پاکستان اقوام عالم اور دنیائے اسلام میں ایک منفرد مقام رکھنے والا ملک ہے۔ پاکستان کے قیام کو 73 برس سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے اور قرار دادِ پاکستان کو پیش ہوئے 81 برس ہو چکے ہیں۔ کئی مرتبہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال اُبھرتا ہے کہ مسلمانانِ برصغیرہندوؤں کے ساتھ ایک ہزار برس تک اکٹھے رہنے کے بعد ایک علیحدہ وطن کے حصول کے لیے کیوں کوشاں ہوئے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جنگ آزادی کے بعد انگریزوں کے اقتدار کے دوران ہندوؤں کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ معاندانہ تھا اور انگریزوں کی رخصتی کے بعد ہندو اپنی اکثریت کی وجہ سے پورے برصغیر پر حکومت کے خواب دیکھ رہے تھے۔ جدید جمہوری نظام میں ہندوؤں کی عددی اکثریت کی وجہ سے مسلمانوں کے استحصال کے واضح امکانات نظر آ رہے تھے۔ مسلمانوں کے سیاسی، مذہبی اور سماجی حقوق کا دفاع کرنے کی ایک ہی صورت نظر آ رہی تھی کہ ان کے لیے ایک علیحدہ وطن حاصل کیا جائے۔ مسلمان رہنماؤں نے اس حوالے سے رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے برس ہا برس تک مسلسل جدوجہد کی۔ قائداعظم محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان اور دیگر اکابرین نے قیام پاکستان کی منزل کو حاصل کرنے کے لیے اپنی توانائیوں کو بھرپور انداز میں صرف کیا اور برصغیر کے طول وعرض میں عوامی اجتماعات کا انعقاد کرکے عوام کو یہ پیغام دیا کہ انگریزوں کے برصغیر سے چلے جانے کے بعد مسلمانوں کو اپنے حقوق کے دفاع کے لیے ہر قیمت پر علیحدہ وطن حاصل کرنا ہوگا۔ قراردادِ لاہور تحریک پاکستان میں نقطۂ عروج کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس قرار داد نے برصغیر کے مسلمانوں کو آزادی کے حصول کے لیے یکسو کر دیا تھا لیکن اس کے باوجود مزید سات برسوں کی مسلسل جدوجہد کے بعد آزادی کی منزل حاصل ہوئی۔ اس آزادی کے حصول کے لیے مسلمانوں کو بڑی قربانیاں دینا پڑیں۔ اس کے لیے بڑی تعداد میں مسلمانوں نے اپنے گھروں اور جائیدادوں کو خیرباد کہا، ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی آبروریزی کی گئی، نوجوانوں کے سینوں میں سنگینوں کو اتارا گیا، بوڑھوں کی داڑھیوں کو لہو میں تربتر کیا گیا، معصوم بچوں کو ذبح کیا گیا۔ بہت زیادہ صدمات، مشکلات اور آزمائشوں کو سہنے کے بعد جب برصغیر کے طول وعرض سے مسلمان پاکستان پہنچے تو پاکستان کی آزاد فضا میں سانس لینے کے بعد مسلمانوں کی اکثریت نے محسوس کیا کہ اُن کے تمام تر غم، دکھ، کرب اور تکالیف ختم ہو چکی ہیں۔ ان بے مثال قربانیوں کا مقصد درحقیقت ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تھا جس میں مسلمان اپنے عقائد، عبادات اور معاملات کو قرآن وسنت کے سانچے میں ڈھال سکیں اور نظمِ اجتماعی کو اللہ کی کتاب اور نبی کریمﷺ کی سنت کے تابع کیا جا سکے اور اسلام کے تصور سیاست و مشاورت بروئے کار لاتے ہوئے ایک مضبوط سیاسی اور فلاحی ریاست کا قیام یقینی بنایا جا سکے۔
الحمدللہ! اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں آزادی کی نعمت سے نوازا۔ یقینا یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی عطا ہے۔ پاکستان کے مسلمان بھارت کے مسلمانوں کے برعکس اپنی عبادات کی ادائیگی میں آزاد ہیں۔ اُنہیں نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی بجا آوری میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ عیدقربان کے موقع پر بھارت میں گائے کی قربانی کی وجہ سے بہت سے علاقوں میں مسلم کش فسادات ہوتے ہیں لیکن پاکستان کامسلمان اپنی مرضی سے جانوروں کو ذبح کرتا ہے۔ بھارت کا مسلمان اپنے آپ کو دوسرے درجے کاشہری سمجھتا ہے جب کہ پاکستانی مسلمان ہر قسم کی نفسیاتی محرومیوں سے آزاد ہو کر اپنی زندگی کوبسر کر رہے ہیں۔ ان تمام مثبت باتوں کے باوجوداس بات کو محسوس کیا جا سکتا ہے کہ تاحال ہم قیام پاکستان کے مقاصد کو پوری طرح حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ ایک اسلامی ریاست میں فحاشی کے اڈے نہیں ہوتے، نہ ہی شراب کی تجارت کی گنجائش اور امکانات موجود ہوتے ہیں‘ اسی طرح سودی نظام بھی اسلام کے تصورِ معاشیات سے متصادم ہے۔ بدقسمتی سے یہ تمام قباحتیں تاحال ہمارے سماج میں موجود ہیں۔بالخصوص فحاشی اور عریانی کو ایک منظم سازش کے تحت معاشرے میں پھیلانے کی کوششیں ایک عرصے سے جاری وساری ہیں۔ حقوق نسواں کے نام پر گاہے گاہے ''میراجسم اور میری مرضی ‘‘جیسے نعرے بھی سننے کو ملتے رہتے ہیں۔ ان قباحتوں کو دور کرنے کے لیے دینی جماعتیں وقفے وقفے سے آواز اُٹھاتی رہتی ہیں لیکن عملاً ان برائیوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے ریاست پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں شعائر اسلام کے تحفظ کے لیے مختلف قوانین بنائے گئے ہیں۔ ختم نبوت اور حرمت رسولﷺ کے حوالے سے بھی قوانین موجود ہیں جو اس امر کی ضمانت دیتے ہیں کہ پیغمبرآخر الزماںﷺ کی ناموس اور ختم نبوت پر ریاست پاکستان کوئی سمجھوتا نہیں کر سکتی لیکن ایک عرصے سے اس بات کو محسوس کیا جا رہا ہے کہ ان قوانین کے حوالے سے مختلف طرح کی سازشیں جاری رہتی ہیں۔ دینی جماعتوں کے رہنما متحد ہو کر ان سازشوں کا مقابلہ کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے تاحال اس طرح کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہو سکی؛ تاہم مستقبل میں بھی اس طرح کی سازشوں کے امکانات موجود ہیں جن کو ناکام بنانے کے لیے علمائے اُمت کو متحد ہونے کی ضرورت ہے اور ریاست کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آئین پاکستان میں کوئی بھی ایسی ترمیم ناقابل قبول ہے جو پاکستان کے نظریاتی تشخص کو مجروح کرنے کا سبب بنے۔
قیام پاکستان کا مقصد ایک فلاحی ریاست کا قیام بھی تھا جس میں جرم وسزا کا ایک مؤثر نظام ہو اور قانون کی نظروں میں تمام لوگ برابر ہوں لیکن یہ امر باعث تشویش ہے کہ ابھی تک سرمایے اور سیاسی اثرورسوخ کے بل بوتے پر لوگ جرائم کے ارتکاب کے باوجود قانون کے شکنجے سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے حکمرانوں کو سیرتِ رسولﷺ سے رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
صحیح مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ قریش نے ایک مخزومی عورت کے بارے میں مشورہ کیا جس نے چوری کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کون گفتگو کرے گا؟ تو انہوں نے کہا جو اس بات پر جرأت کر سکتا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیارے اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسامہ نے گزارش کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تو اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کرتا ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور فرمایا: اے لوگو! تم میں سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا گیا کہ ان میں سے جب کو کوئی معزز چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے اور کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد جاری کر دیتے۔ اللہ کی قسم! اگر فاطمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) بنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی چوری کرتیں تو میں ان کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔ ابن رمح کی روایت میں ہے: تم سے پہلے لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔
جرم وسزا کے مؤثر اور ہمہ گیر نظام کے ساتھ ساتھ عوام کی فلاح وبہبود پر توجہ دینا اور بنیادی ضروریاتِ زندگی یعنی مناسب خوراک، رہائش، تعلیم اور ادویات کو ہر شخص تک پہنچانا بھی ریاست ہی کی ذمہ داری ہے۔ مغربی ریاستوں نے اس حوالے سے خلافت راشدہ، خصوصاً حضرت عمر فاروق ؓ کے طرزِحکومت سے بہت زیادہ رہنمائی حاصل کی ہے لیکن بدنصیبی سے ہمارے معاشرے کے بہت سے لوگ سطح غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہیں جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں گدا گری، چوری، ڈکیتی اور سٹریٹ کرائمز کی وارداتیں بکثرت دیکھنے میں آتی ہیں۔ ا س حوالے سے اربابِ اقتدار اور اختیار کو ایک منظم سٹریٹیجی تیار کرنی چاہیے اور فلاحی ریاست کے قیام کے لیے مربوط حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔ اگر ٹیکسوں کے نظام کو زکوٰۃ، صدقات، عشر اور خیرات کے نظام سے تبدیل کیا جائے تو لوگ بخوشی اپنی زکوٰۃ، عشر،صدقات،خیرات اور عطیات کو مرکزی بیت المال میں جمع کروانے پر آمادہ وتیار ہو سکتے ہیں۔ اس رقم کے ساتھ عوام کی فلاح وبہبود کا منصوبہ منظم انداز میں تیار کیا جا سکتا ہے۔
ریاست پاکستان کو چلانے والے اداروں کو اس بات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ تکمیل پاکستان کے لیے کشمیر کے مسئلے کو مؤثر انداز میں حل ہونا چاہیے۔ کشمیری عوام ایک عرصے سے پاکستان کیساتھ الحاق کے خواہشمند ہیں اور انہوں نے اس حوالے سے بہت سی قربانیاں دی ہیں لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم من حیث القوم ان کی توقعات پر پورا نہیں اُتر سکے۔ اگر کشمیر آزاد ہوکر ریاست پاکستان کا حصہ بن جاتا ہے تو نہ صرف یہ کہ اس سے پاکستان کی تکمیل ہو گی بلکہ سانحہ سقوطِ ڈھاکہ کا بھی ازالہ ہو سکتا ہے۔ ان تمام مقاصد کو پورا کرنے کے لیے ملک کی تمام دینی،سماجی اور سیاسی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ریاست پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بنا دے۔ آمین!