"AIZ" (space) message & send to 7575

فحاشی کی روک تھام

حالیہ ایام میں وزیر اعظم عمران خان نے ایک ایسا بیان دیا کہ جس پر ملک کے مختلف طبقات نے مختلف طر ح کے ردّ عمل کا اظہار کیا۔ عمران خان صاحب نے ملک میں پھیلنے والی فحاشی اور عریانی کو جنسی جرائم کا ایک بڑا سبب قرار دیا۔ انہوں نے قرآن مجید کی تعلیمات کا بھی حوالہ دیا کہ قرآن مجیدمیں پردے کے احکامات برائی کی روک تھام کے لیے آئے ہیں۔ اس حوالے سے انسانی حقوق کی مختلف انجمنوں نے شدید غم وغصے کا اظہار کیا اور خان صاحب سے اس بات کا مطالبہ کیا کہ وہ اپنے بیان کو واپس لیں۔ اس کے مد مقابل علماء کے ایک طبقے نے خان صاحب کی اس رائے کا بھرپور طریقے سے خیر مقدم کیا اور اس بات کی تائید کی کہ خان صاحب نے جو کچھ بھی کہا‘ درست کہا ہے۔ خواتین کی بعض نمائندہ تنظیموں کا کہنا تھا کہ اس طریقے سے زنابالجبر کی وارداتوں میں ملوث مجرموں کی حوصلہ افزائی ہو گی جبکہ علماء کا اس کے مقابلے پر بیانیہ تھا کہ اس میں مجرم کی حوصلہ افزائی نہیں بلکہ برائی کی روک تھام کے لیے احتیاطی تدابیر کو واضح کیا گیا ہے۔
جب ہم کتاب وسنت کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اور رسو ل اللہﷺ نے بدکرداری کو انتہائی ناپسند کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 32 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور تم مت قریب جاؤ زنا کے‘ بے شک وہ بے حیائی ہے اور برا راستہ ہے‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں پر اس برائی کے قریب جانے سے روکا‘ وہیں پر ان طریقوں کی بھی رہنمائی کی ہے کہ جن پر عمل کرکے برائی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ جب ہم قرآن مجید پر تدبر کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت سے ایسے احکامات کی طرف رہنمائی فرمائی ہے کہ جن پر عمل پیرا ہو کر برائی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
1۔ مردوں کا نگاہوں کو جھکا کر رکھنا: اللہ تبار ک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں مسلمان مردوں کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کو جھکا کر رکھیں اور اپنی آبرو کا تحفظ کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر 30میں ارشاد فرماتے ہیں: ''مومن مردوں سے کہہ دیجئے (کہ) وہ نیچی رکھیں اپنی نگاہیں اور وہ حفاظت کریں اپنی شرمگاہوں کی۔ یہ زیادہ پاکیزہ ہے ان کے لیے‘ بے شک اللہ خوب خبردار ہے اس سے جو وہ کرتے ہیں‘‘۔
2۔ عورتوں کو نگاہیں جھکانے اور پردہ داری کا حکم: اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں عورتوں کو بھی نگاہیں جھکا کر رکھنے اور پاکدامنی کے تحفظ کا حکم دیا ہے۔ اس حوالے سے سورہ نور ہی کی آیت نمبر 31میں ارشاد ہوا: ''اور کہہ دیجئے مومن عورتوں سے (بھی) (کہ) وہ نیچی رکھیں اپنی نگاہیں اور وہ حفاظت کریں اپنی شرمگاہوں کی اور نہ وہ ظاہر کریں اپنی زینت کو مگر جو (خود) ظاہر ہو جائے اس میں سے ۔اور چاہیے کہ وہ ڈالے رکھیں اپنی اوڑھنیوں کو اپنے گریبانوں پر ، اور نہ وہ ظاہر کریں اپنی زینت (بناؤ سنگھار) کو مگر اپنے خاوندوں کے لیے یا اپنے باپوں (کے لیے) یا اپنے خاوندوں کے باپوں (کے لیے) یا اپنے بیٹوں (کے لیے) یا اپنے شوہروں کے (دیگر) بیٹوں (کے لیے) یا اپنے بھائیوں (کے لیے) یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں(بھتیجوں کے لیے) یا اپنے بہنوں کے بیٹوں (بھانجوں کے لیے) یا اپنی (جیسی) عورتوں (کے لیے) یا (ان کے لیے) جن کے مالک بنے ان کے دائیں ہاتھ (یعنی زر خرید غلاموں کے لیے) یا تابع رہنے والوں (خدمت گار) مردوں میں سے (جو) شہوت والے نہیں (ان کے لیے) یا ان بچوں (کے لیے) جو نہیں واقف ہوئے عورتوں کی چھپی باتوں پر اور نہ وہ مارا کریں اپنے پاؤں (زمین پر) تاکہ جانا جائے جو وہ چھپاتی ہیں اپنی زینت سے اور اے ایمان والو!تم سب توبہ کرو اللہ کی طرف ، تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ ‘‘۔
3۔ کسی کے گھر میں بغیر اجازت داخل نہ ہونا: اللہ تبارک وتعالیٰ نے برائی کی روک تھام کے لیے جہاں مختلف تدابیر بتلائی ہیں وہیں پر ایک تدبیر یہ بھی ہے کہ کسی کے گھر میں اجازت اور سلام کے بغیر داخل نہ ہوا جائے اور اگر پلٹنے کا کہا جائے تو انسان کو وہاں سے پلٹ آنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر 27سے 29میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ داخل ہوا کرو (دوسرے) گھروں میں اپنے گھروں کے علاوہ‘ یہاں تک کہ تم انس حاصل کرلو (یعنی اجازت لے لو ) اور سلام کر لو ان کے رہنے والوں پر ۔یہی بہتر ہے تمہارے لیے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ پھر اگر تم نہ پاؤ ان میں کسی ایک کو تو تم نہ داخل ہو ان میںیہاں تک کہ تم کو اجازت دی جائے۔ اور اگر تم سے کہا جائے واپس چلے جاؤ تو واپس ہو جایا کرو‘ وہ زیادہ پاکیزہ ہے تمہارے لیے، اور اللہ‘ اس کو جو تم عمل کرتے ہو‘ خوب جاننے والا ہے۔ نہیں ہے تم پر کوئی گناہ کہ تم داخل ہو جاؤ (ایسے) گھروں میں (کہ) رہائش نہیں کی گئی ان میں (اور ان میں) تمہارے فائدے کی کوئی چیز ہو، اور اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور تم چھپاتے ہو‘‘۔
4۔ اوقات ممنوعہ میں بغیر اجازت کے کسی کمرے میں داخل نہ ہونا:قرآن مجیدمیں تین اوقات کو خلوت کے اوقات قرار دیا گیا ہے ۔ فجر کی نماز سے پہلے، عشاء کی نماز کے بعد اور ظہر کی نماز کے بعد۔ ان اوقات میں بچوں اور خدمت گاروں کو بھی بلا اجازت کسی کے کمرے میں داخل نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تبار ک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر 56میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! چاہیے کہ اجازت طلب کریں تم سے وہ لوگ جن کے مالک بنے تمہارے دائیں ہاتھ اور وہ لوگ (بھی) جو نہ پہنچے ہوں بلوغت کو تم میں سے تین مرتبہ (یعنی تین اوقات میں) ۔فجر کی نماز سے پہلے اور جب تم اتار دیتے ہو اپنے کپڑے‘ دوپہر کو اور عشاء کی نماز کے بعد۔ (یہ) تینوں پردے (خلوت) کے اوقات ہیں تمہارے لیے۔ نہیں تم پر اور نہ ان پر کوئی گناہ ان کے بعد (یعنی ان اوقات کے علاوہ) بکثرت پھرنے(یعنی آنے جانے) والے ہیں تم پر تمہارے بعض‘ بعض پر اسی طرح اللہ کھول کھول کر بیان فرما رہا ہے تمہارے لیے (اپنی) آیتیں (احکام) اور اللہ خوب علم والا کمال حکمت والا ہے‘‘۔
5۔ نکاح میں بلاوجہ تاخیر سے اجتناب: ہمارے معاشروں میں یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ بالعموم بغیر کسی معقول وجہ کے نکاح کو خواہ مخواہ مؤخر کر دیا جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلامِ حمید میں نکاح کرنے کی ترغیب دی ہے اور معیشت کی تنگی کے ڈر سے نکاح نہ کرنے والوں کو اس بات کی خبر دی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے فضل وکرم سے نکاح کرنے والوں کو غنی فرما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر 32ارشاد فرماتے ہیں: ''اور نکاح کرو بے نکاح (مردوں اور عورتوں کا) اپنے میں سے اور (ان کا جو) نیک ہیں تمہارے غلاموں میں سے اورتمہاری لونڈیوں (میں سے)۔ اگر وہ ہوں گے محتاج (تو) غنی کردے گا اُنہیں اللہ اپنے فضل سے‘‘۔
6۔ والدین اور علماء کی ذمہ داری: برائی کی روک تھام کے لیے علماء اور والدین کو اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہیے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کی مشاغل اور ان کے دوست احباب پرکڑی نظر رکھیں ۔ علماء کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو برائی کے نقصانات سے آگاہ کریں اور سورہ نور اور سورہ احزاب میں بیان کردہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات کو لوگوں کے سامنے رکھیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نور میں برائی کی روک تھام کی مذمت کرتے ہوئے اس کی نشرواشاعت کو پسند کرنے والوں کو درد ناک عذاب کی وعید سنائی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر 19میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک وہ لوگ جو پسند کرتے ہیں کہ پھیلے بے حیائی ان لوگوں میں جو ایمان لائے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں‘‘۔
7۔ کڑی سزاؤں کا نفاذ: اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں برائی کے مرتکب افراد کے لیے کڑی سزاؤں کا اعلان کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر 2میں ارشاد فرماتے ہیں: ''زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والا مرد‘ پس کوڑے مارو ان دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے اور نہ پکڑے تمہیں ان دونوں سے متعلق نرمی اللہ کے دین میں اگر ہو تو ایمان لاتے اللہ اور یوم آخرت پر اور چاہیے کہ حاضر ہوں ان دونوں کی سزا کے وقت مومنوں میں سے ایک گروہ ‘‘۔ قرآن مجیدکی آیات میں کوڑوں کی جس سزا کو بیان کیا گیا ہے احادیث طیبہ کے مطابق وہ سزا کنوا رے بد کرداروں کے لیے ہے جبکہ شادی شدہ زنا کاروں کو سنگسار کرنا چاہیے۔
سورہ نور کی آیت مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے ان سزاؤں کے قیام کے وقت مومنوں کی ایک جماعت کو موقع پر موجود ہونا چاہیے۔ گویا کہ سزا کو اعلانیہ ہونا چاہیے تاکہ معاشرے میں بدطینت اور بدکرداری کا ارتکاب کرنے والے عناصر کو اس بات کا پیغام دیا جاسکے کہ ان کے ساتھ اس حوالے سے کسی رو رعایت کو نہیں برتا جائے گا۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان کی قومی اسمبلی نے بچوں کے ساتھ برائی کا ارتکاب کرنے والوں کو اعلانیہ سزا دینے کے حوالے سے ایک متفقہ قرار داد کو منظور کیا تھا۔ اب وقت آ چکا ہے کہ اس قرار داد پر سختی کے ساتھ عمل کیا جائے اور معاشرے میں برائی کی بیخ کنی کے لیے معاشرے کے تمام طبقات پوری طرح یکسو ہو جائیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے معاشرے کو برائیوں سے پاک کرکے ایک پاکیزہ اور طاہر معاشرے میں تبدیل کر دے، آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں