کسی بھی معاشرے کے استحکام کے لیے نظامِ عدل کا پایا جانا انتہائی ضروری ہے۔ جس معاشرے میں عدل کے بجائے ظلم عام ہو جاتا ہے اس معاشرے میں احساسِ محرومی، بے چینی، بے قراری، عدم اطمینان اور بدامنی جنم لیتے ہیں۔ معاشرے میں مختلف طرح کی سوچ وفکر کے حامل لوگ پائے جاتے ہیں۔ ان تمام لوگوں کو معاشرتی نظم میں پرونے کے لیے عدل وانصاف کا راستہ اختیار کرنا انتہائی ضروری ہے۔ عدل کا مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کو اس مقام پر رکھا جائے جو اس کا حق ہے اور اس کے برعکس ظلم کا مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کو ایسی جگہ پر رکھ دیا جائے جو اس کا محل نہیں ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی ذات کے ساتھ کیے گئے شرک کو بھی ظلمِ عظیم قرار دیا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ لقمان کی آیت نمبر 13میں حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو کی گئی نصیحت کو بیان فرماتے ہیں: ''اور جب کہا لقمان نے اپنے بیٹے سے جب کہ وہ نصیحت کر رہا تھا اُسے‘ اے میرے بیٹے ! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا، بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ سورہ انعام میں بھی اپنی ذات کے ساتھ کیے گئے شرک کو ظلم قرار دیا ہے اور ایمان میں اس آمیزش نہ ہونے صورت میں امن اور ہدایت کی ضمانت دی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ انعام کی آیات 80 تا 82 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جھگڑا کیا (ابراہیم علیہ السلام ) سے ان کی قوم نے‘ انہوں نے کہا: کیا تم جھگڑتے ہو، مجھ سے اللہ کے بارے میں حالانکہ یقینا اُسی نے مجھے ہدایت دی اور نہیں میں ڈرتا (ان سے) جن کو تم شریک بناتے ہو اس (پروردگار) کا مگر یہ کہ چاہے میرا رب کچھ بھی۔ احاطہ کیے ہوئے ہے میرا رب ہر چیز کا (اپنے) علم سے۔ توکیا نہیں تم غور کرتے؟ اور کیسے میں ڈروں (ان سے) جن کو تم نے شریک بنایا ہے اور نہیں تم ڈرتے کہ بے شک تم نے شریک بنایا اللہ کا جو (کہ) نہیں اس نے اُتاری اس کی تم پر کوئی دلیل۔ تو(بتاؤ) کون ہے دونوں فریقوں میں سے زیادہ حقدار امن کا اگر ہو تم جانتے۔ جو لوگ ایمان لائے اور نہیں مخلوط کیا اپنے ایمان کو ظلم (شرک) سے‘ وہی ہیں(کہ) ان کے لیے ہی امن ہے اور وہی ہدایت پانے والے ہیں‘‘۔
اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ کیا گیا شرک ظلمِ عظیم ہے اور اس کے بعد مخلوق کی حق تلفی کرنا بھی ظلم ہے اور اس کی دو بڑی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ اپنے اعزہ واقارب کی حمایت میں کسی کے ساتھ نا انصافی کی جائے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ کسی کی عداوت کی وجہ سے اُس سے زیادتی کی جائے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان دونوں صورتوں کو قرآن کریم میں منع فرما دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 135میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! ہو جاؤ انصاف پر قائم رہتے ہوئے گواہی دینے والے اللہ کی خاطر۔ اور اگر چہ (یہ گواہی) اپنے آپ کے خلاف ہی ہو یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے (خلاف ہی کیوں نہ ہو) اگر ہو وہ امیر یا فقیر تو اللہ تعالیٰ (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے اُن دونوں کا۔ تو نہ پیروی کرو خواہشِ نفس کی کہ تم عدل (نہ ) کرو اور اگر توڑ مروڑ کر بات کرو گے (گواہی دیتے ہوئے) یا منہ موڑو گے (گواہی دینے سے) تو بے شک اللہ (اُس) پر جو تم عمل کرتے ہو‘ خوب خبردار ہے‘‘۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 8میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! ہو جاؤ قائم رہنے والے اللہ کے لیے گواہی دینے والے انصاف کی۔ اور نہ ہر گز آمادہ کرے تم کو کسی قوم کی دشمنی اس بات پر کہ تم عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ زیادہ قریب ہے تقویٰ کے‘‘۔ قرآنِ مجید کی ان آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کسی کی حمایت یا عناد کی وجہ سے عدل کے دامن کو چھوڑنے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نساء میں اس بات کا بھی ذکر فرمایا ہے کہ امانتوں کو ان کے حقداروں کو دینا چاہیے اور جب فیصلہ کرنا ہو تو اس صورت میں بھی فیصلہ عد ل کے ساتھ کرنا چاہیے۔سورہ نساء کی آیت 58میں ارشاد ہوا: ''بے شک اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے تمہیں کہ تم سپرد کرو امانتیں ان کے اہل کو اور جب تم فیصلہ کرو لوگوں کے درمیان تو فیصلہ کرو عدل کے ساتھ‘ بے شک اللہ بہت ہی اچھی تمہیں نصیحت کرتا ہے اس کی‘‘۔
معاشرے میں بہت سی ناہمواریوں، بے اعتدالیوں، ظلم اور جرائم کی وجہ معاشرے میں نظام ِعدل کا کمزور ہونا ہے۔ بااثر اور امیر لوگوں کی رشوت، سفارش اور دباؤ کی وجہ سے بہت سے کمزور لوگ ظلم وستم کا نشانہ بنتے رہتے ہیں اور بہت سے بااثر لوگ رشوت، سفارش اور دباؤ کی وجہ سے قانون کے شکنجے سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حبیب حضرت رسول اللہﷺ نے اپنی پوری زندگی میں عدل کی تلقین کی اور کسی بھی سفارش کو عدل اور انصاف کے قیام کے راستے میں حائل نہیں ہونے دیا۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
صحیح بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے کہ غزوۂ فتح (مکہ) کے موقع پر ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں چوری کر لی تھی۔ اس عورت کی قوم گھبرائی ہوئی حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے پاس آئی تاکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کی سفارش کر دیں (کہ اس کا ہاتھ چوری کے جرم میں نہ کاٹا جائے)۔ جب حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے اس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخِ انور کا رنگ بدل گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم مجھ سے اللہ کی قائم کی ہوئی ایک حد کے بارے میں سفارش کرنے آئے ہو؟ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے فوری عرض کیا: میرے لیے دعائے مغفرت کیجئے، یا رسول اللہﷺ! پھر دوپہر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خطاب کیا، اللہ تعالیٰ کی شان کے مطابق اس کے تعریف کرنے کے بعد فرمایا: امابعد! تم میں سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہو گئے کہ اگر ان میں سے کوئی معزز شخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے لیکن اگر کوئی کمزور چوری کر لیتا تو اس پر حد قائم کرتے اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹوں گا‘‘۔ اس حدیث پاک سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلام کے نظامِ عدل میں سفارش اور اقربا پروری کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ اسی طرح جرم کے ارتکاب کی صورت میں بھی معاشرے میں باقاعدہ طور پر گروہ بندی سامنے آتی ہے اور کسی بھی طبقے سے وابستہ فرد کے جرم کے ارتکاب کے بعد اس طبقے میںمجرم کی بے جا حمایت نظر آتی ہے اور کسی دوسرے طبقے سے اگر کوئی جرم کا ارتکاب کرے تو اس پر اضافی تنقید کی جاتی ہے۔ اگر معاشرے میں صحیح معنوں میں عدل کا نفاذ ہو تو معاشرے میں جرائم کا بہ آسانی خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح گھریلو نا ہمواریوں کی بہت بڑی وجہ بھی نا انصافی ہے۔ کئی مرتبہ گھرکے بڑے افراد اپنی بزرگی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے چھوٹوں کا استحصال کرتے ہیں اور کئی مرتبہ گھر کے کم عمر لوگ اپنی جوانی اور بزرگوں کی کمزوری کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ان کی بے ادبی اور حق تلفی کرتے ہیں۔ اس ناانصافی کی وجہ سے گھریلو نظام میں نا ہمواری پیدا ہوتی ہے اور ظلم کی وجہ سے گھر میں نوجوان یا بڑے افراد میں سے کسی نہ کسی کی حق تلفی ہو جاتی ہے۔ رشتوں میں توازن کو برقرار رکھنا گھر کے تمام افراد کی ذمہ داری ہے۔
اگر گھروں میں نا انصافی کے بجائے عدل اور احسان کا دور دورہ ہو جائے تو گھریلو مسائل کا بہ آسانی خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نحل کی آیت نمبر 90میں عدل اور اہمیت کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ''بے شک اللہ حکم دیتا ہے عدل اور احسان کا اور قرابت والوں کو دینے کا اور وہ روکتا ہے بے حیائی سے اور برے کام اور سرکشی (سے)‘ وہ نصیحت کرتا ہے تمہیں تاکہ تم نصیحت حاصل کرو‘‘۔ اس آیت مبارکہ کو زندگی کے تمام شعبوں میں ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔
ہمارے ملک کے سیاسی کلچر میں بے اعتدالی کی بہت بڑی وجہ بھی نا انصافی ہے۔ اگر مخالف جماعت کا کوئی لیڈر یا رہنما کوئی غلطی کرے تو ہم فوراً سے پہلے اس پر تنقید کرنے پر آمادہ وتیار ہو جاتے ہیں لیکن جب اپنی جماعت کا لیڈر یا رہنما کوئی غلطی کرے تو اس کے دفاع کے لیے طرح طرح کی تاویلات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ان رویوں نے معاشرتی ہم آہنگی کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ معاشرے کو ہم آہنگ، مضبوط اور مربوط بنانے کے لیے عدل اور انصاف کا قیام انتہائی ضروری ہے۔ اسی طریقے سے ہم معاشرے کو ترقی کے راستے پر گامزن کر سکتے ہیں اور اپنے گھریلو، سماجی اور سیاسی خلفشار پر قابو پاسکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعاہے کہ وہ ہمارے معاشرے کو عدل اور انصاف کا گہوارہ بنائے، آمین !