شیخ عاطف ایک کامیاب موٹیویشنل سپیکر ہیں ۔کراچی اور اس کے گردونواح میں آپ نے بہت سے نوجوانوں کو متاثر کیا اور ان کو کچھ کر گزرنے کی تحریک دی ہے۔ آپ کے الفاظ کا چناؤ بہت خوبصورت ہے، گفتگو میں تسلسل ہے،نیز تقریر میں مشاہدات و تجربات کے ساتھ ساتھ علم وحکمت والی بہت سی باتیں پائی جاتی ہیں۔ آپ کی تقاریر کو سن کے مایوس اور مضحمل لوگوں میں نیا حوصلہ اور توانائی پیدا ہوتی ہے اور لوگ جمود کو توڑ کر حرکت کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ اس سے قبل آپ پنجاب اور اس کے گردونواح میں کم کم تشریف لاتے رہے اور آپ کی مصروفیات کا دائرہ کراچی اور اس کے گردونواح کے علاقے رہے۔ گزشتہ دنوں انہوں نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ وہ لاہور میں بھی اپنے ادارے کی ایک شاخ کھولیں گے اور یہاں پر نوجوانوں کے لیے مختلف کورسز کا اجرا کریں گے تاکہ نوجوانوں کی اچھی تعلیم وتربیت کااہتمام کیا جا سکے۔ اس حوالے سے انہوں نے مجھ سے بھی رابطہ کیا اور ادارے کی افتتاحی تقریب کے موقع پر اپنے خیالات کو نوجوانوں کے سامنے رکھنے کی دعوت دی ۔ان کی محبت اور خلوص بھرے جذبات کی وجہ سے میں نے اس پروگرام میں شرکت کی ہامی بھر لی۔
13 مارچ کی رات 8 بجے کے قریب میں اس ادارے کی افتتاحی تقریب میں پہنچا تو منظم اور متحرک نوجوانوں کو استقبال کے لیے ادارے کے مرکزی دروازے پر موجود تھے۔ان نوجوانوں کے ہمراہ میں ادارے کی عمارت میں داخل ہوا۔ ادارے میں نوجوانوں کے اکٹھ کے لیے ایک میٹنگ ہال قائم کیا گیا ہے جس میں نوجوانوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔ یہ نوجوان معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کی اُمنگ لیے ہوئے اس جگہ پر پہنچے تھے۔ تقریب میں موجود نوجوانوں میں جوش و جذبہ، اُمیداور توانائی کو دیکھ کر میرے دل میں مسرت کی ایک لہر دوڑ گئی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ بحیثیت قوم ہمیں جن چیلنجز کا سامنا ہے اُن سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ہمیں باصلاحیت، باہمت اور باکردار نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی، مادیت پرستی، اباحیت پسندی اور لادینیت کے رجحانات کو دیکھ کر سلیم الطبع انسان اضطراب اور بے چینی کا شکار ہو جاتا ہے لیکن جب باہمت، باکردار اور سلجھے ہوئے نوجوانوں کو دیکھتا ہے تو انسان کی بے قراری اور پریشانی میں کمی واقع ہوتی ہے اور انسان کو نیا حوصلہ اور نئی توانائی ملتی ہے۔
شیخ عاطف نے اس موقع پر نوجوانوں کے سامنے اپنے جذبات کو نہایت احسن انداز میں رکھا اور ان کو یہ بات سمجھائی کہ زندگی نشیب وفرازسے عبارت ہے اور کامیاب شخص بہت سی مشکلات، پریشانیوں اور مصائب سے دوچار ہونے کے بعد ہی اپنے مقام کو حاصل کرتا ہے۔ تکلیف اور پریشانیوں سے گزرے بغیر کوئی بھی انسان اپنی منزلِ مقصودتک نہیں پہنچ سکتا۔ انسان کو زندگی میں آنے والی تکالیف، مشکلات اور پریشانیوں سے گھبرانے کے بجائے جواں مردی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ مایوسی اور دل شکستگی انسان کو منزل تک پہنچنے سے روک دیتی ہے ۔ انہوں نے اس موقع پر نوجوانوں میں جدوجہد اور عمل کے جذبات کو تحریک دینے کے لیے بہت سی خوبصورت باتیں کہیں اور اُن کو یہ بات سمجھائی کہ زندگی کے ہر شعبے میں انسان کو کامیابی حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ کئی مرتبہ وہ کسی محاذ پر کامیاب ہو جاتا ہے تو کئی مرتبہ اس کو ناکامی کا بھی سامناکرنا پڑتا ہے لیکن انسان کو کامیابیوں اور ناکامیوں سے بے نیاز ہو کر میدانِ عمل میں ڈٹے رہنا چاہیے اس لیے کہ انسان کی عظمت اور رفعت کا تعلق مادی کامیابیوں سے کہیں بڑھ کر اس کی جدوجہد اور خلوصِ نیت سے ہے۔ جو لوگ خلوصِ نیت سے اپنے اہداف کے حصول کے لیے کوشاں رہتے ہیں جلد یابدیر وہ معاشرے میں ایک مثبت کردار ادا کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ میں نے بھی اس موقع پر نوجوانوں کے سامنے اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کیا جنہیں میں کچھ ترمیم اور اضافے کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
''نوجوان کسی بھی قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ ان کومثبت راستے پر چلانے کے لیے معاشرے میں موجود بزرگوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ نوجوانوں کی باتوں کو غیر اہم سمجھنے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور اُن کی توانائیوں کومنفی کے بجائے مثبت سمت استعمال کرنے کا لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے۔ والدین، اساتذہ، علماء اور دانشوروں کو اس وقت پاکستانی نوجوانوں کو کم ازکم تین باتیں سمجھانے کی ضرورت ہے:
1۔ دین سے محبت: پاکستانی نوجوانواں کو دین سے محبت ہونی چاہیے اور انہیں حتی المقدور کتاب وسنت پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دین سے دوری انسان کے لیے نہایت خطرناک ہے اور یہ انسان کو فکری طورپر گمراہیوں کی دلدل میں دھکیل دیتی ہے۔ بہت سے نوجوان دین سے نسبت کمزور ہونے کی وجہ سے بے راہ روی اور بدعملی کے راستوں پر چل نکلتے ہیں اور اپنی توانائیوں اور استعداد کو ضائع کربیٹھتے ہیں۔میرا مشاہدہ ہے کہ معاشرے کے بہت سے نوجوان بے راہ روی کا شکار ہو کر مالی اور اخلاقی کرپشن کا اس لیے شکار ہوئے کہ وہ کتاب وسنت اور عملِ صالح سے دور تھے۔ دین کی محبت، اللہ تعالیٰ کی خشیت، پیغمبرآخر الزماںﷺ سے والہانہ وابستگی یقینا انسان کو زندگی کے اُتار‘ چڑھاؤ کے دوران بے راہ روی اور بدعملی سے بچانے کا بڑا سبب بن جاتی ہے۔ اس لیے ہمارے بزرگوں اور سرپرستوں کو بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کااہتمام ضرور کرنا چاہیے۔
2۔ وطن کی خدمت: نوجوانوں کو درست راستے پر چلانے کے لیے ان کو وطن کی خدمت اور محبت کا بھی سبق دینا چاہیے۔ جن لوگوں میں وطن کی خدمت کا جذبہ ہوتا ہے وہ اپنے وطن کے روشن مستقبل کے لیے اپنی توانائیوں کو بھرپور انداز میں صرف کرتے ہیں اور ملک کی تعمیر وترقی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ عصرِ حاضر کا بہت بڑا المیہ ہے کہ ہمارے وطن کے بہت سے نوجوان اپنے مادی مستقبل کو سنوارنے کے لیے وطن سے بنیادی فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم اور اچھی ملازمت کے حصول کے لیے مغربی ممالک میں چلے جاتے ہیں۔ ان ممالک میں چلے جانے کے بعد وہ برس ہابرس تک ان معاشروں میں رہنے کی وجہ سے مغربی سماج میں کچھ اس انداز میں جذب ہو جاتے ہیں کہ وطن کی خدمت اور محبت کے جذبات اور درد سے محروم ہوجاتے ہیں اور اپنی تمام ترتوانائیوں اور صلاحیتوں کو دوسری اقوام کی تعمیر وترقی کے لیے صرف کر دیتے ہیں۔ بیرون ملک امیگریشن اور قومیت کے حصول کے لیے کی جانے والی لمبی جدوجہد کے نتیجے میں جب بیرونِ ملک سکونت کے امکانات نظر آتے ہیں تو نوجوان اپنے وطن کو بھلا دیتے ہیں اور اس بات کو ذہن سے نکال دیتے ہیں کہ اُن کی شخصیت کی ابتدائی تعمیر میں اسی وطن کے تعلیمی اداروں اور اساتذہ نے نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ ذہین طلبہ یقینا وطن کی تعمیر وترقی میں نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ چنانچہ اعلیٰ تعلیم اور فنی مہارت حاصل کرنے کے بعد لوگوں کو ترجیحی بنیاد پر اپنے وطن کی خدمت کا جذبہ لے کر اپنے ملک ہی کو اپنی توانائیوں کا مرکز اور محور بنانا چاہیے۔
3۔ آئیڈیل کا تعین: ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم تاریخِ اسلام سے ناواقفیت کی وجہ سے دیگر اقوام کے مشاہیر کو اپنے لیے مثال بنا لیتے ہیں اور اپنے لیے ہیرو کا درست تعین کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ نوجوانوں کو تاریخ اسلام سے سبق سیکھنا چاہیے اور اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ترسیلِ علم کے حوالے سے نوجوان صحابہ کرامؓ نے نمایاں کردار ادا کیا۔ حضرت عائشہؓ، حضرت عبداللہؓ بن عمر، حضرت عبداللہؓ بن عباس کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جنہوں نے فہم قرآن اور فہمِ حدیث وسنت کے حوالے سے اُمت کی بہترین انداز میں رہنمائی کی۔ سیدنا حسنین کریمینؓ، حضرت اسامہؓ بن زید اور حضرت عبداللہؓ بن زبیر کی سیرت وکردار میں ہمارے نوجوانوں کے لیے خوبصورت مثالیں ہیں۔ اسی طرح سیدہ فاطمۃ الزہرہ ؓہماری خواتین کے لیے ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ دنیا بھر میں اسلامی سلطنت کے پھیلاؤ کے لیے مسلمانوں کے نوجوان سپہ سالاروں نے نمایاں کردار ادا کیا اور پوری دنیا میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے کلمے کو بلند کیا۔ محمد ابن قاسمؒ کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جن کی پیش قدمی کی وجہ سے برصغیر میں مسلمان لشکر داخل ہوئے اور اسلام کو اس علاقے میں متعارف کروانے کے لیے آپ نے نمایاں کردا ر ادا کیا۔ اگرہم درست آئیڈیل کا تعین کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو یقینا ہماری سمت درست ہو سکتی ہے۔
ان نکات پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی مدنظر رہنی چاہیے کہ آج کے نوجوان کوزندگی کے نشیب وفرار کا مقابلہ کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی بھی ضرورت ہے۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ لوگوں کی حوصلہ افزائی اور ان میں عمل کی رغبت پیدا کرنے والے بہت سے ادارے دینی اقدار اور تعلیمات کو فراموش کر دیتے ہیں جبکہ اس کے برعکس دینی اداروں میں تعلیم وتربیت کا اہتمام تو کیا جاتا ہے لیکن نوجوانوں کو معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کے لیے انگیخت کرنے پر کم توجہ دی جاتی ہے۔ عصرِ حاضر میں ہمارے علما اور دینی اداروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جہاں پر دینی تعلیم وتربیت کا اہتمام کرتے ہیں ‘وہیں پر انہیں معاشرے کی خدمت اور قوم کی تعمیر وترقی کے لیے بھی مثبت انداز میں نوجوانوں اور طلبہ کی رہنمائی کرنی چاہیے‘‘۔
اگر مذکورہ بالا نکات کو مدنظر رکھا جائے تو ہمارے نوجوان آنے والے کل میں قوم کی احسن انداز میں خدمت کر سکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے نوجوانوں کو معاشرے کی تعمیر وترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !