کسی بھی معاشرے کے توازن کے لیے اس کا اخلاقی اعتبار سے صحت مند ہونا انتہائی ضروری ہے۔ جس معاشرے میں جنسی جرائم پر مبنی خبریں سننے کو ملتی ہوں اس کو کسی بھی اعتبار سے مثالی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مغربی معاشروں میں اخلاقی معیار مشرقی اور مسلم معاشروں سے یکسر جدا ہیں۔ مغرب میں ہر شخص اپنی مرضی سے اپنی خواہشات کو پورا کرنے میں آزاد ہے اوراس حوالے سے اس کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ مغربی معاشروں میں فقط اس عمل کوبرائی تصور کیا جاتا ہے جس میں فریقین میں سے کوئی ایک رضا مند نہ ہو ۔ ان کے یہاں شادی شدہ جوڑے کے درمیان بھی خواہشات کی تکمیل کے لیے فریقین کی رضا مندی ضروری خیال کی جاتی ہے۔ ایک مثالی مسلم معاشرے میں جنسی جرائم کے واقعات بہت کم یا نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ اسی لیے جب ہم قرونِ اولیٰ کے معاشروں کو دیکھتے ہیں تو ان میں تزکیہ اور طہارت کا معیار انتہائی بلند نظر آتا ہے لیکن عصری مسلم معاشروں میں جنسی جرائم کے واقعات تواتر سے ہوتے رہتے ہیں۔ پاکستان کا معاشرہ بھی اس اعتبار سے اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے اور یہاں پر بھی مختلف ایام میں مختلف طرح کی افسوسناک خبریں سننے کو ملتی رہتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل موٹروے پر ایک شادی شدہ خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا واقعہ رونما ہوا جس پر پوری قوم سراپا احتجاج بن گئی۔ اس سے قبل قصور کے قصبے حسین خانوالہ میں ایک بہت بڑ ا سیکنڈل رونما ہوا جس میں بہت بڑی تعداد میں مخرب الاخلاق واقعات کی وڈیوز کی بڑے پیمانے پر تجارت کا انکشاف ہوا لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ اس حوالے سے کوئی فیصلہ کن اقدامات نہ کیے جا سکے۔ کچھ عرصہ قبل کھڈیاں میں رہنے والے ایک قاری صاحبکے بیٹے کے ساتھ بھی ایک المناک واقعہ رونما ہوا جس میں مجرم نے بداخلاقی پر رضا مند نہ ہونے پر قاری صاحب کے جواں سالہ بیٹے کو شہید کر دیا۔ ابھی چند روز قبل قلعہ دیدار سنگھ گوجرانوالہ میں بھی ایک معصوم بچی کے ساتھ بداخلاقی کا واقعہ رونما ہوا جسے پھر قتل کر دیا گیا تھا۔ اس قسم کے واقعات جب بھی کبھی کسی ایسے مقام پر رونما ہوتے ہیں جس سے لوگوں کی روحانی یا مذہبی وابستگی ہوتی ہے تو اس کی کسک پورا معاشرہ زیادہ شدت اور گہرائی کے ساتھ محسوس کرتا ہے۔ اگر اس قسم کا واقعہ تعلیمی ادارے میں رونما ہو تو اس پر بھی غم وغصے کی لہر پورے معاشرے میں دوڑ جاتی ہے۔
بے راہ روی کی روک تھام کے حوالے سے کتاب وسنت کی تعلیمات پر غوروفکر کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 32میں ارشاد فرماتے ہیں:''اور تم مت قریب جاؤ زنا کے‘ بے شک وہ بے حیائی ہے اور برا راستہ ہے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ مومنون کی آیت نمبر 5میں فرودسِ بریں کے وارث اہلِ ایمان کی صفات میں اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ وہ اپنی پاکدامنی کا تحفظ کرتے ہیں۔ ارشاد ہوا: ''اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ فرقان میں جہاں پر عباد الرحمن کی مختلف صفات کا ذکر کیا وہاں پر اس بات کا بھی ذکر کیا کہ وہ شرک ، قتل اور زنا کاری جیسے گناہوں کا ارتکاب نہیں کرتے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ فرقان کی آیات68 تا 69میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور وہ لوگ‘ جو نہیں پکارتے اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو اور نہ وہ قتل کرتے ہیں اس جان کو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو یہ (کام) کرے گا وہ ملے گا سخت گناہ (کی سزا) کو۔ دگنا کیا جائے گا اس کے لیے عذاب قیامت کے دن اور وہ ہمیشہ رہے گااس میں ذلیل ہو کر‘‘۔
کتاب وسنت کے مطالعے سے بدکرداری کی سنگینی کا بہ آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ بدکرداری کی روک تھام کے لیے بہت سی تدابیر کا اختیار کرنا انتہائی ضروری ہے جن میں سے بعض اہم درج ذیل ہیں:
1۔ کتاب وسنت میں بیان کردہ احکامات سے آگاہی: اہلِ ایمان کو کتاب وسنت سے وابستگی اختیار کرنی چاہیے اور برائی کی روک تھام کے لیے جن تدابیر کو بیان کیا گیا‘ ان کی معرفت حاصل کرنی چاہیے۔ قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر برائی کی روک تھام کو نہایت احسن انداز میں بیان کیا گیا ہے‘ خصوصاً سورہ نور میں بہت سی اہم تدابیر کو بیان کیا گیا ہے جن میں مردو زن کا نگاہوں کو جھکانا، عورتوں کا پردہ کرنا، کسی کے گھر میں بغیر اجازت کے داخل نہ ہونا، بے نکاح لوگوں کے نکاح کا اہتمام کرنا، برائی کے ارتکاب کی صورت میں بدکردار مرد اور عورت کو سو (100) کوڑوں کی سزا دینا، پاکدامن عورتوں کو بدنام کرنے والے مردوں پر حدِ قذف یعنی اسی (80) کوڑوں کی سزا کو قائم کرنا، خلوت کے اوقات یعنی فجر کی نماز سے قبل، عشاء کی نماز کے بعد اور ظہر کی نماز کے بعد گھریلو ملازموں اور بچوں کا بغیر اجازت رہائشی کمروں میں داخل نہ ہونا اورفحاشی کی نشرواشاعت کو پسند کرنے والوں کے لیے دنیا اور آخرت میں عذاب الیم کی وعید جیسی اہم باتیں شامل ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہا ں بدکرداری کی روک تھام کے لیے اہم تدابیر کا ذکر کیا وہاں قرآنِ مجید میں ہم جنسی پرستی کی بڑے شدید انداز میں مذمت کی ہے اور حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے واقعہ کو قرآن مجید میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے‘ اس حوالے سے سورہ ہود میں بیان کردہ تفصیل خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ہود کی آیات 77 سے 83 میں قوم لوط کی بے راہ روی اور ان کے انجامِ بد کے حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جب آئے ہمارے قاصد (فرشتے) لوط کے پاس تو وہ مغموم ہوا ان کی وجہ سے اور تنگ ہوا ان کی وجہ سے دل میں اور کہا: یہ دن بہت سخت ہے۔ اور آئے اس کے پاس اس کی قوم (کے لوگ) (گویا کہ) وہ سختی سے ہانکے جا رہے تھے اس کی طرف۔ اور پہلے سے ہی وہ برے کام کیا کرتے تھے۔ اس نے کہا: اے میری قوم! یہ میری بیٹیاں ہیں وہ زیادہ پاکیزہ ہیں تمہارے لیے تو اللہ سے ڈرو ا ور نہ رسوا کرو مجھے میرے مہمانوں (کے معاملے) میں‘ کیا نہیں ہے تم میں کوئی بھلا آدمی؟ انہوں نے کہا: بلاشبہ! یقینا تو جان چکا ہے (کہ) نہیں ہے ہمارے لیے تیری (قوم کی) بیٹیوں میں کوئی حق (رغبت) اور بے شک تو یقینا جانتا ہے جو ہم چاہتے ہیں۔ اس نے کہا: کاش ! ہوتی میرے لیے تمہارے مقابلے کی طاقت یا میں پناہ لیتا کسی مضبوط سہارے کی طرف۔ انہوں (فرشتوں) نے کہا: اے لوط! بے شک ہم قاصد ہیں تیرے رب کے‘ ہرگز نہیں وہ پہنچ سکیں گے آپ تک‘ سو لے چل اپنے گھر والوں کو رات کے کسی حصے میں اور نہ پیچھے مڑکر دیکھے تم میں سے کوئی ایک‘ سوائے تیری بیوی کے، بے شک یہ (یقینی بات ہے کہ ) پہنچنے والا ہے اسے (وہ عذاب) جو پہنچے گا انہیں (تیری قوم کو) بے شک ان کے وعدے کا وقت صبح ہے‘ کیا نہیں ہے صبح بالکل قریب؟ پھر جب آیا ہمارا حکم تو ہم نے کر دیا اس (بستی) کے اوپر والے حصے کو اس کے نیچے والا اور ہم نے برسائے اس (بستی) پر پتھر کھنگر (کی قسم) سے تہ بہ تہ۔ (جو) نشان زدہ تھے تیرے رب کے ہاں سے اور نہیں وہ (بستی اِن ) ظالموں (اہلِ مکہ)سے ہرگز دور‘‘
2۔والدین‘ اساتذہ اور علماء کی ذمہ داری: جہاں پر کتاب وسنت سے وابستگی اختیار کرنا انتہائی ضروری ہے وہاں پر اپنے بچوں اور قوم کے نوجوانوں کی اصلاح کے لیے والدین ، اساتذہ اور علماء کرام کو بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہئیں۔ والدین کو اپنے بچوں کے معمولات پر اور ان کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھنی چاہیے اور ان کی عادات اور صحبت میں تبدیلی کو کسی بھی طور پر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بچے کے معمولات اور دوستی میں کوئی تبدیلی رونما ہوتی ہے تو یہ مثبت علامت نہیں ہے۔ اساتذہ کو بھی تزکیہ اور طہارت کے حوالے سے طالبعلموں کی احسن اندازمیں تربیت کرنی چاہیے اور علماء کرام کو جمعہ کے خطبات اور دروس میں بے حیائی کی سنگینی سے قوم کے نوجوانوں کو آگاہ کرنا چاہیے۔
3۔ کڑی سزاؤں کا نفاذ: جرائم کی روک تھام کے لیے معاشرے میں کڑی سزاؤں کا نفاذ انتہائی ضروری ہے۔ اسلام میں غیر شادی شدہ زانی کے لیے سو (100) کوڑوں کی سزا کو مقرر کیا گیا ہے جبکہ شادی شدہ زانی کے لیے سنگسار کی سزا مقرر ہے، جبکہ واقعے کی سنگینی کے لحاظ سے سزا کی شدت میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ میں بھی سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو کڑی اور اضافی سزائیں دی گئیں۔
کچھ عرصہ قبل قومی اسمبلی میں اس قرار داد کو پاس کیا گیا تھا کہ معصوم بچوں کے ساتھ برائی کا ارتکاب کرکے ان کو قتل کرنے والوں کو سرعام سزائے موت دی جائے گی۔ اگر قومی اسمبلی کے منظور کردہ بل پر اس کی روح کے مطابق عمل کر لیا جائے تو یقینا برائی میں نمایاں کمی آ سکتی ہے۔ مذکورہ بالا نکات پر عمل کرنے سے یقینا معاشرے میں بے راہ روی کے انسداد میں معاونت حاصل ہو سکتی ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے معاشرے کو پاک ، صاف اور طاہر معاشرے میں تبدیل فرمائے، آمین !