"AIZ" (space) message & send to 7575

جھوٹ کے نقصانات !

یکم اپریل کو دنیا بھر میں ''اپریل فول‘‘ کے نام سے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ جھوٹ بولتے اور اس عمل سے فرحت حاصل کرتے ہیں۔ دوست احباب، رشتہ دار،اعزہ واقارب ایک دوسرے کے ساتھ اپریل فول مناتے ہیں اور کئی مرتبہ اس کے عمل کے نتیجے میں لوگوں کو نفسیاتی حوالے سے بھی زبردست دھچکوں کا سامنا کرناپڑتا ہے اور بہت سے لوگ گہرے صدمے اور غم کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ یکم اپریل سے قطع نظر بھی ہم اس بات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں جھوٹ کا چلن عام ہے۔ گھریلو سطح پر والدین کئی مرتبہ بچوں سے جھوٹ بولتے ہیں، شوہر اور بیوی بھی ایک دوسرے کے ساتھ غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ اسی طرح معاشی سرگرمیوں کو چلانے کے لیے بھی جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جب ہم سیاسی معاملات پر نگاہ ڈالتے ہیں تو اس میں بھی جھوٹ کا چلن عام نظر آتا ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدوار ووٹ لینے کے لیے عوام کے ساتھ جھوٹے وعدے کرتے اور انتخابات میں کامیاب ہونے کے بعد ان وعدوں کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں اور دوبارہ اگلے انتخابات میں پھر سے عوام کے ساتھ جھوٹ بولا جاتا ہے۔
کتاب وسنت میں جھوٹ کی بڑے سخت انداز میں مذمت کی گئی ہے اور سچائی کی اہمیت کو بہت زیادہ اجاگر کیا گیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 61میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اللہ کی لعنت ہو جھوٹوں پر!‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ فرقان میں جھوٹی گواہی دینے کی سخت انداز میں مذمت کی ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ فرقان کی آیت نمبر 72میں عباد الرحمن (اللہ کے بندوں)کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو نہیں گواہی دیتے جھوٹی، اور جب وہ گزریں بے ہودہ کام (کے پاس) سے (تو) وہ باعزت گزر جاتے ہیں‘‘۔اس کے بالمقابل اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے مختلف مقامات پر سچائی کی اہمیت کو احسن انداز میں واضح کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ احزاب کی آیت نمبر 70 تا 71میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اللہ سے ڈرو اور بالکل سیدھی بات کہو‘ وہ درست کر دے گا تمہارے لیے تمہارے اعمال کو اور وہ بخش دے گا تمہارے لیے تمہارے گناہ اور جو کوئی اطاعت کرے اللہ اور اُس کے رسول کی تو یقینا اُس نے کامیابی حاصل کی‘ بہت بڑی کامیابی‘‘۔ اسی طرح سورہ توبہ کی آیت نمبر 119میں ارشاد ہوا: ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور ہو جاؤ سچ بولنے والوں کے ساتھ‘‘۔
نبی کریمﷺ ساری زندگی سچائی پر نہایت سختی سے کاربند رہے یہاں تک کہ کفار بھی آپﷺ کے سچے ہونے کی گواہی دیتے تھے۔ آپﷺ نے اپنی اُمت کوبھی ہمیشہ سچائی کا سبق دیا اور جھوٹ سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ اس حوالے سے چند اہم احادیث درج ذیل ہیں: 1۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہؓ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ چار عادتیں جس کسی میں ہوں تو وہ خالص منافق ہے اور جس کسی میں ان چاروں میں سے ایک عادت ہو تو وہ (بھی) نفاق(پر) ہی ہے، جب تک اسے نہ چھوڑ دے۔ (وہ یہ ہیں) جب اسے امین بنایا جائے تو (امانت میں) خیانت کرے اور بات کرتے وقت جھوٹ بولے اور جب (کسی سے) عہد کرے تو اسے پورا نہ کرے اور جب (کسی سے) لڑے تو گالیوں پر اتر آئے۔
بعض لوگ نبی کریمﷺ سے جھوٹی احادیث منسوب کرتے ہیں‘ اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ معاملہ انتہائی سنگین ہے۔ اس حوالے سے انہیں نبی کریمﷺ کی درج ذیل حدیث سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے وہ دوزخ میں اپنا ٹھکانہ تلاش کرے۔
بعض لوگ روزے کی حالت میں بھی جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتے، وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ روزہ فقط کھانے پینے کو چھوڑنے کا نام نہیں بلکہ اس حالت میں جھوٹ سے بچنا بھی ضروری ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: '' اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا (روزہ رکھ کر بھی) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے‘‘۔
کارو بار میں جھوٹ کا چلن اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ لوگ جھوٹ کو تجارت کا باقاعدہ حصہ سمجھتے ہیں جبکہ احادیث مبارکہ میں اس عمل کی سخت انداز میں مذـمت کی گئی ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے :
صحیح بخاری میں حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:خرید و فروخت کرنے والوں کو (سودا ختم کرنے کا)اختیار ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں۔ پس اگر دونوں نے سچائی اختیار کی اور ہر بات کھول کھول کر بیان کی تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ہو گی اور اگر انہوں نے کچھ چھپائے رکھا یا جھوٹ بولا تو ان کے خرید و فروخت کی برکت ختم کر دی جائے گی۔
بعض لوگ اپنی خوبصورتی میں اضافے کے لیے مصنوعی طریقے استعمال کرتے ہیں‘ اس حوالے سے انہیں درج ذیل حدیث پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے اپنے آخری سفر میں ہمیں خطاب فرمایا اور (خطبہ کے دوران) آپ نے بالوں کا ایک گچھا نکالا اور فرمایا: میں سمجھتا ہوں کہ یہودیوں کے سوا اور کوئی اس طرح نہ کرتا ہو گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرح بال سنوارنے کا نام ''الزور‘‘ (فریب و جھوٹ) رکھا ہے۔ آپ کی مراد بالوں میں جوڑ لگانے سے تھی (جیسے اکثر عورتیں مصنوعی بالوں میں جوڑ کیا کرتی ہیں)۔
احادیث مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جھوٹ کے نتیجے میں کوئی بھی شخص یاگروہ ذلت اور رسوائی سے محفوظ نہیں ہو سکتا ہے بلکہ جھوٹ کی وجہ سے انسانوں کو شرمندگی کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے: صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اپنے قبیلے کے ایک مرد اور ایک عورت کو لے کر آئے، جنہوں نے زنا کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا: اگر تم میں سے کوئی زنا کرے تو تم اس کو کیا سزا دیتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم اس کا منہ کالا کر کے اسے مارتے پیٹتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استفسار فرمایا: کیا توریت میں رجم کا حکم نہیں ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے توریت میں رجم کا حکم نہیں دیکھا۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ (جو اسلام لانے سے قبل مشہور یہودی عالم تھے) بول اٹھے کہ تم جھوٹ بول رہے ہو، توریت لاؤ اور اسے پڑھو، اگر تم سچے ہو۔ (جب توریت لائی گئی) تو ان کے ایک بہت بڑے مدرس نے‘ جو انہیں توریت کا درس دیا کرتا تھا‘ آیت رجم پر اپنی ہتھیلی رکھ لی اور اس سے پہلے اور اس کے بعد کی عبارت پڑھنے لگا اور آیت رجم نہیں پڑھتا تھا۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اس کے ہاتھ کو آیت رجم سے ہٹا دیا اور اس سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ جب یہودیوں نے دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ آیت رجم ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا اور ان دونوں کو مسجد نبوی کے قریب ہی‘ جہاں جنازے لا کر رکھے جاتے تھے‘ رجم کر دیا گیا۔
احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے اللہ تبارک وتعالیٰ نے سچائی میں بہت زیادہ برکت رکھی ہے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں عبداللہؓ بن کعب بن مالک سے ایک اہم روایت ملتی ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ آپ نے (اپنے والد) کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ غزوہ تبوک میں اپنی غیر حاضری کا قصہ بیان کر رہے تھے، کہا کہ اللہ کی قسم! سچ بولنے کا جتنا عمدہ پھل اللہ تعالیٰ نے مجھے دیا، کسی کو نہ دیا ہو گا۔ جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے میں نے اس بارے میں سچی بات کہی تھی، اس وقت سے آج تک کبھی جھوٹ کا ارادہ بھی نہیں کیا اور اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیت نازل کی تھی کہ ''بیشک اللہ نے نبی پر اور مہاجرین و انصار پر رحمت کے ساتھ توجہ فرمائی‘‘۔
مندرجہ بالا احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں زندگی کے تمام شعبوں میں جھوٹ سے بچنا اور سچائی کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ چنانچہ ہمیں یکم اپریل کو جھوٹ کی نشرواشاعت کا حصہ بننے کے بجائے سیدھے راستے پر رہنا چاہیے اور سچائی کے ساتھ تمسک کو اختیار کرنا چاہیے تاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے غیظ و غضب اور اس کی لعنتوں کے مستحق بننے کے بجائے اپنے معاملات کی اصلاح کر سکیں اور اللہ سے مغفرت کو حاصل کر سکیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں جھوٹ سے محفوظ رکھے اور سچائی کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں