عصری معاشروں میں عورتوں کے حقوق کی تحریکیں بڑی شدومد سے چلتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ کہیں پر عورت کے پیشہ ورانہ حقوق کی بات کی جاتی ہے تو کہیں پر''میرا جسم میری مرضی‘‘ کے نعرے لگائے جاتے ہیں ۔ اہلِ مغرب پوری دنیا سے اس بات کا تقاضا کرتے نظر آتے ہیں کہ عورتوں کو معاشرے میں وہی حقوق دیے جائیں جو مردوں کو حاصل ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ مساواتِ مردوزن کا یہ نعرہ حقیقت پر مبنی نہیں اور مغرب میں بہت سے مقامات پر عورت کو ثانوی حیثیت دی جاتی ہے۔ امریکا جیسے ملک کے سیاسی عمل میں اگرچہ عورتیں حصہ لیتی ہیں لیکن عرصۂ دراز سے ریاست کا سربراہ مرد ہی نظر آتا ہے۔ پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے دوران عورتوں کے ساتھ جنسی ہراساں کرنے کے واقعات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے مقامات پر عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے کے باوجود کم مشاہرہ حاصل ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود مساواتِ مردوزن کے نعرے نے بہت سے مسلم معاشروں کو متاثر کیا ہے ا ور مسلم ممالک کے بہت سے سیاسی زعما اور دانشور اس حوالے سے مغربی تصورات سے مرعوب نظر آتے ہیں۔ جب ہم اسلامی تعلیمات پر غور کرتے ہیں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام نے خواتین کو جومقام دے رکھے ہیں وہ ہر اعتبار سے مثالی ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے مختلف مقامات پرایمان اور اعمالِ صالحہ کے حوالے سے مردوزن کے درمیان کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں کی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت 195 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک میں نہیں ضائع کروں گا کسی عمل کرنے والے کا عمل تم میں سے‘ مرد ہو یاعورت‘ تم ایک دوسرے سے ہو (یعنی سب برابر ہو) پس جنہوں نے ہجرت کی اور نکالے گئے اپنے گھروں سے‘ ستائے گئے میری راہ میں اور انہوں نے جنگ کی (اللہ کی راہ میں) اور مارے گئے ،ضرور میں مٹادوں گا ان سے ان کے گناہ اور ضرور میں داخل کروں گا انہیں (ایسی) جنتوں میں (کہ) بہتی ہیں اُن (باغات) کے نیچے سے نہریں‘‘۔ اسی طرح سورہ نساء کی آیت 124میں ارشاد ہوا: ''اور جو عمل کرے نیک‘ مرد ہو یا عورت‘ اور وہ ایمان والا ہو تو وہی داخل ہوں گے جنت میں اور نہیں وہ ظلم کیے جائیں گے کھجور کی گٹھلی کے شگاف برابر(بھی)‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نحل کی آیت 97 میں اس حقیقت کو واضح کیا کہ جو کوئی‘ مرد یا عورت‘ ایمان اور عمل صالح والی زندگی گزارے گا اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو حیات طیبہ عطا فرمائیں گے۔ ارشاد ہوا: ''جس نے عمل کیا نیک‘ کوئی مرد ہو یا کوئی عورت‘ اس حال میں کہ وہ مومن ہو تو ضرور بالضرور ہم زندگی بخشیں گے اسے پاکیزہ زندگی‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ احزاب میں بہت سے اچھے اعمال کی انجام دہی کرنے والے مرد اور عورتوں کا ذکر کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ احزاب کی آیت 35میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں اور صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں‘ تیار کررکھے ہیں اللہ نے ان سب کے لیے مغفرت اور اجرعظیم‘‘۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ توبہ میں اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مددگار اور ساتھی ہوتے ہیں جو نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی معاونت کرتے ہیں۔ سورہ توبہ کی آیت نمبر 71میں ارشاد ہوا: ''اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ان کے بعض دوست ہیں بعض کے (یعنی ایک دوسرے کے) وہ حکم دیتے ہیں نیکی کا اور روکتے ہیں برائی سے اور وہ قائم کرتے ہیں نماز اور ادا کرتے ہیں زکوٰۃ اور وہ اطاعت کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کی ۔ یہی (لوگ ہیں کہ ) عنقریب رحم فرمائے گا اُن پر اللہ‘ بے شک اللہ بہت غالب، نہایت حکمت والا ہے‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں مختلف حوالوں سے عورت کے مقام کا ذکر کیا اور ماں کی حیثیت سے اُس کے بلند مقام کو واضح فرمایا ہے اور اس کے ساتھ حسنِ سلوک کی کئی مقامات پر تلقین کی ہے۔ حتیٰ کہ اگر والدین شرک پر ہی کیوں نہ ہوں‘ ان کے ساتھ دنیا کے معاملات میں حسنِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ لقمان کی آیت 15میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور ہم نے وصیت (تاکید) کی انسان کو اپنے والدین کے ساتھ (حسنِ سلوک کی) اُٹھائے رکھا اُسے اُس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری (کے باوجود) اور اُس کا دودھ چھڑانا دو سالوں میں (اور) یہ کہ تُو شکر کر میرا اور اپنے والدین کا‘ میری ہی طرف (تم سب کا) لوٹنا ہے۔ اور اگر و ہ دونوں زور دیں تجھ پر اس پر کہ تو شریک ٹھہرائے میرے ساتھ (اُسے) جو (کہ) نہیں ہے تجھے اُس کا کوئی علم توتم اطاعت نہ کرو اُن دونوں کی اور سلوک کر اُن دونوں سے دنیا میں اچھے طریقے سے اور پیروی کر اُس شخص کے راستے کی جو رجوع کرتا ہے میری طرف‘‘۔
اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی ماؤں کے حقوق کے حوالے سے نہایت احسن انداز میں وضاحت کی گئی ہے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری کی ایک اہم حدیث درج ذیل ہے :
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تم پر ماں اور باپ کی نافرمانی، لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا، (واجب حقوق کی) ادائیگی نہ کرنا اور (دوسروں کا مال ناجائز طریقے پر) دبا لینا حرام قرار دیا ہے۔ اور فضول بات چیت کرنے اور کثرت سے سوال کرنے اور مال ضائع کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔
اسی طرح بیوی کے حقوق کے حوالے سے بھی قرآن مجید کے مختلف مقامات پر نہایت احسن انداز میں تلقین کی گئی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت 228میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور ان (عورتوں) کے لیے (ویسے ہی حقوق ہیں) جس طرح ان پر (مردوں کے حقوق ہیں) دستور کے مطابق اور (البتہ) مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے ‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نساء کی آیت 19میں ارشاد فرمایا کہ شوہروں کو اپنی بیویو ں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا چاہیے۔ ارشاد ہوا: ''اور زندگی بسر کرو اُن کے ساتھ اچھے طریقے سے‘‘۔ جب ہم سیرت النبیﷺ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ نبی کریمﷺ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ بہترین سلوک کیا کرتے تھے، گھریلو کاموں میں ان کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے اور ان کی جملہ ضروریات کو پورا فرمایا کرتے تھے۔ یقینا رسول اللہﷺ کی زندگی میں ہم سب کے لیے بہترین نمونہ ہے۔
اسی طرح جب ہم بیٹیوں کے حوالے سے سیرت النبیﷺ کا مطالعہ کرتے ہیں ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ نبی کریمﷺ خود اپنی بیٹیوں خصوصاً حضرت سیدہ فاطمہؓ سے بہت محبت اور پیار کیا کرتے تھے ۔ آپﷺ ان کی خبر گیری کے لیے اُن کے گھر بھی تشریف لے جایا کرتے تھے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
صحیح بخاری میں حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چکی پیسنے کی تکلیف کی شکایت کی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس آئیں لیکن آپﷺ موجود نہیں تھے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ان کی ملاقات ہوئی تو ان سے اس کے بارے میں انہوں نے بات کی، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے آنے کی اطلاع دی، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود ہمارے گھر تشریف لائے، اس وقت ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے، میں نے چاہا کہ کھڑا ہو جاؤں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یوں ہی لیٹے رہو، اس کے بعد آپﷺ ہم دونوں کے درمیان بیٹھ گئے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگوں نے مجھ سے جو طلب کیا ہے کیا میں تمہیں اس سے اچھی بات نہ بتاؤں؟ جب تم سونے کے لیے بستر پر لیٹو تو چونتیس مرتبہ اللہ اکبر، تینتیس مرتبہ سبحان اللہ اور تینتیس مرتبہ الحمدللہ پڑھ لیا کرو، یہ عمل تمہارے لیے کسی خادم سے بہتر ہے۔
جب ہم کتاب وسنت کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ماں ، بیٹی اور بیوی کے لیے حقوق وراثت کو مقرر کیا ہے۔ اسی طرح عورت کے لیے جہاں پر شادی کے حوالے سے ولی کی رضا مندی ضروری قرار دی گئی ہے وہیں پر اس حوالے سے عورت پر جبر کرنے کی کوئی اجازت نہیں ہے۔ عورت کی عزت وآبرو کے تحفظ کے لیے پردے کو لازم قرار دیا گیا ہے لیکن پردے میں رہتے ہوئے عورت دین اور دنیا کی اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کر سکتی ہے۔ اسی طرح غیر مخلوط ماحول میں عورت اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو بھی احسن انداز میں ادا کر سکتی ہے۔ اسلام کی تعلیمات پر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام نے عورت کو وہ تمام حقوق عطا کیے ہیں جو معاشرے میں باعزت زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہماری خواتین کو شعور دے کہ وہ کتاب وسنت کی تعلیمات پر عمل کرنے والی بن جائیں،آمین !