نوجوان کسی بھی ملک کی تعمیر وترقی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں اور قوم کے روشن مستقبل کے حوالے سے بزرگوں کی اُن سے بڑی گہری توقعات وابستہ ہوتی ہیں۔ جس قوم کے نوجوان باہمت، باشعور اور باکردار ہوتے ہیں اُس قوم کا مستقبل اللہ کے فضل سے روشن ہوتا ہے۔ اس کے مدمقابل جس قوم کے نوجوان بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں اس قوم کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے۔ جب ہم قرونِ اولیٰ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ نو جوانوں نے دین کی خدمت کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کیا۔ حضرت علی المرتضیٰ ؓ، حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت عبداللہ ابن عمرؓ، حضرت انسؓ بن مالک، حضرت عبداللہ ابن عباسؓ اور حضرت اسامہ بن زیدؓ سمیت بہت سے نوجوان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دینی علم کی ترسیل کے ساتھ ساتھ میدانی اعتبار سے بھی دین کی بھرپور انداز میں خدمت کی۔ جب بھی اسلام کو نوجوانوں کی ضرورت پیش آئی نوجوانوں نے دین کی خدمت کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بدر کے معرکے میں ابو جہل کو ہلاک کرنے والے بھی نوجوان ہی تھے۔ نوجوانوں کی تعلیم وتربیت میں حضرت رسول اللہﷺ خصوصی دلچسپی لیتے رہے اوراُن کی بھرپور انداز سے حوصلہ افزائی بھی فرماتے رہے۔
نبی کریمﷺ نے جن لوگوں کے لیے قیامت کے روز عرش کے سائے کا ذکر کیا ہے اُ ن میں نوجوان بھی شامل ہیں۔ اِس حوالے سے صحیح بخاری کی ایک حدیث درج ذیل ہے: حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :''سات قسم کے آدمیوں کو اللہ تعالیٰ اپنے (عرش کے) سایہ میں رکھے گا جس دن اس کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ انصاف کرنے والا حاکم‘ وہ نوجوان جو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں جوان ہوا ہو‘ وہ شخص جس کا دل ہر وقت مسجد میں لگا رہے‘ ایسے اشخاص جو اللہ کے لیے محبت رکھتے ہیں‘ اسی پر وہ جمع ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے‘ ایسا شخص جسے کسی خوبصورت اور عزت دار عورت نے (گناہ کے لیے) بلایا لیکن اس نے یہ جواب دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں‘ وہ انسان جو صدقہ کرے اور اسے اس درجہ چھپائے کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا اور وہ شخص جو اللہ کو تنہائی میں یاد کرے اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بہنے لگ جائیں‘‘۔ اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ نوجوان جس کی پرورش اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت میں ہوئی ہو اس کو بھی عرش کا سایہ نصیب ہو جائے گا۔
نبی کریم ﷺ نے بہت سی اہم مہمات کی قیادت بھی نوجوانوں کے سپرد کی۔ آپﷺ کا آخری لشکر جس کو آپﷺ کی رحلت کے بعد سیدنا صدیق اکبرؓ نے روانہ کیا‘ اس کی قیادت کرنے والے بھی نوجوان صحابی حضرت اُسامہ بن زیدؓ تھے۔ جب ہم ذخیرہ احادیث کو دیکھتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ احادیث طیبہ کو منتقل کرنے میں بھی نوجوان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کلیدی کردار ادا کیا۔
جب ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑاتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہمارے نوجوان مختلف طرح کے مسائل سے دوچار ہیں ان مسائل کے حل کے حوالے سے والدین، اساتذہ، علماء اور سیاسی رہنماؤں کو اپنی ذمہ داریوں کو بطریق احسن نبھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا نوجوان جن مسائل کا شکار ہے ان میں سے بعض اہم درج ذیل ہیں:
1۔ دین سے دوری: پاکستان کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد دین سے دور ہے اور دنیا ہی کو اپنا مقصد زیست سمجھتی ہے۔ نوجوانوں کی توانائیوں کا بہت بڑا حصہ اپنے پیشہ ورانہ کیریئر کو بنانے اور سنوارنے میں صرف ہوتا ہے۔ نوجوان اپنی توانائیوں کو اس حد تک دنیا کو سنوارنے میں صرف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ نمازِ پنجگانہ اور دیگر ارکانِ اسلام کی پابندی سے بھی پیچھے رہ جاتے ہیں۔ بعض نوجوان مسجد اور دین سے اس حد تک دور ہیں کہ عیدین کی نمازیں یا زیادہ سے نماز جمعہ کے لیے مسجد جاتے ہیں۔ یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ اگر نوجوان معاشی اعتبار سے کامیابی حاصل کر بھی لیں لیکن دینی اعتبار سے پسماندگی کا شکار ہوں تو یہ ان کی ناکامی کی دلیل ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی انسان کی کامیابی کے لیے دنیا کی زندگی کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اخروی زندگی کو بہتر بنانا انتہائی ضروری ہے۔ جو نوجوان اس حوالے ذمہ دارانہ کردار ادا نہیں کرتا اُس کو اپنے معمولات پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے جہاں پر بڑی ذمہ داری نوجوانوں پر عائد ہوتی ہے وہیں اُن کے والدین اور اساتذہ کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ اُن کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم وتربیت کی طرف بھی مائل کریں۔
2۔ احساسِ محرومی اور نفسیاتی مسائل: عصرِ حاضر کا نوجوان مقصد زندگی کو نہ پہچاننے کی وجہ سے جہاں پر بہت جلد احساس محرومی اور بے صبری کا شکار ہو جاتے ہیں وہیں پر بہت سے نوجوان گمبھیر قسم کے نفسیاتی عارضوں کا شکا ر بھی نظر آتے ہیں۔ ڈپریشن، انزائٹی اور دیگر بہت سے نفسیاتی عارضوں کی وجہ سے نوجوانوں کے اعصاب مضحمل ہو جاتے ہیں۔ ایسے نوجوان ملک اور قوم کی خدمت کرنا تو دور‘ اپنے آپ کو سنبھانے سے بھی قاصر ہو جاتے ہیں۔ ان مسائل کا شکار نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد زندگی کے اہم اُمور سے کنارہ کشی اختیار کرنے پر آمادہ وتیار ہو جاتی ہے۔ نوجوانوں کے ان نفسیاتی مسائل کے حل کے لیے جہاں پر اُن کے اعزہ واقارب کو اُن کو حوصلہ دینا اور اُن کو مایوسی سے نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے‘ وہیں پر اُن کو یہ بات بھی سمجھانی چاہیے کہ ان مسائل کے حل کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر، توبہ و استغفار، دُعا اور توکل نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر نوجوانوں کو ان باتوں سے آگاہ کیا جائے تو نوجوانوں کے نفسیاتی مسائل کے حل کی صورت نکل سکتی ہے اور بہت سے نوجوان مایوسی کی دلدل میں اُترنے سے محفوظ ہو سکتے ہیں۔
3۔ بری صحبت : دیگر عصری معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی نوجوانوں کی بڑی تعداد بری صحت کا شکار نظر آتی ہے۔ بری صحت میں مبتلا ہونے والے نوجوان کئی مرتبہ منشیات کے عادی بن جاتے اور کئی مرتبہ چوری، ڈکیتی، قتل وغارت گری جیسی سنگین نوعیت کی سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ نوجوانوں کی صحبت پر کڑی نظر رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ اگر والدین اپنے بچوں کے رویوں، عادات اور معمولات کو بدلتے ہوئے دیکھیں تو اُنہیں اپنے بچوں کی صحبت کے بارے میں سوا ل ضرور کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اس بات کو واضح کیا ہے کہ کئی لوگ غلط صحبت کی وجہ سے راہِ ہدایت سے بھٹک جاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ فرقان کی آیات 27 تا 29 میں فرماتے ہیں: ''اور جس دن دانتوں سے کاٹے گا ظالم اپنے ہاتھوں کو‘ کہے گا: اے کاش میں اختیار کرتا رسول کا بتلایا ہوا راستہ۔ ہائے بربادی! کاش میں نہ بناتا فلاں کو دلی دوست۔ بلاشبہ اس نے مجھے گمراہ کر دیا (اس) ذکر (یعنی قرآن) سے اس کے بعد کہ جب وہ آیا میرے پاس اور یقینا ہے شیطان انسان کو (عین موقع پر) چھوڑ جانے والا (یعنی دغا دینے والا )‘‘۔ اِن آیات مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کئی مرتبہ انسان بری صحبت کی وجہ سے تباہ وبرباد ہو جاتا ہے؛ چنانچہ بری صحبت سے بچانے کے لیے نوجوانوں کے والدین کو اپنا کردار کو نبھانا چاہیے۔
4۔ بے راہ روی: ہمارے معاشرے کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد جنسی بے راہ روی کا شکار بھی نظر آتی ہے۔ گندے پروگرام، مخرب الاخلاق لٹریچر، انٹر نیٹ پر موجود فحش ویب سائٹس اور مواد کو دیکھنے کی وجہ سے نوجوانوں کے اذہان وقلوب پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ جنسی بے راہ روی کے راستے پر چل نکلتے ہیں۔ نوجوانوں کو ان معاملات سے بچانے کے لیے والدین کو بچپن ہی سے اُن کی اچھی تربیت کرنی چاہیے اوراُنہیں حیا داری، پاکدامنی اور اپنی نگاہوں کو جھکانے کا درس دینا چاہیے۔ اسی طرح خواتین اور نوجوان لڑکیوں کو پردہ، نقاب،حجا ب اور حیا کا درس دینا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔ نوجوانوں کو بے راہ روی سے بچانے کے لیے اُن کی جلد شادی کرنا انتہائی اہم ہے۔ اگر ان اُمور پر توجہ دی جائے تو نوجوانوں کو بے راہ روی سے بچایا جا سکتا ہے۔
5۔ والدین سے دوری: ہمارے معاشرے کا ایک اہم مسئلہ والدین اور نوجوانوں کے مابین پائے جانے والے خلا بھی ہیں۔ بہت سے والدین گھریلو نظم کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی اولادوں اور اپنے درمیان ضرورت سے زائد ابلاغی فاصلہ رکھتے ہیں۔ یہ اضافی ابلاغی فاصلہ کسی بھی طور پر معاشرے کے لیے مفید نہیں ہے۔ والدین کو اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ اُنہیں دین اور دنیا کی مفید سرگرمیوں میں اپنی اولاد کو اپنے ہمراہ رکھنا چاہیے۔ اگر والدین اپنی اولاد اور اپنے درمیان ابلاغی فاصلہ کم سے کم رکھیں تو نوجوانوں کی کارکردگی میں بہت زیادہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ قرآنِ مجید کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو تعمیرِ بیت اللہ اور دیگر بہت سے اہم معاملات میں اپنے ہمراہ رکھا۔ اسی طرح حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت لقمان بھی اپنی اولاد کو ایمان، عمل اور حکمت آموز باتوں کا درس دیتے رہے۔ ان عظیم ہستیوں نے بطور والد جس قسم کا کردار اپنایا وہ آج کے والدین کے لیے ایک نمونے کی حیثیت رکھتاہے۔ اگر تمام اہم اُمور پر توجہ دی جائے تو یقینا نوجوانوں کے مسائل کو حل کرکے اُنہیں معاشرے کے لیے مفید کارکن بنایا جا سکتاہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعاہے کہ وہ ہمارے معاشرے کے نوجوانوں کوگمراہی، بے راہ روی اور غلط راستوں سے بچا کر سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق دے تاکہ وہ ملک وملت کی خدمت کا فریضہ احسن انداز میں انجام دے سکیں، آمین!