اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے اپنی آخری کتاب قرآن مجید کو حضرت رسول اللہﷺ کے قلبِ اطہر پر نازل فرمایا۔ نبی کریمﷺ نے قرآن مجید کو لوگوں تک پہنچایا اور قرآن کے حوالے سے اُمت کو اس کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا کہ ہمیں اس کتاب پر ایمان لانا چاہیے، اس کی تلاوت کرنی چاہیے، اس پر غوروفکر کرکے اس کو سمجھنا چاہیے،اس پر عمل کرنا چاہیے،اس کا ابلاغ کرنا چاہیے اور اس کے قیام کے لیے جستجو کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ نبیِ مہرباں حضرت رسول اللہﷺ نے قرآن مجید پر عمل کرکے لوگوں کو دکھلا دیا۔ نبی کریمﷺ نے قرآن مجیدکے احکامات کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے انسانوں پر واضح فرما دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نحل کی آیت نمبر 44میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور ہم نے اتارا آپ کی طرف ذکر (قرآن) تاکہ آپ بیان کریں لوگوں کے لیے جو نازل کیا گیا ان کی طرف اور تاکہ وہ غوروفکر کریں‘‘۔ قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے رسول اللہﷺ پر کلام حمید کا نزول فرمایا کہ وہ اس کے مفہوم اور مطلب کو لوگوں کے سامنے بیان کریںتاکہ ان کے لیے غوروفکر اور عمل کی راہیں آسان ہو سکیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی کتاب میں نبی کریمﷺ کی اتباع اور آپﷺ کی پیروی کا بھی حکم دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر31 میں ارشاد فرماتے ہیں : ''آپ کہہ دیجئے تم محبت کرتے ہو اللہ سے تو میری پیروی کرو‘ اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا اور وہ معاف کر دے گا تمہارے گناہ اور اللہ بہت بخشنے والا بہت مہربان ہے‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جو نبی کریمﷺ کی پیروی کرے گا وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا محبوب بن جائے گا۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نساء کی آیت نمبر 80میں اس امر کا اعلان فرمایا : ''جو اطاعت کرے گا رسول(ﷺ) کی تو درحقیقت اس نے اطاعت کی اللہ تعالیٰ کی‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہﷺ کی اطاعت کرنا گویا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنا ہے۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ احزاب کی آیت نمبر 21میں ارشاد فرمایا : ''بلاشبہ تمہارے لیے اللہ کے رسول (کی زندگی)میں بہترین نمونہ ہے‘‘۔ ان تمام آیات مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ کی زندگی ہمارے لیے اسوہ (مثال، رول ماڈل)کی حیثیت رکھتی ہے‘ اور یہی بہترین اسوہ ہے۔کتاب وسنت میں چونکہ قیامت تک کے انسانوں کی رہنمائی کے لیے مکمل پیغام موجود ہے اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی حفاظت کا بھی بہترین انداز میں بندوبست فرما دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت کے لیے اس کو کتابی شکل میں محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو لوگوں کے ذہنوں میں بھی محفوظ فرما دیا۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے بعض ایسی ہستیوں کوپیدا کیا جنہوں نے اپنی زندگیوں کا مقصد ہی نبی کریمﷺ کے فرامین کو اکٹھا کرنا اور ان کو مدون کرنا بنا لیا۔ یہ ہستیاں درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کے حبیبﷺکے ارشادات عالیہ کو قلمبند کرکے اُمت کے لیے عمل کے راستے کو آسان بنانا چاہتی تھیں۔ محدثین کی اس عظیم جماعت میں امام بخاری رحمہ اللہ کا نام سرفہرست ہے جن کی زندگی کا نصب العین ہی رسول اللہﷺ کے فرامین کو اکٹھا کرنا تھا۔ آپؒ نے اپنی زندگی کے طویل برسوں کے دوران نبی کریمﷺ کے فرامین کو اکٹھا کرنے کے لیے زبردست جدوجہد کی اور برس ہابرس کی کاوشوں کے بعد اُمت مسلمہ کے سامنے ''صحیح بخاری ‘‘کی شکل میں ایک ایسی کتاب کو پیش کیا کہ جس کی راویت میں کسی قسم کے شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔
ہر سال رجب اورشعبان کے مہینے میں مدارس کے سالانہ امتحانات ہوتے ہیں‘جن میں صحیح بخاری کی تکمیل کرنے والے طلبہ کو سند فراغت دی جاتی ہے۔ مجھے بھی ہر سال ایسی تقاریب میں شرکت کا موقع ملتا رہتا ہے۔لوگ بڑی تعداد میں ان تقاریب میں شرکت کرتے ہیں اور امام بخاری ؒ اور صحیح بخاری کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ صحیح بخاری کتب احادیث میں سب سے بلند مقام پر تصور کی جاتی ہے‘ اس کے پسِ منظر میں امام بخاریؒ کی عظیم جدوجہد اور کاوش ہے۔ امام بخاری ؒکو اللہ تبارک وتعالیٰ نے غیر معمولی حفظ‘ استدلال‘ ذہانت‘ فطانت اور بصیرت سے نوازا تھا۔ دنیا میں بہت سے لوگ مختلف طرح کے مشاغل اور معاملات میں مصروف رہتے ہیں۔ کوئی مال ودولت کے حصول کے لیے تگ ودو کرتا ہے تو کوئی عہدے اورمنصب کے حصول کے لیے اپنی صلاحیتوں کو صرف اور وقف کیے رکھتا ہے‘ لیکن دنیا میں بعض شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں‘جن کی زندگی کا مقصد اور نصب العین اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی نشرواشاعت ہوتا ہے۔ یہ لوگ صرف اپنی زندگیوں ہی کو ایمان اور خوش نما اعمال سے مزین نہیں کرتے‘ بلکہ آنے والی نسلوں اور جمیع انسانیت کیلئے بھی ان کی شخصیت ایک نمونہ اور مثال بن جاتی ہے۔ امام بخاری ؒنے اپنے پسماندگان میں اہلِ خانہ کو تو نہیں چھوڑا‘لیکن آپ نے جس انداز میں حدیث کی جمع وتدوین اور نشرواشاعت کی‘ اُس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس انداز میں شرف قبولیت عطا کیا کہ شرق وغرب میں آپ کی کتاب ''صحیح بخاری‘‘کوقبولیت عامہ حاصل ہوئی۔
صحیح بخاری میں حضرت امام بخاریؒ نے ہزار ہا احادیث میں سے سات ہزار دو سو پچاس احادیث کو مختلف عناوین اور ابواب کے تحت جمع فرمایا۔ آپ نے اپنی کتاب میں عمل کی راہوں کو متعین کرنے کے لیے کتاب کا آغازاس حدیث سے کیا کہ ''بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ‘‘ اور آپ نے اپنی کتاب کا اختتام اعمال کے تلنے والی حدیث پہ کیااور ان کے درمیان ایمان اور عمل صالح میں ترقی کے راستوں کو واضح کرنے والی احادیث کو بیان کیا ہے۔ اس طریقے سے لوگوں پر اس بات کو واضح فرما دیا کہ دین کا آغاز اصلاحِ نیت سے ہوتا ہے اور اس کا اختتام اعمال کے ترازو پر تلنے کے بعد جنت میں داخلے کے ساتھ ہوتا ہے۔
صحیح بخاری کو پڑھنے کے بعد انسان جہاں پر نبی کریمﷺ کی احادیث اور سنتوں سے آگاہی حاصل کرکے حکمت کے موتیوں کو چنتا ہے وہیں پر اس کے دل ودماغ میں نبی کریمﷺ کی عظمت کے نقوش بھی ثبت ہو جاتے ہیں۔ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے کس انداز میں زندگی کے ہر شعبے میں انسانوں کی کامل اور مکمل رہنمائی فرمائی ہے اور اس حوالے سے کسی معمولی سے تشنگی کو بھی باقی نہیں رہنے دیا۔ انسان کے دل میں حبِ رسولﷺ کے جذبات موجزن ہو جاتے ہیں اور وہ آپﷺ کی اطاعت کے لیے کمر بستہ ہو جاتا ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس کتاب میں کئی احادیث کی تکرار بھی کی ہے اور اس تکرار کا مقصد مختلف ابواب قائم کرکے ایک ہی حدیث سے مختلف نتائج کو دین کے طلبہ کے سامنے رکھنا ہے۔ امام بخاریؒ کی یہ کتاب فنی اعتبار سے اپنے اند ر بہت سی غیر معمولی خوبیوں کو سموئے ہوئے ہے۔ جن میں سے بہت بڑی خوبی اس کی ترتیب ہے۔
صحیح بخاری کی ترتیب اور اس کے ابواب میں موجود فقاہت کو دیکھ کر ہر ذی شعور انسان امام بخاری کی ذہانت اور محنت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 195 میں اس امر کا اعلان فرمایا کہ ''بے شک میں کسی اچھے عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کرتا‘‘؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت امام بخاریؒ کی کاوشوں کو قبول ومنظور فرمالیا اور آپ کی محنتوں کو اس انداز میں با رآور کیا کہ رہتی دنیا تک کے لیے آپ کی ذات اور آپ کی خدمات کو امتیازی حیثیت عطا کر دی۔ امام بخاریؒ کے خلوص اور لگن سے ہم سب لوگوںکو اس بات کی رہنمائی ملتی ہے کہ ہمیں بھی اپنی زندگی کو اعلیٰ مقاصد کے لیے صرف کیے رکھنا چاہیے۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے دین کے ابلاغ اور اس کی نشرواشاعت کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کیے رکھیں گے‘تو یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں بھی آسودگی‘ راحت اور سعادت والی بہترین زندگی سے نوازے گا۔
ہر سال مدارس میں صحیح بخاری کی تکمیل کے موقع جب لوگوں کے ذوق وشوق کو دیکھتا ہوں تو مجھے اس بات کا یقین حاصل ہوتا ہے کہ مادیت کے اس دور میں‘ جب ہر شخص اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے دن رات تگ ودو کرنے میں مصروف ہے وہیں پر‘ بہت سے لوگ اب بھی حضور نبی کریمﷺ کے فرامین کے موتیوں کو چننے میں مصروف ہیں اور ان کا مقصد اپنی زندگی کو کتاب وسنت کے سانچے میں ڈھال کر دنیا اور آخرت میں اللہ کی رضا کو حاصل کرنا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو کتاب وسنت کے ساتھ والہانہ وابستگی اختیار کرکے اپنی زندگیوں کو ان کی تعلیمات کی روشنی میں سنوارنے کی توفیق دے، آمین!