والدین کی شفقت انسانی زندگی کا بہت بڑا اثاثہ ہے ۔ والدین انسان کی تربیت، نشوونمااور کردار سازی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔اللہ کے فضل سے والدین کی توجہ اور شفقت انسان کی پوری زندگی کو سنوار دیتی ہے اور انسان اُن کی توجہ، محبت اور شفقت کے مثبت نتائج کو زندگی کے بہت سے مواقع پر واضح طور پر محسوس کر سکتا ہے۔ بعض والدین علم وعمل کے اعتبار سے ممتاز ہوتے ہیں اور وہ اپنی اولادکی تعلیم وتربیت میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ والدین کی اس محبت، شفقت،پرورش اور احسانات کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجیدکے کئی مقامات پر والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے۔ خصوصاً سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کے حوالے سے بڑی خوبصورت نصیحتیں کی ہیں۔سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 23 تا 24میں ارشاد ہوا: ''اور فیصلہ کر دیا آپ کے رب نے کہ نہ تم عبادت کرو مگر صرف اسی کی اور والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا (حکم دیا) اگر وہ پہنچ جائیں تیرے پاس بڑھاپے کو‘ ان دونوں میں سے ایک یا دونوں‘ تو مت کہہ ان دونوں سے اُف بھی اور مت ڈانٹ ان دونوں کو اور کہہ ان دونوں سے نرم بات۔ اور جھکا دے ان دونوں کے لیے عاجزی کا بازو رحمدلی سے اور کہہ (اے میرے) رب! رحم فرما ان دونوں پر جس طرح ان دونوں نے پالا مجھے بچپن میں‘‘۔
ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو اپنے والدین کے ساتھ بہترین سلوک کرنا چاہیے، ان کے احسانات کو یاد رکھنا چاہیے اور ان کے ساتھ ادب واحترام والا معاملہ کرنا چاہیے۔ زندگی کے نشیب وفراز کے دوران ان کے ساتھ کبھی بھی سختی والا معاملہ نہیں کرنا چاہیے اور بڑھاپے میں ان کے لیے دُعائے خیر کرنی چاہیے۔ جہاں پر والدین انسان کی تعلیم وتربیت میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں وہیں پر اپنی اولاد کے لیے مختلف مواقع پر دعائے خیر بھی کرتے ہیں۔
میں بھی جب اپنی زندگی پر نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے بھی اپنے والد مرحوم کی بہت سی نیکیاں اور ان کے احسانات یاد آتے ہیں کہ وہ کس طرح ہماری تعلیم وتربیت کے لیے بہترین کردار ادا کرتے رہے۔ اگرچہ وہ اپنے وقت کے نمایاں عالم دین، معروف خطیب اور بڑے رہنما تھے اور ان کا بہت زیادہ وقت عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے اور اپنی لائبریری میں تحقیق اور مطالعے میں صرف ہوتا تھالیکن اس کے باوجود وہ اولاد کی تربیت کے لیے بھی خصوصیت سے اہتمام کیا کرتے تھے۔ انہوں نے جہاں پر ہمیں اچھے تعلیم اداروں داخل کروایا وہیں پر وہ خود بھی ہماری تعلیم وتربیت کے بارے میں دلچسپی لیتے رہے۔ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ خصوصیت سے دینی تربیت کے حوالے سے بھی توجہ دیتے رہے اور نمازوں کی ادائیگی کے بارے میں تسلسل کے ساتھ استفسار کیا کرتے تھے۔ تمام بہن بھائی اس بات سے آگاہ تھے کہ اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوئی تو وہ ناراضی کا اظہار کریں گے، چنانچہ ہمیں نماز، روزہ اور دیگر عبادات کی طرف راغب کرنے اور ان کا اہتمام کرنے میں انہوں نے نمایاں کردار ادا کیا۔ والدِ محترم چینیانوالی مسجدمیں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ‘ میں برس ہا برس تک ان کے ساتھ جمعہ کے خطبے میں شریک ہوتا رہا اور ہر جمعے علم، حکمت، آگاہی، نئی معلومات اور نئے جذبات واحساسات کو لے کر واپس آتا رہا۔ اسی طرح کئی برس تک میں نے ان کی اقتداء میں نمازِ تراویح بھی ادا کی اور نمازِ تروایح کے بعد بیان کیے جانے والے خلاصے سے بھی علم وحکمت کے موتیوں کو چنتا رہا۔ بہتر دینی تربیت ہی کی غرض سے وہ مجھے اس وقت اپنے ہمراہ سفر حجاز پر لے کر گئے جس وقت میری عمر فقط 12 برس تھی۔ اس سفر کے دوران بھی انہوں نے دینی اور روحانی تربیت کے حوالے سے بہت سی خوبصورت نصیحتیں کیں جو ابھی تک میرے دل ودماغ پر نقش ہیں۔
آپ اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ اپنی لائبریری میں گزارا کرتے تھے۔ آپ کی لائبریری میں جہاں پر بڑی تعداد میں عربی کتب موجود تھیں وہیں پر آپ کی لائبریری کا ایک حصہ اُردو کتابوں پر بھی مشتمل تھا جس میں سیرت النبیﷺ، فضائل صحابہ کرمؓ اور تاریخ اسلام پر بہت سی کتب موجود ہوتی تھیں۔ میں بھی ان اردو کتابوں سے مستفید ہونے کی کوشش کرتا اور جب کبھی کسی مشکل مقام پر پہنچتا تو ان سے اس کے بارے میں سوال کیا کرتا تھا۔ آپ میرے سوالات کا بڑی تسلی سے جواب دیتے اوران سوالات پر کبھی بھی کوفت کا شکار نہیں ہوتے تھے۔
آپ اپنی زندگی کے آخری سالوں میں بہت زیادہ مصروف ہو گئے جس کی وجہ سے بہت سی ایسی سرگرمیاں بھی معطل ہو گئیں جن کا اہتمام آپ ان سالوں سے قبل کیا کرتے تھے۔ زندگی کے آخری چند سال سے قبل وہ ہمیں گاہے گاہے ہارس رائیڈنگ کلب میں گھڑ سواری کے لیے بھی لے کر جایا کرتے اور اس کے بعد کئی مرتبہ خود سکول چھوڑنے کے لیے بھی چلے جاتے تھے۔ آپ ان ایام میں صبح کی نماز کے بعد گھڑ سواری کے علاوہ ورزش کے لیے کئی مرتبہ بائی سائیکل بھی چلاتے آپ نے مجھے بھی ایک بائی سائیکل لے کر دی اور کئی مرتبہ سائیکل پر اپنی ہمراہی مجھے سکول بھی چھوڑنے کے لیے چلے جایا کرتے تھے۔ جن ایام میں آپ کے جلسے میں حادثہ ہوا ان ایام میں میرے میٹرک کے بورڈ کے امتحانات ہو رہے تھے۔ آپ کے دل میں میری کامیابی کے بارے میں بہت سی نیک تمنائیں تھیں اور اس حوالے سے آپ میرے بارے میں دعا گو بھی رہتے اور میرے پیپرز کی کارکردگی کے بارے میں سوال بھی کیا کرتے تھے ۔ آپ پیپرز کے حوالے سے مجھے بہت سی اچھی دعائیں بھی سکھلاتے۔ 23 مارچ 1987 ء کی رات جب آپ کے جلسے میں دھماکا ہوا تب تک میرے بورڈ کے پیپرز مکمل نہیں ہوئے تھے۔
میرے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ آپ اس جلسے میں زخمی ہونے کے بعد اس دنیائے فانی سے کوچ کر جائیں گے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اس دوران جب میں آپ کی عیادت کے لیے ہسپتال جاتا رہا تو میں نے آپ کو بڑے حوصلے میں پایا۔ آپ کا حوصلہ اور عزم دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگانا مشکل تھا کہ یہ زخم آپ کے لیے جان لیوا ثابت ہوں گے۔ ان زخموں سے مجروح ہونے کے بعد آپ کو عراق اور سعودی عرب سے جب سرکاری سطح پر علاج کی پیشکش کی گئی تو آپ نے سعودی عرب علاج کروانے کو ترجیح دی ۔ آپ کو ریاض کے ملٹری ہسپتال منتقل کیا گیا۔ آپ جس دن سعودی عرب پہنچے اس سے اگلی صبح ہی فجر کی نماز کے بعد اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کے جسد خاکی کو مدینہ منورہ پہنچایا گیا جہاں پر مسجد نبوی شریف ﷺ میں آپ کی نماز جنازہ کو ادا کرنے کے بعد آپ کو مدینہ طیبہ کے معروف قبرستان البقیع میں سپردخاک کر دیاگیا۔ آپ کو دنیا سے رخصت ہوئے 34 برس سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے لیکن ان برسوں کے دوران میں نے زندگی کے مختلف اتار اور چڑھاؤ، خوشی اور غمی کے دوران بہت مرتبہ آپ کی کمی کو شدت سے محسوس کیا ہے۔
والدین کے دنیا سے چلے جانے کے بعد جہاں پر انسان ان کی شفقت اور سرپرستی سے محروم ہو جاتا ہے وہیں پر ان کی تمناؤں اور دعاؤں سے بھی محروم ہو جاتا ہے اور کئی مرتبہ مصائب اور مشکلات کے دوران جہاں پر اُن کی شفقت یاد آتی ہے وہیں پر انسان اس بات کو بھی محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کسی طرح اپنی اولاد کے لیے دُعائیں کیا کرتے تھے۔ والدین کے ساتھ وابستگی کا تقاضا یہ بھی ہے کہ انسان ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی ان کے لیے دعائے خیر کرتا رہے اور ان کے بتلائے ہوئے اچھے کاموں کو انجام دینے کی کوشش کرتا رہے۔ والدین کی محبت کا یہ بھی تقاضا ہے کہ انسان اپنے والدین کے قریبی رشتوں یعنی تایا، چچا، خالہ، ماموں اور پھوپھو کے ساتھ حسن سلوک اور محبت کا مظاہرہ کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ والدین کے دوست احباب کے ساتھ محبت اور پیار سے پیش آنا بھی نہایت ضروری ہے۔
سیرت رسول اللہﷺ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ دنیا سے چلے جانے والے اپنے قریبی رشتہ داروں کے تعلق داروں کے ساتھ حسن سلوک والا معاملہ فرماتے تھے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے: صحیح بخاری میں حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہالہؓ بنت خویلد نے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت چاہی تو آپﷺ کو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی اجازت لینے کی ادا یاد آ گئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چونک اٹھے اور فرمایا ''اللہ! یہ تو ہالہ ہیں‘‘۔
والدین کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اگر انسان نیکی کے راستے پر گامزن رہے اور اپنے والدین کے لیے دعائے خیر کرتا رہے تو وہ اپنے والدین کے لیے صدقہ جاریہ کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے :صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب انسان فوت ہو جائے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین اعمال کے (وہ منقطع نہیں ہوتے) : صدقہ جاریہ یا ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے یا نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ جن کے والدین دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں ان کی مغفرت فرمائے اور ہمیں اُن کی بتلائی ہوئی اچھی باتوں اور نصیحتوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !