چند روز قبل ضلع قصور کے دیرینہ ساتھی عظیم بھٹی نے مجھ سے رابطہ کیا کہ 15 مارچ کو ضلع قصور کے دوست احباب نورپور میں ختم نبوتﷺ کانفرنس کا انعقاد کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے ختم نبوتﷺ کے عنوان کی اہمیت کے پیش نظر فوراً اس پروگرام میں شرکت کرنے کی ہامی بھر لی۔ 15 مارچ کو لاہور سے عصر کی نماز کے بعد میں نورپور کے لیے روانہ ہوا۔ راستے میں نمازِ مغرب ادا کی اور نورپور گاؤں کی طرف روانہ ہو گیا۔ نورپور نہر پرتمام مسالک اور دینی جماعتوں کے کارکنان بڑی تعداد میں استقبال کے لیے موجود تھے۔ ایک منظم اور پُرجوش کارواں کے ہمراہ میں جب نورپور کے ایک کھلے میدان میں قائم کی گئی جلسہ گاہ میں داخل ہوا تو وہاں پر مرکزی جمعیت اہلحدیث، قرآ ن وسنہ موومنٹ، شبانِ ختم نبوتﷺ، تحریک لبیک پاکستان اورملی مسلم لیگ کے رہنما اور کارکنان کثیر تعداد میں نظر آئے۔ پنڈال میں نوجوانوں کے ساتھ ساتھ بزرگوں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ میری تقریر سے قبل ختم نبوتﷺ کے عنوان پر ایک خوبصورت نظم پڑھی گئی اوراس کے بعد مجھے خطاب کی دعوت دی گئی۔ اس موقع پر میں نے سامعین کے سامنے جن گزارشات کو رکھا ان کو قارئین کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں:
''اللہ تبارک وتعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے‘ اس نے اس زمین پر انسانوں کی طبعی اور مادی ضروریات کوپورا کرنے کا احسن انداز میں بندوبست فرمایا ہے؛ چنانچہ مختلف قسم کی اجناس، سبزیاں، پھل اور گوشت کی مختلف اقسام انسان کی بھوک کو مٹانے کے لیے پیدا کی گئیں۔ اسی طرح انسان مختلف طرح کے مشروبات پیاس بجھانے اور لذت کے حصول کے لیے پیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تن کو ڈھانپنے اور شخصیت کو مزین کرنے کے لیے انواع واقسام کے لباس بنانے کا اہتمام بھی فرما دیا۔ اللہ نے زندگی میں سکون کے حصول کے لیے ہماری بیویوں اور اولادوں کو پیداکیااور ہمارے گھروں کو ہمارے لیے قرار گاہ بنا دیا۔حسِ جمالیات کی تسکین کے لیے اللہ نے خوبصورت قدرتی مناظر اور قسم ہا قسم کے رنگوں کو پیدا کیا اور ان تمام باتوں سے بڑھ کر یہ کہ روحانی تشنگی کو دور کرنے کے لیے آسمان سے وحی کا نزول فرمایا اور مختلف ادوار میں انبیاء علیہم السلام کو انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا۔
اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء کرام میں سے بعض ہستیوں کو رسالت کے منصب پر فائز فرمایا۔اللہ نے اپنے برگزیدہ نبیوں اور رسولوں سے کلام فرمایاجس کی مختلف صورتیں تھیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 51میں ارشا د فرماتے ہیں: ''اور کسی بشر کے لیے (ممکن) نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی (الہام) کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے یا (یہ کہ) وہ کوئی رسول (فرشتہ ) بھیجے تو وہ وحی پہنچاتا ہے اس کے حکم سے جو وہ (اللہ ) چاہتا ہے ‘‘۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کے ذریعے بنی نوع انسان کی ہدایت کا خوب بندوبست فرمایا۔ یہ انبیاء علیہم السلام مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں میں اپنی اپنی اقوام کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی قوم، حضرت ہود علیہ السلام کو قوم عاد، حضرت صالح علیہ السلام کو قوم ثمود، حضرت لوط علیہ السلام کو قوم سدوم اور حضرت شعیب علیہ السلام کو قوم مدین کی طرف مبعوث فرمایا گیا۔ اسی طرح حضرت موسیٰ، حضرت ہارون، حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت زکریا، حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام جیسی جلیل القدر ہستیاں بنی اسرائیل کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی رہیں۔ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہﷺ سے قبل جتنے بھی انبیاء آئے‘ ان کا پیغام مخصوص علاقے اور مخصوص وقت کے لیے تھا۔ ایک نبی کے بعد دوسرا نبی کائنات میں جلوہ گر ہوتا رہا، اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کاابلاغ کرتا رہا اور اس کے پیغام کو بنی نوع انسان تک پہنچاتا رہا یہاں تک کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی آخر الزماں حضرت محمد رسول اللہﷺ کو مبعوث فرما دیا۔ آپﷺ کی بعثت کسی مخصوص علاقے یا مخصوص وقت کے لیے نہیں تھی بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ اعراف کی آیت نمبر 158میں اس امر کا اعلان فرما دیا : ''کہہ دیجئے اے لوگو! بے شک میں اللہ کا رسول ہوں تم سب کی طرف‘‘۔ اسی طرح سورہ سبا کی آیت نمبر 28میں اس امر کو واضح فرما دیا : ''اور نہیں ہم نے بھیجا آپ کو مگر تمام لوگوں کے لیے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا (بنا کر)‘‘۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کی حیاتِ مبارکہ ہی میں دین کو مکمل فرما دیااور سورہ مائدہ کی آیت نمبر 3میں ارشاد فرمایا: ''آج(کے دن) میں نے مکمل کر دیا ہے تمہارے لیے تمہارا دین اور میں نے پوری کردی ہے تم پر اپنی نعمت اور میں نے پسند کیا ہے تمہارے لیے اسلام کو بطورِ دین ‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسلام کو تمام ادیانِ عالم میں سے واحد منتخب دین کے طور پر پسند فرمایا اور غیر اسلام کو بطورِ دین اختیار کرنے والوں کو ناکام اور نامراد ٹھہرانے کی خبر بھی کلامِ حمید میں دے دی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 85میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو تلاش کرے اسلام کے سوا (کوئی اور) دین تو ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اس سے اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والے لوگوں میں سے ہو گا‘‘۔ جہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے دین اسلام کو واحد دین کے طور پر پسند فرمایا‘ وہیں پر نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس پر نبوت اور رسالت کو بھی تمام فرما دیا اور سورہ احزاب کی آیت نمبر40 میں اس امر کا اعلان فرما دیا: ''نہیں ہیں محمدﷺ باپ تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے، لیکن (وہ) اللہ کے رسول اور خاتم النبیین (آخری نبی) ہیں‘‘۔ قرآن مجید میں اس واضح ارشاد کے ساتھ ساتھ احادیث مبارکہ میں بھی عقیدۂ ختم نبوتﷺ کے حوالے سے بہت ہی احسن انداز میں وضاحت کی گئی ہے۔
اس حوالے سے بعض اہم احادیث درج ذیل ہیں: صحیح بخاری، صحیح مسلم، مسند احمد بن حنبل اور سنن الکبریٰ بیہقی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: میری اور سابق نبیوں کی مثال ایک شخص کی ہے‘جس نے ایک خوب صورت گھر بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھو ڑ دی۔ لوگ اس گھرکو دیکھ کراس کی خوبصورتی پر تعجب کرتے ہیں‘ مگر کہتے ہیں کہ کیا خوب ہو اگر اینٹ اپنی جگہ پر لگا دی جائے‘ پس میں وہ اینٹ ہوں اور میں آخری نبی ہوں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی‘ جب تک تیس بڑے جھوٹے (کذاب)نہیں آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہوگاکو وہ اللہ کا رسول ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب جنگ تبوک کے لیے نکلے تو آپﷺنے حضرت علیؓ کو مدینہ میں اپنانائب مقررکیا۔ حضرت علی ؓ نے عرض کی کہ کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں کے پاس چھوڑکرجانا چاہتے ہیں تو رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ اے علیؓ! کیا آپ اس بات پر خوش نہیں کہ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہو جو موسیٰ ؑکو ہارون ؑ سے ہے‘ مگر میرے بعدکوئی نبی نہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:بنی اسرائیل کے لوگوں پر انبیاء کرام حکومت کرتے رہے اور ان کی رہنمائی بھی کرتے رہے۔ جب ایک نبی کا انتقال ہوجاتا تو دوسرا نبی ان کی جگہ لے لیتا۔ میرے بعدکوئی نبی تو نہیں ہوگا‘تاہم خلفا ہوں گے اورتعداد میں بہت ہوں گے۔ سنن ترمذی میں حدیث ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد تیس بڑے جھوٹے (کذاب) آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہوگا کہ وہ نبی ہے‘ جبکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
عقیدہ ختم نبوتﷺ کے حوالے سے ایک اہم نکتے کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اُمت مسلمہ کا قرآنِ مجید اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ عقیدہ ہے کہ قربِ قیامت حضرت عیسیٰ علیہ السلام دمشق کی جامع مسجد کے شرقی مینار پر نازل ہوں گے۔ منکرین ختم نبوتﷺاس عقیدے پر اعتراض کرکے اُمت مسلمہ کے ذہن میں یہ شک پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے تو عقیدہ ختم نبوتﷺ کی اہمیت کیا ہے ؟ قرآن وسنت کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت نبی کریمﷺ سے پہلے ملی تھی ‘ چنانچہ آپﷺ سے پہلے کسی نبی کی دوبارہ آمد سے عقیدہ ختم نبوتﷺ کسی بھی اعتبار سے مجروح نہیں ہوتا۔ عقیدہ ختم نبوتﷺ اصل میں اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ حضورﷺ کے بعد کسی بھی شخص کو نبوت اور رسالت کا منصب نہیں مل سکتا۔ کتاب وسنت کے ساتھ ساتھ عقیدہ ختم نبوتﷺ اجماعِ اُمت سے بھی ثابت ہے اور اُمت کے مکاتبِ فکر کا اس بات پر اجماع ہے کہ نبی کریمﷺ کے بعد جو شخص بھی دعویٰ نبوت کرتا ہے وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے اور اس کی جھوٹی نبوت کو ماننے والے لوگ بھی دائرۂ اسلام سے خارج ہیں۔ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے برصغیر کے تمام مکاتبِ فکر کے علماء نے لمبی جدوجہد کی‘ یہاں تک کہ 1974ء میں ختم نبوت کے منکروں کو دائرۂ اسلام سے قانونی طور پر خارج قرار دے دیا گیا اور اب اس حوالے سے شرعی اور قانونی اعتبار سے کوئی الجھاؤ نہیں ہے‘‘۔
کانفرنس کے شرکاء نے گفتگو کو بڑی توجہ سے سنا اور کانفرنس کے اختتام پر تمام منتظمین اور دینی جماعتوں کے کارکنان نے پُرجوش انداز میں ملاقات کی اور بڑی محبت کے ساتھ الوداع کیا۔ یوں نورپور میں منعقد ہونے والی یہ کانفرنس بہت سی خوشگوار یادوں کو اپنے جلو میں لیے ہوئے اختتام پذیر ہو گئی۔