انسان اپنی زندگی میں بہت سی بیماریوں کی لپیٹ میں آتا رہتا ہے۔ بہت سے انسان ان بیماریوں سے شفایاب ہوجاتے ہیں جبکہ کئی انسان ان بیماریوں کے نتیجے میں مستقل عارضوں کا شکار ہو جاتے اور کئی لوگ دنیا سے کوچ بھی کر جاتے ہیں۔ بیماریوں کے علاج کے حوالے سے انسانی معاشروں میں تحقیق اور جستجو کا سلسلہ جاری وساری ہے۔ فی زمانہ حکمت، ہومیو پیتھک اور ایلو پیتھک طریقہ ہائے علاج کے ذریعے بیماریوں کی تشخیص کی جاتی اور ان کے علاج اور معالجے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ماضی میں بہت سی بیماریاں لاعلاج تصور کی جاتی تھیں لیکن طبی ترقی کی وجہ سے ان کا علاج دریافت ہوتا چلا گیا؛تاہم طبی میدان میں ترقی کے باوجود بہت سی بیماریاں تاحال لاعلاج تصور کی جاتی ہیں۔ ان بیماریوں کا علاج کرنے والے طبیبوں اور ڈاکٹروں کا مقصد مریض کی معاونت کرنا یا اس کی تلخی و تکلیف کو کم کرنا ہوتا ہے۔ ان بیماریوں میں کینسر سرفہرست ہے جس کے بگڑ جانے کے بعد 95 فیصد مریض موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔
انسانی تاریخ کے بہت سے ادوار میں وبائیں بھی پھوٹتی رہیں جن کے نتیجے میں آبادیوں کا بہت بڑا حصہ وباؤں کی لپیٹ میں آتا رہا۔ ماضی میں اس حوالے سے طاعون کی بیماری نمایاں رہی جس کے نتیجے میں مختلف ادوار میں لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں افراد اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ گزشتہ ایک سال سے ایک مرتبہ پھر عالمی سطح پر انسانیت کو کورونا کی وبا کا سامنا ہے۔ اس بیماری کے نتیجے میں لوگوں کے نظامِ تنفس پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور لوگوں کو سانس لینے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مریض کو تیز بخار بھی ہو جاتا ہے۔دنیا بھر میں اس مہلک بیماری کے نتیجے میں لاکھوں انسان اس دارفانی سے کوچ کر چکے ہیں۔ طبی ماہرین اس بیماری کے اسباب و علل پر غورکرنے میں مصروف ہیں اور مسلسل محنت کے بعد اس بیماری کی ویکسین بھی تیار کی گئی ہے جس کے ٹرائلز مکمل ہونے کے بعد یہ ویکسین لوگوں کو لگانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ عین ممکن ہے اس ویکسی نیشن کے نتیجے میں لوگوں کو اس بیماری سے لوگوں کو نجات حاصل ہو جائے لیکن تاحال اس بات کی یقین دہانی کروانا مشکل ہے۔
بیماریوں کے علاج کے لیے جہاں پر طبی ماہرین اپنے اپنے اندازمیں جستجو کرتے رہتے ہیں وہیں پر ان بیماریوں کے روحانی علاج پر توجہ دینا بھی انتہائی ضروری ہے۔ اس حوالے سے پہلی بات جسے سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ زندگی میں آنے والی تمام بیماریاں اور پریشانیاں درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے آتی ہیں۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر 51میں کچھ یوں فرماتے ہیں : ''کہہ دیجئے ہر گزنہیں پہنچے گا ہمیں (کوئی نقصان) مگر جو لکھ دیا ہے اللہ نے ہمارے لیے‘‘۔ یہ بیماریاں اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے آتی اور اُسی کے حکم سے دور ہوتی ہیں۔ اسی حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ شعراء کی آیت نمبر 80 میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قول کو کچھ یوں بیان فرمایا ہے: ''اور جب میں بیمار ہوجاؤں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہی انسانوں کو شفا دینے والے ہیں۔ درحقیقت طبی علاج اور معالجے کے دوران بھی مریض اللہ تبارک وتعالیٰ کے امر ہی سے شفا یاب ہوتا ہے۔
کتاب وسنت میں بھی بیماریوں سے نجات کے لیے بہت سی خوبصورت تدابیر کو بتلایا گیا ہے۔ جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ دُعا: اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کی دعاؤں اور فریادوں کو سننے والے ہیں۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر186 میں کچھ یوں کیا ہے: ''اور جب آپ سے پوچھیں میرے بندے میرے بارے میں تو (بتادیں) بے شک میں قریب ہوں‘ میں قبول کرتا ہوں دعا کرنے والے کی پکار کو جب وہ مجھے پکارے‘‘۔ اسی طرح سورہ نمل کی آیت نمبر62 میں ارشاد ہوا: ''جو قبول کرتا ہے لاچار کی‘ جب وہ پکارتا ہے اُسے اور وہ دور کر تا ہے تکلیف کو‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ دعاؤں کے نتیجے میں جہاں بہت سی دیگر مشکلات کو دور فرماتے ہیں وہیں پر اپنے بیمار بندوں کو بھی شفایاب فرماتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کے واقعے کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے جو ایک لمبا عرصہ بیمار رہے، انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں دُعا کی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُ ن کی دُعا کو قبول ومنظور فرما کر ان کی بیماری کو دور فرما دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس واقعے کو سورہ انبیاء کی آیت نمبر83 تا 84 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''اور ایوب علیہ السلام کو (یاد کیجئے) جب اس نے پکار ا اپنے رب کو کہ بے شک پہنچی ہے مجھے تکلیف اور تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے رحم کرنے والوں میں۔ تو ہم نے دُعا قبول کر لی اس کی پس ہم نے دور کر دی جو اس کو تکلیف تھی‘‘۔ سورہ انبیاء ہی میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے دعا کے نتیجے میں حضرت یونس علیہ السلام کے غم کی دوری کا بھی ذکر کیا اور اس بات کو بھی واضح فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ اسی طرح اہلِ ایمان کو نجات دیتے ہیں۔ سورہ انبیاء کی آیت نمبر 87 تا 88میں ارشاد ہوا: ''اس نے پکارا اندھیروں میں کہ کوئی معبود نہیں تیرے سوا‘ تُو پاک ہے بے شک میں ہی ظالموں میں سے ہوں۔ تو ہم نے دعاقبول کرلی اس کی اور نجات دی اسے غم سے اور اسی طرح ہم نجات دیتے ہیں ایمان والوں کو‘‘۔
2۔تلاوتِ قرآن مجید: اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی آخری کتاب کو نبی کریمﷺ کے قلبِ اطہر پر نازل فرمایا۔ یہ کتاب جہاں پر مومنوں کے لیے ہدایت ہے اور اس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے زندگی گزارنے کے تمام اہم آداب کو بہت خوبصورت انداز میں واضح فرما دیا‘ وہیں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس میں اہلِ ایمان کے لیے شفا کو بھی رکھ دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 82میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور ہم نازل کرتے ہیں قرآن (میں) سے (وہ کچھ) جو (کہ) وہ شفا اور رحمت ہے ایمان والوں کے لیے‘‘۔ اسی طرح سورہ حٰم سجدہ کی آیت نمبر 44میں ارشاد ہوا: ''آپ کہہ دیجئے وہ (قرآن)ہدایت اور شفا ہے(ان لوگوں) کے لیے جو ایمان لائے ‘‘۔ اسی طرح سورہ یونس کی آیت نمبر 57میں اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں: ''اے لوگو!یقینا آ چکی تمہارے پاس نصیحت تمہارے رب کی طرف سے اور شفا ہے (اس میں اس بیماری) کی جو سینوں میں ہے‘‘۔ ویسے تو سارا قرآن ہی اہلِ ایمان کے لیے شفا ہے لیکن خصوصیت سے سورہ فاتحہ، آیۃ الکرسی، سورہ بقرہ کی آخری دو آیات اور معوذتین (سورہ فلق اور سورہ ناس ) میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے شفایابی اور پناہ کو رکھا ہے۔
3۔ذکرِ الٰہی: جب کوئی شخص پریشانیوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی زندگی کے اندھیروں کو دور کرکے اس کو روشنیوں کے راستے پر چلا دیتے ہیں۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ احزاب کی آیت نمبر 41 تا 43میں کچھ یوں فرمایا ہے: ''اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یاد کرو اللہ کو بہت زیادہ یاد کرنا۔اور تسبیح (پاکیزگی) بیان کرو اُس کی صبح وشام۔ وہی ہے جو رحمتیں بھیجتا ہے تم پر اور اُس کے فرشتے (دعائے رحمت کرتے ہیں) تاکہ وہ نکالے تمہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف اور وہ ہے مومنوں پر بہت رحم کرنے والا‘‘۔ انسانوں کو ویسے تو ہر حالت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے لیکن خصوصاً صبح وشام کے اذکار کا التزام کرنا یقینا انسانوں کی بیماریوں کو دور کرنے کا سبب ہے۔
4۔ توبہ و استغفار : کتاب وسنت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سچے دل سے توبہ اور استغفار کرنے سے بھی انسان کی تکالیف دور ہوتی ہیں۔
5۔صبر : جب انسان کسی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو اُس موقع پر دل چھوڑنے اور مایوس ہونے کے بجائے انسان کو صبرکا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی تائید اور رحمت صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 153 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! مدد حاصل کرو صبر اور نماز سے۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔
6۔تقویٰ: جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کے خوف سے گناہوں کو چھوڑ دیتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے لیے تنگیوں سے نکلنے کا راستہ بنا دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ طلاق کی آیت نمبر 2میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو اللہ سے ڈرتا ہے (تو) بنا دیتا ہے اُس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا کوئی راستہ‘‘۔ چنانچہ کسی بیماری کے آ جانے کے بعد انسان کو گناہوں سے بچنے کا پختہ ارادہ کرنا چاہیے۔ اگر انسان تقویٰ کا راستہ اختیار کر لے تو یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی تکالیف کو دور فرما دیتے ہیں۔
6۔ توکل: جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات اس کے لیے کافی ہو جاتی ہے۔ سورہ طلاق کی آیت نمبر3 میں ارشاد ہوا: ''اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ کافی ہے اُسے‘ بے شک اللہ پورا کرنے والا ہے اپنے کام کو‘ یقینا اللہ نے مقرر کر رکھا ہے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ‘‘۔
7۔اشیا سے علاج: کتا ب وسنت میں جہاں پر روحانی طریقہ علاج کی طرف رہنمائی کی گئی ہے وہیں پر بہت سی ایسی اشیا کی طرف بھی رہنمائی کی گئی ہے جن میں اللہ نے شفا کو رکھا ہے۔ ان میں شہد، کلونجی، آبِ زم زم اور زیتون کا تیل سرفہرست ہیں۔ اگر ان اشیا کو بھی بیماری کے دوران استعمال کیا جائے تو مرض کے دور ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ اس وبا کو اہلِ ایمان اور پُرامن انسانیت سے دور فرمائے اور ہم سب کے تمام جملہ امراض کو دور فرمائے۔ آمین !