بیسویں پارے کا آغاز سورہ نمل سے ہوتا ہے ۔بیسویں پارے کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت کے ساتھ اپنی قوتِ تخلیق اور توحیدکا ذکر کیا ہے ۔اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ کے سوا کون ہے جس نے زمین و آسمان کو بنایا ہو اور آسمان سے پانی کو اتارا جس کی وجہ سے مختلف قسم کے باغات اُگتے ہیں اور فرمایا کون ہے جس نے زمین کو قرار دیا ہے اور اس میں پہاڑوں کو لگایا ہو اور اس میں نہروں کو جاری فرمایا ہو ؟
کیا اللہ کے سوا بھی کوئی الہ ہے؟ اور مزید کہا کہ اللہ کے سوا کون ہے جو بے قراری کی حالت میں کی گئی دعائوں کو سننے والا ہو اور جو تکلیف پہنچتی ہے اس کو دور فرمانے والا ہو ۔اور اللہ کے سوا کون ہے جو خشکی اور رات کی تاریکی میں انسانوں کی رہنمائی فرمانے والا ہو اور کون ہے جو خوشخبری دینے والی ہوائوں کو بھیجنے والا ہو اور کہا کیا اللہ کے سوا بھی کوئی معبود ہے جو تخلیق کا آغاز کرنے والا ہو اوردوبارہ اس کو زندہ کرنے والا ہو اور کون ہے جو زمین و آسان سے رزق عطا فرمانے والا ہو اس کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں اگر تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو اس کو سنائو اگر تم سچے ہو۔
سورہ نمل کے بعد سورہ قصص ہے ۔سورہ قصص میں اللہ تعالیٰ نے جنابِ موسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا ذکر کیا ہے۔ فرعون ایک برس بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرواتا اور ایک سال ان کو زندہ چھوڑ دیتا تھا ۔جنابِ موسیٰ علیہ السلام اس سال پیدا ہوئے جس سال فرعون نے بچوں کے قتل کا حکم دے رکھا تھا ۔اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی والدہ پر وحی کو نازل فرمایا کہ ان کو دودھ پلائیں‘ جب خدشہ ہو کہ فرعون کے ہر کارے آپہنچے ہیں تو ان کو جھولے میں لٹا کر سمندر کی لہروں کی نذر فرما دیں۔ جناب موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے ایسے ہی کیا۔جب خطرہ محسوس ہوا تو ان کو جھولے میں بٹھا کر سمندر کی لہروں کی نذر فرمادیا ۔
سمندر کی لہروں نے جھولے کو فرعون کے محل تک پہنچا دیا۔فرعون کی اہلیہ جنابِ آسیہ نے جھولے میں ایک خوبصورت بچے کو آتے دیکھا تو فرعون سے کہا کہ اسے قتل نہ کریں یہ میری اور آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن جائے گا‘ ہم اس کو بیٹا بنا لیں گے اور یہ ہمارے لیے نفع بخش بھی ہو سکتا ہے ۔فرعون نے جناب ِآسیہ کی فرمائش پر جناب موسیٰ علیہ السلام کو شہید کرنے کا ارادہ ملتوی کردیا اور ان کو پالنے پر آمادہ و تیار ہو گیا ۔ادھر موسیٰ علیہ السلام کی بہن بھی تعاقب کرتے کرتے فرعون کے محل تک پہنچ گئیں ۔فرعون نے اعلان کر دیا کہ مجھے اس بچے کے لیے ایک دایہ کی ضرورت ہے ۔بہت سی دایائوں نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو دودھ پلانے کی کوشش کی مگر اللہ تعالیٰ نے دایائوں کو جنابِ موسیٰ علیہ السلام پر حرام فرما دیا ۔
یہاں تک کہ جناب موسیٰ علیہ السلام کی بہن آگے بڑھیں اور کہنے لگیں کہ کیا میں آپ کو ایک ایسے خانوادے سے آگاہ نہ کروں جو آپ کے لیے اس بچے کی کفالت کر دے ۔فرعون نے کہا اس خاندان کو بھی آزمالینا چاہیے۔ جناب موسیٰ علیہ السلام کی والدہ فرعون کے محل میں پہنچیں۔ موسیٰ علیہ السلام کو اپنی گود میں لیا تو جناب موسیٰ علیہ السلام نے فوراًدودھ پینا شروع کر دیا ۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا عجیب منظر ہے کہ دشمن موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو دودھ پلانے کی اُجرت دے رہا تھا ۔
موسیٰ علیہ السلام فرعون کے محل میں پرورش پاتے ہیں۔ جب جوان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو علم و حکمت سے بہرہ ور فرما دیا ۔ایک دن جناب ِموسیٰ علیہ السلام شہر میں داخل ہوتے ہیں ۔کیا دیکھتے ہیں کہ فرعون کے قبیلے کا ایک آدمی بنی اسرائیل کے ایک آدمی کے ساتھ لڑ رہا ہے ۔بنی اسرائیل کے آدمی نے جب موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا تو اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی دہائی دی ۔جناب موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے آدمی کی حمایت میں فرعونی کو زور دار تھپڑ دے مارا ۔تھپڑ مارنے کی دیر تھی کہ وہ آدمی ضربِ کلیم کی تاب نہ لاتے ہوئے مر گیا ۔
جناب موسیٰ علیہ السلام کا اسے قتل کرنے کا ارادہ نہ تھا۔ جب آپ نے یہ منظر دیکھا تو آپ نے پروردگارعالم سے توبہ و استغفار کی ۔ اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کی توبہ اور استغفار کو قبول کر لیا ۔ اسی اثنا میں موسیٰ علیہ السلام کو اس بات کی اطلاع ملی کہ فرعون کے ہرکارے ان کو تلاش کر رہے ہیں۔آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی کو طلب کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کی رہنمائی کی اور ان کو مدین کے گھاٹ پر پہنچا دیا ۔
موسیٰ علیہ السلام مدین کے گھاٹ پر پہنچے تو دیکھا کہ لوگ پانی نکالنے کے لیے قطاروں میں کھڑے ہیں اور وہاں پر دو لڑکیاں بھی پانی لینے آئی تھیں لیکن رش کی وجہ سے پانی لینے سے قاصر تھیں ۔جناب موسیٰ علیہ السلام نے ان کے لیے پانی نکالا اور ایک طرف ہٹ کر سائے میں بیٹھ گئے ۔بھوک اور پیاس کو محسوس کیا تو پروردگار عالم سے دعا مانگی اے میرے پروردگار تو میری جھولی میں خیر کو ڈال دے۔ دعا مانگنے کی دیر تھی کہ یکا یک انہیں دو لڑکیوں میں سے ایک لڑکی انتہائی شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی جناب موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئی اور کہا کہ میرے بابا آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ جو آپ ہمارے کام آئے ہیں اس کا آپ کو صلہ دیا جاسکے ۔جناب موسیٰ علیہ السلام مدین کے بزرگ شخص کے پاس پہنچے۔ بہت سے مفسرین کے مطابق وہ جناب شعیب علیہ السلام تھے۔آپ نے ان کو اپنے حالات سے آگاہ کیا تو جناب شعیب علیہ السلام نے کہا کہ آپ میرے پاس رہیں اور آپ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کی شادی بھی اپنی بیٹی سے کردی۔
موسیٰ علیہ السلام دس برس تک جنابِ شعیب کے پاس مقیم رہے اور ان کی بکریاں بھی چراتے رہے ۔دس برس کے بعد جنابِ موسیٰ علیہ السلام نے وطن واپسی کاارادہ کیا۔ راستے میں سردی کا ا حساس ہوا۔ طور پہاڑ کے پاس سے گزرے تو دور سے آگ کو جلتا ہوا محسوس کیا۔ اپنی اہلیہ کو فرمانے لگے کہ تم ذرا ٹھہرو میں طور پہاڑ سے آگ لے کر آتا ہوں اس سے ذرا حرارت پیدا ہو جائے گی ۔جب طور پر پہنچے تو خالق ِکائنات نے آواز دی اے موسیٰ !میں اللہ عزیزو حکیم ہوں ۔اس موقع پر آپ کو اللہ تعالیٰ نے نبوت سے نواز دیا اور آپ کے عصا کو معجزاتی عصا اور آپ کے ہاتھ کو نورانی بنا دیا ۔جنابِ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگی کہ اے پروردگار ! میرے بھائی ہارون علیہ السلام کو بھی نبوت عطا فرمادے اس لیے کہ وہ خطابت اور بلاغت کی صلاحیتوں سے مالامال ہیں۔
اللہ نے آپ کی دعا قبول فرمالی ۔جنابِ موسیٰ علیہ السلام فرعون کے پاس آئے تو فرعون نے آپ کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔موسیٰ علیہ السلام نے ہر طرح اس کو سمجھایا مگر وہ نہ مانا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو پانی میں ڈبو کر ہلاکت کے گڑھے میں گرا دیا ۔
اس کے بعد سورہ عنکبو ت ہے اور اس سورہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو بھی ایمان کا دعویٰ کرے گا اس کو اللہ تعالیٰ ضرور آزمائیں گے جس طرح اللہ نے پہلے لوگوں کو آزمایا تھا اور آزمائش کے بعد اس بات کو واضح کریں گے کہ ایمان کے دعوے میں سچا کون اور جھوٹا کون ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان سابقہ امم اور افراد کا ذکر کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی آزمائش پر ثابت قدم رہے ۔ان لوگوں میں اصحاب الاخدود اور قوم ِموسیٰ کے جادوگر سرِفہرست ہیں جنہوں نے وقت کے حاکموں کے ظلم اور استبداد کی پروا نہ کی اور اللہ کی توحید پر بڑی استقامت کے ساتھ کاربند رہے اور اپنے ایمان کے دعوے کو عمل سے ثابت کیا۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ مشرکوں کی مثال مکڑی کی ہے جو گھر بناتی ہے لیکن اس کی کوئی بنیا د نہیں ہوتی ۔اسی طرح مشرک غیر اللہ کو پکارتے ہیں مگر ان کی پکار میں کوئی وزن نہیں ہوتا ۔بے شک ان کے نظریات مکڑی کے کمزور گھروں کی طرح ہوتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن پڑھنے ‘ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!