفت کی۔ وقتی طور پر دنیا میں کر وفر کی زندگی گزار نے کے بعد یہ لوگ ہمیشہ کے لیے ناکامی اور نامرادی کی علامت بن گئے۔قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا ہر قاری ایسے لوگوں کے برے افعال کو پڑھتا اور ان کے انجام سے عبرت حاصل کرتا ہے۔ان کے مدمقابل دنیا میں بہت سے ایسے سعادت مند لوگ بھی گزرے ہیں جو دنیا میں رہتے ہوئے اپنے عظیم نظریات اور افکار پر پوری شدومد سے کاربند رہے اور دنیا کی زیب وزینت میں کھو جانے کے بجائے انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کے حصول کو اپنا مقصود اور مطلوب بنا لیا۔
انبیاء علیہم السلام کی جماعت اس اعتبار سے ایک منفرد اور عظمت والی جماعت ہے کہ انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا، اس حوالے سے آنے والی تمام تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید اور رسالت کے ابلاغ کے حق کو ادا کر دیا۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کی جماعت کے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے کرداروں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے توحید کی دعوت کو قبول کرنے کے بعد ہر قسم کے ظلم وستم کو سہنا گوارا کر لیا لیکن اس کے باوجود ایمان اورایقان کے راستے پر گامزن رہے۔ جب ہم قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں تو بہت سے سعادت مند لوگوں کی حالات زندگی کو پڑھنے کا موقع ملتا ہے، نتیجتاً ہمارے اندر بھی رغبت پیدا ہوتی ہے کہ ہم بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کے ساتھ اسی اندازمیں وابستگی اختیار کریں‘ جس طرح ان عظیم ہستیوں نے اختیار کی۔ وہ عظیم شخصیات اور گرو ہ ‘جن کے تذکرے کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے کلام کاحصہ بنا دیا ان میں حضرت آسیہ کا نام سرفہرست ہے۔ آپ فرعون کی بیوی تھیں جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پیغامِ توحید کا ابلاغ کیا تووہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لے آئیں۔ فرعون نے آپ کو ظلم اور ابتلاؤں کا نشانہ بنایا لیکن آپ ایمان سے دستبردار ہونے پر آمادہ نہ ہوئیں نتیجتاً آپ کو سولی پر لٹکانے کاحکم دیا گیا۔ ایسے عالم میں سیدہ آسیہ نے جو دعا مانگی اس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ تحریم کی آیت نمبر11 میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے: ''اور اللہ نے مثال بیان کی (اُن لوگوں) کے لیے جو ایمان لائے ‘فرعون کی بیوی کی، جب اس نے کہا (اے میرے) رب! بنا میرے لیے اپنے پاس ایک گھر جنت میں اور نجات دے مجھے فرعون اور اس کے عمل سے اور تُو نجات دے مجھے ظالم لوگوں سے‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرعون کے عہد کے بعض ایسے جادوگروں کا ذکر بھی کیا جو موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کرنے اور فرعون کی قربت کے حصول کے لیے فرعون کے پاس آئے تھے لیکن موسیٰ علیہ السلام کے اعجاز کو دیکھ کر حلقہ بگوشِ اسلام ہو گئے۔ اس کے بعد انہوں نے ایمان اور اسلام کے راستے پر بھرپور استقامت کا مظاہرہ کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس گروہ کا ذکر قرآن مجید کے متعدد مقامات پر کیا ہے۔ سورہ اعراف کی آیت نمبر 104سے 126میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''اور موسیٰ نے کہا: اے فرعون! بے شک میں رسول ہوں تمام جہانوں کے رب کی طرف سے۔ (میں) قائم ہوں اس پر کہ نہیں میں کہتا اللہ پر مگر حق، یقینا میں لایا ہوں تمہارے پاس واضح دلیل تمہارے رب کی طرف سے۔ چنانچہ تو بھیج میرے ساتھ بنی اسرائیل کو۔ اس نے کہا: اگر تو لایا ہے کوئی نشانی تو لے آ اُسے، اگر تو سچوں میں سے ہے۔ تو ڈال دیا اُس نے اپنی لاٹھی کو تو اچانک وہ واضح اژدھا تھی۔ اور نکالا اپنا ہاتھ تو اچانک وہ سفید تھا دیکھنے والوں کے لیے۔ کہا سرداروں نے فرعون کی قوم میں سے‘ بے شک یہ یقینا جادوگر ہے بڑا دانا۔ وہ چاہتا ہے کہ نکال دے تمہیں تمہاری زمین سے، تو کیا تم حکم (مشورہ) دیتے ہو۔ وہ کہنے لگے: مہلت دے دو اُسے اور اُس کے بھائی کو اور تو بھیج شہروں میں اکٹھے کرنے والے۔ وہ لے آئیں تیرے پاس ہر دانا جادوگر کو۔ اور جادوگر فرعون کے پاس آئے۔ وہ کہنے لگے: بے شک ہمارے لیے یقینا کوئی انعام ہو گا اگر ہم ہی غالب ہوئے۔ اس نے کہا: ہاں اور یقینا تم ضرور مقرب لوگوں میں سے ہو گے۔ اُنہوں نے کہا: اے موسیٰ ! یا یہ کہ تو ڈالے اور یا یہ کہ ہوں ہم (پہلے) ڈالنے والے (ہوں)۔ اس نے کہا: تم ڈالو، پھر جب اُنہوں نے ڈال دیں (لاٹھیاں) (تو) اُنہوں نے جادو کر دیا لوگوں کی آنکھوں پر اور ڈرا دیا اُنہیں اور لائے بہت بڑا جادو۔ اور ہم نے وحی کی موسیٰ کی طرف سے یہ کہ (تو) بھی ڈال دے اپنی لاٹھی تو اچانک وہ نگلنے لگی جو وہ جھوٹ موٹ بنا رہے تھے۔ پس حق ثابت ہو گیا اور باطل ہوگیا جو کچھ وہ کر رہے تھے۔ تو وہ مغلوب ہو گئے وہاں اور ذلیل ہو کرلوٹے۔ اور گرا دیے گئے جادو گر سجدے کی حالت میں۔ اُنہوں نے کہا: ہم ایمان لائے تمام جہانوں کے رب پر۔ موسیٰ اور ہارون کے رب پر۔ کہا فرعون نے(کیا) تم ایمان لے آئے ہو اس پر (اس سے) پہلے کہ میں اجازت دیتا تمہیں، بے شک یہ یقینا ایک چال ہے (جوکہ) تم نے چلی ہے شہر میں تاکہ تم نکال دو اس (شہر) سے اُس کے رہنے والوں کو، عنقریب تم جان لو گے۔ ضرور میں بری طرح کاٹ دوں گا تمہارے ہاتھ اور تمہارے پاؤں مخالف سمت سے۔ پھر ضرور میں سولی پر چڑھاؤں گا تم سب کو۔ اُنہوں نے کہا: یقینا ہم اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ اور نہیں تو بدلہ لے رہا ہم سے مگر (صرف اس کا) کہ ہم ایمان لائے ہیں اپنے رب کی آیات پر، جب وہ آئی ہیں ہمارے پاس۔ اے ہمارے رب! تو ڈال ہم پر صبر اور فوت کر ہمیں اس حال میں کہ ہم فرمانبردار ہوں ‘‘۔
اسی طرح سورہ بروج میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اصحاب الاخدود کا ذکر کیا کہ جن کو ایمان اور اسلام کی وجہ سے آگ میں جلا کر خاکستر کر دیا گیا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُن کا ذکر سورہ بروج کی آیت نمبر 4 تا8 میں کچھ اس انداز میں فرمایا ہے: ''مارے گئے خندقوں والے (جو) آگ تھیں ایندھن والی۔ جب وہ اُس پر بیٹھے تھے اور اس پر جو وہ کر رہے تھے مومنوں کے ساتھ مشاہدہ کرنے والے تھے۔ اور نہیں انتقام لیا انہوں نے ان سے مگر (اس بات کا) کہ وہ ایمان لائے اللہ پر (جو) بڑا زبردست نہایت قابل تعریف ہے‘‘۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ یٰسین میں ایک شہید شخص کا ذکر کیا کہ جس نے اپنی بستی والوں کو اللہ کے رسولوں پر ایمان لانے کی تلقین کی تھی اور اس حوالے سے وہ ہر طرح کی قربانی دینے پر آمادہ ہو گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو جنتوں میں داخل کر دیا اور اس کے ذکر کو ہمیشہ کے لیے امر فرما دیا۔ اس کے انجام کے حوالے سے سورہ یٰسین کی آیت نمبر 26 تا 27 میں ارشاد ہوا: ''کہا گیا تو داخل ہو جا جنت میں۔ اس نے کہا، اے کاش! میری قوم (کے لوگ) جان لیتے اس (بات) کو کہ بخش دیا مجھے میرے رب نے اور اس نے بنایا مجھے معزز لوگوں میں سے‘‘ ۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ مومن میں کا ذکر کیا ہے کہ جب فرعون نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو شہید کرنے کا ارادہ کیا تو دربارِ فرعون میں ایک مومن کھڑا ہو گیا اور اس نے برملا طور پر فرعون کے سامنے یہ بات کہی کہ کیا آپ ایسے شخص کو شہید کرنا چاہتے ہیں کہ جس کا یہ کہنا ہے کہ میرا رب اللہ ہے ‘ اس نے اس موقع پر ایک بلیغ خطاب کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کو اس کاخطاب اتنا پسند آیا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو اپنے کلام کا حصہ بنا دیا۔
قرآن مجید میں مذکور ان تمام شخصیات اور گروہوں کے واقعات سے ہمیں اس بات کا سبق ملتا ہے کہ وہ سعادت مند لوگ جنہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو دنیا کی ابتلاؤں سے گزارنے کے بعد اخروی سربلندی سے ہمکنار فرما دیا۔ چنانچہ وہ مسلمان کہ جنہیں دنیا کے ـمختلف مقامات پر ابتلاؤں اور تکالیف کا نشانہ بنایا جا رہاہے اگر وہ ان تمام مصائب پر صبر کرتے اور دین پر استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو دنیا وآخرت میں سربلند فرما دے گا اور ظالموں کے مقدر میں دنیا اور آخرت کی ذلت ورسوائی کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی مدد فرمائے اور ہم سب کو دین پر استقامت سے چلنے کی توفیق دے۔ آمین !