اس پارے کا آغاز سورہ ہود سے ہوتا ہے۔ سورہ ہود کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کا ذکر کیا ہے کہ زمین پر چلنے والا کوئی چوپایہ ایسا نہیں‘ جس کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمے نہ ہو اور اللہ تعالیٰ اس کے ٹھکانے کو اور اس کے پلٹنے کی جگہ کو نہ جانتے ہوں اور یہ ساری تفصیل لوحِ محفوظ میں محفوظ ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے ان اقوام کا ذکر کیا‘ جو اپنی نافرمانیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنیں۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم بتوں کی پوجا کرتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے نبی نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو شرک سے باز رہنے کی تلقین کی‘ مگر انہوں نے جناب نوح علیہ السلام کا شدید مذاق اڑایا۔ اللہ تعالیٰ نے جناب نوح علیہ السلام کی مدد فرمائی۔ آسمان اور زمین سے بارش اور سیلاب کی شکل میں پانی جاری کر دیا جس کی زد میں جناب نوح علیہ السلام کا بیٹا اور نافرمان بیوی سمیت تمام کافر آ گئے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کا ذکر کیا کہ قومِ عاد بھی قومِ نوح کی طرح شرک کی بیماری میں مبتلا تھی۔ جناب ہود علیہ السلام اُن کو اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دیتے رہے لیکن انہوں نے جناب ہود علیہ السلام کی ایک نہ سنی۔ قوم عاد کو اپنی طاقت پر گھمنڈ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک طاقتور طوفانی ہوا کو ان پر مسلّط کر دیا‘ جس نے قوم ہود کو اکھاڑ کر پھینک دیا اور اپنی طاقت پر ناز کرنے والے زمین پر یوں پڑے تھے‘ جس طرح کٹے ہوئے درخت کی شاخیں ہوتی ہیں۔
قومِ عاد کے بعد اللہ تعالیٰ نے قومِ ثمود کا ذکر کیا۔ قومِ ثمود کے لوگ بھی اللہ تعالیٰ کی توحید کو فراموش کر چکے تھے۔ قومِ ثمود کے لیے اللہ نے اپنی ایک نشانی کو ظاہر فرمایا۔ اللہ کے حکم سے بستی کی ایک بڑی پہاڑی پھٹی‘ جس سے ایک اونٹنی نکلی۔ اس اونٹنی نے باہر نکلتے ہی بچہ دیا مگر بستی کے لوگوں نے اتنے بڑے معجزے کو دیکھ کر ایمان لانے کے بجائے اونٹنی کے پیروں کو کاٹ دیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ غضبناک ہوئے اور ان پر ایک چنگھاڑ کو مسلط کر دیا۔ فرشتے نے چیخ ماری اور اس چیخ کی وجہ سے بستی کے لوگوں کے بھیجے اور دماغ پھٹ گئے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قومِ لوط کا ذکر کیا۔ قومِ لوط کے لوگ ہم جنس پرستی کی عادتِ بد کا شکار تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قومِ لوط کے پاس عذاب والے فرشتے بھیجے اور ان فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ بدکاروں کی اس بستی پر عذاب مسلّط کر دیں۔ فرشتوں نے بستی کو اپنے پروں پر اٹھاکر زمین پر پھینک دیا اور پوری بستی کو پتھروں سے کچل دیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قومِ مدین کا ذکر کیا جو شرک کی برائی کے ساتھ ساتھ ناجائز منافع خوری کا شکار تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر اسی طرح کی چیخ کو مسلّط کر دیا‘ جس چیخ کے ساتھ قوم ثمود تباہ ہوئی تھی۔
سورہ یوسف
سورہ ہود کے بعد سورہ یوسف ہے۔ سورہ یوسف میں اللہ تعالیٰ نے جناب یوسف علیہ السلام کے واقعے کو بیان کیا ہے۔ جناب یوسف علیہ السلام نے بچپن میں ایک خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے‘ سورج اور چاند انہیں سجدہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے والد گرامی پیغمبر ِ خدا حضرت یعقوب علیہ السلام سے اپنا یہ خواب بیان کیا‘ تو جناب یعقوب علیہ السلام نے فرمایا کہ اے بیٹے‘ آپ نے اپنا خواب اپنے بھائیوں کو بیان نہیں کرنا‘ اس لیے کہ وہ یہ خواب سننے کے بعد حسد کا شکار ہو جائیں گے۔
ادھر یہ معاملہ ہو رہا تھا‘ اُدھر جناب یوسف علیہ السلام کے سوتیلے بھائی آپس میں مشورہ کر رہے تھے کہ ہم جوان ہیں‘ لیکن بابا یعقوب‘ جناب یوسف ہی سے پیار کرتے ہیں‘ کیوں نہ کسی بہانے سے بھائی یوسف کو بابا سے علیحدہ کر دیا جائے تاکہ ہم ان کے منظورِ نظر بن سکیں۔ بھائی اکٹھے ہو کر جناب یعقوب علیہ السلام کے پاس آئے اور کہا کہ آپ بھائی یوسف کو ہمارے ساتھ کیوں روانہ نہیں کرتے‘ وہ ہمارے ساتھ جنگل کی طرف جائیں اور ہم ان کے ساتھ کھیلیں۔ جناب یعقوب علیہ السلام نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم اپنے کاموں میں مصروف ہو جائواور کوئی بھیڑیا اس کو نہ کھا جائے۔ بھائیوں نے کہاکہ بابا ہم جوان ہیں اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمار ے ہوتے ہوئے کوئی بھیڑیا ہمارے بھائی کو کھا جائے۔ جناب یعقوب علیہ السلام نے ان یقین دہانیوں پر جناب یوسف علیہ السلام کو اپنے بیٹوں کے ساتھ روانہ کر دیا۔ جناب یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے جناب یوسف کو ایک کنویں میں پھینک دیا اور رات کے وقت روتے ہوئے جناب یعقوب علیہ السلام کے پاس آگئے کہ بھیڑیا یوسف علیہ السلام کو کھا گیا ہے۔ اس پر جناب یعقوب علیہ السلام نے کہا کہ میں صبر کروں گا‘ اللہ کو پتا ہے کہ حقیقت کیا ہے۔
جناب یوسف علیہ السلام جس کنویں میں موجود تھے‘ وہاں سے ایک قافلے والوں کا گزر ہوا‘ انہوں نے پانی نکالنے کے لیے کنویں میں ڈول ڈالا‘ جناب یوسف علیہ السلام ڈول سے لٹک کر کنویں سے باہر نکل آئے۔ اہل قافلہ مصر جا رہے تھے‘ انہوں نے جناب یوسف علیہ السلام کو مصر کے ایک بڑے گھرانے میں فروخت کر دیا۔ جناب یوسف علیہ السلام کی خوبصورتی اور وجاہت کو دیکھ کر اس گھر کے مالک‘ جو عزیز مصر تھا‘ نے اپنی اہلیہ کو کہا کہ جناب یوسف علیہ السلام کو اپنا بیٹا بنا لیں گے‘ امید ہے کہ یہ ہمیں فائدہ پہنچائیں گے۔ جناب یوسف علیہ السلام جب جوان ہوئے تو گھر کی مالکن ان پر بُری نظر رکھنے لگی اور ایک دن اس نے ان کو بُرائی کی دعوت دی‘ جس کو جناب یوسف علیہ السلام نے ٹھکرا دیا۔ اس عورت نے جناب یوسف علیہ السلام پر بُرائی کا الزام لگا دیا لیکن اللہ نے محل میں ایک بچے کو قوتِ گویائی عطا کر کے جناب یوسف علیہ السلام کو اس الزام سے بری کرا دیا۔
عزیز مصر کی بیوی فتنے کا شکار تھی‘ اس نے جناب یوسف علیہ السلام کو مصر کی دیگر عورتوں سے مل کر فتنے کا نشانہ بنانا چاہا تو جناب یوسف علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگی کہ اللہ! مجھے برائی سے بچا کر جیل میں پہنچا دے۔ اللہ نے جناب یوسف علیہ السلام کی دعا کو قبول فرما کر ان کو جیل میں پہنچا دیا۔ جیل میں آپ کی ملاقات دو قیدیوں سے ہوئی۔ ان دونوں قیدیوں نے اپنے خواب‘ حضرت یوسف علیہ السلام کو بتلائے۔ ایک قیدی نے خواب دیکھا کہ وہ انگوروں کو نچوڑ رہا ہے جبکہ دوسرے قیدی کو خواب آیا کہ اس کے سر پر روٹیاں ہیں‘ جن سے پرندے کھانا کھا رہے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے پہلے تو قیدیوں کوتوحید کی دعوت دی اور اس کے بعد فرمایا کہ ایک آدمی بادشاہ کا ساقی بنے گا‘ جبکہ دوسرے کو پھانسی ہو جائے گی‘ جس آدمی نے بادشاہ کا ساقی بننا تھا‘ اس کو جناب یوسف علیہ السلام نے کہا کہ بادشاہ کو بتلانا کہ جیل میں ایک بے گناہ قیدی پڑا ہے‘ لیکن آزاد ہونے والا قید ی یہ بات بھول گیا اور جناب یوسف علیہ السلام کئی برس تک جیل میں قید رہے۔
اسی اثنا میں بادشاہِ وقت نے ایک خواب دیکھا کہ سات پتلی گائیں سات موٹی گائیوں کو کھا رہی ہیں اور سات سرسبز بالیاں ہیں اور سات خشک بالیاں ہیں۔ اس پر بادشاہ کے ساقی کو جناب یوسف علیہ السلام کی یاد آئی۔ اس نے کہا کہ بادشاہ سلامت! جیل خانے میں ایک بہت بڑا عالم فاضل قیدی ہے‘ جو اس کی صحیح تعبیر بتلا سکتا ہے۔ جناب یوسف علیہ السلام سے جب تعبیر پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ آنے والے سات سال قحط سالی کے ہو ں گے اور اس کے بعد خوشحالی اور ہریا لی ہو گی۔ جناب یوسف علیہ السلام کی تعبیر سننے کے بعد بادشاہ نے کہا کہ انہیں جیل سے بلایا جائے۔ جناب یوسف علیہ السلام نے کہا کہ جب تک میری اعلانیہ بے گناہی ثابت نہیں ہو گی‘ میں جیل سے نہیں نکلوں گا۔ جناب یوسف علیہ السلام کے مطالبے پر عزیز مصر کی بیوی نے برملا جناب یوسف علیہ السلام کو پاک دامن قرار دیا۔ جس کے بعد جناب یوسف علیہ السلام جیل سے باہر آنے پر آمادہ ہو گئے۔ جناب یوسف علیہ السلام کا باقی واقعہ تیرہویں پارے میں بیان ہو گا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں قرآن مجید فرقان حمید پڑھنے‘ سمجھنے اور اس میں بیان کردہ واقعات سے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق دے، آمین!