گزشتہ چند دنوں کے دوران ملک کے طول وعرض میں وزیراعظم عمران خان کے ایک بیان کے حوالے سے مختلف طرح کی آرا اور تبصرے سننے کو مل رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ بات کہی کہ عورتوں کے مختصر لباس کے مردوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس بیان پر اپوزیشن جماعتوں نے بالعموم اور خواتین نے بالخصوص زبردست تنقید کی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی خواتین اس حوالے سے سرفہرست ہیں جبکہ مسلم لیگ نون کی خواتین رہنماؤں نے بھی اس حوالے سے سخت ردّعمل کا اظہار کیا ہے اور وزیراعظم کے بیان کو ہر اعتبار سے غلط قرار دیا ہے۔ صحافتی طبقات میں بھی وزیراعظم کے اس بیان پر مختلف طرح کے تبصرے سننے کو مل رہے ہیں۔ اس حوالے سے بعض باتوں پر توجہ دینے اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی شخص کو کسی معاملے پر اپنی رائے رکھنے اور اس کا اظہار کرنے کا پورا حق حاصل ہوتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی رائے سے اگر کوئی شخص اتفاق نہیں بھی کرتا تو اسے وزیراعظم سے اس موضوع پر بیان دینے کا حق نہیں چھیننا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس وقت انسانی نفسیات کا مشاہدہ کیا جاتا ہے یا کتاب وسنت کی تعلیمات پر غور کیا جاتا ہے تو یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ وزیراعظم کابیان انسانی نفسیات اور مذہبی تعلیمات سے ہم آہنگ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نور میں برائی کی روک تھام کے لیے مختلف تدابیر کا ذکرکیا جن میں بدکار مرد اور عورتوں پر حد کو قائم کرنا ، پاکدامن عورتوں پر تہمت لگانے والوں کو حدِ قذف لگانا ،کسی رہائشی جگہ پر بغیر اجازت کے داخل نہ ہونا اور خلوت کے اوقات یعنی فجر کی نماز سے قبل ، عشاء کی نماز بعد اور ظہر کی نماز کے بعد گھر کے بچوں اور ملازموں کا رہائشی کمروں میں بغیر اجازت کے داخل نہ ہونا شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مردوزن کو خصوصیت سے اپنی نظروں کو جھکانے اور اپنی پاکدامنی کا تحفظ کرنے کا حکم دیا ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بے نکاح مرد اور عورتوں کے نکاح کاحکم بھی دیا ہے ۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان تدابیر کے ساتھ ساتھ خصوصیت سے پردے کی اہمیت اجاگر کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت 31 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اورکہہ دیجئے مومن عورتوں سے (بھی) (کہ) وہ نیچی رکھیں اپنی نگاہیں اور وہ حفاظت کریں اپنی شرمگاہوں کی اور نہ وہ ظاہر کریں اپنی زینت کو مگر جو (خود) ظاہر ہو جائے اس میں سے اور چاہیے کہ وہ ڈالے رکھیں اپنی اوڑھنیوں کو اپنے گریبانوں پر، اور نہ وہ ظاہر کریں اپنی زینت (بناؤ سنگھار)کو مگر اپنے خاوندوں کے لیے یا اپنے باپوں (کے لیے) یا اپنے خاوندوں کے باپوں (کے لیے) یا اپنے بیٹوں (کے لیے) یا اپنے شوہروں کے (دیگر) بیٹوں (کے لیے) یا اپنے بھائیوں (کے لیے) یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں (بھتیجوں کے لیے) یا اپنے بہنوں کے بیٹوں (بھانجوں کے لیے) یا اپنی (جیسی دوسری)عورتوں (کے لیے) یا (ان کے لیے) جن کے مالک بنے ان کے دائیں ہاتھ (یعنی زرخرید غلاموں کے لیے) یا تابع رہنے والے (خدمت گار) مردوں میں سے (جو) شہوت والے نہیں (ان کے لیے ) یا ان بچوں (کے لیے) جو نہیں واقف ہوئے عورتوں کی چھپی باتوں پر‘ اور نہ وہ مارا کریں اپنے پاؤں (زمین پر) تا کہ جانا جائے جو وہ چھپاتی ہیں اپنی زینت سے اور تم توبہ کرو اللہ کی طرف‘ اے ایمان والو! تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ‘‘۔
اسی طرح جب ہم سورہ احزاب کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں بھی پردے کے احکامات بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ احزاب کی آیت 59میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے نبی ﷺ! کہہ دیجئے اپنی بیویوں سے اور اپنی بیٹیوں سے اور مومنوں کی عورتوں (سے) (کہ) وہ لٹکایا کریں اپنے اوپر اپنی چادریں یہ (بات) زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچان لی جائیں تو وہ ایذا نہ دی جائیں اور اللہ بہت بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے‘‘۔
ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ مسلمان عورتوں کو اپنا وجود ڈھانکنے کاحکم دیتے ہیں اور اس وجود ڈھانکنے کا بنیادی مقصد برائی سے بچنا اور اپنی عزت و عصمت کا تحفظ کرنا ہے۔ اسی طرح جب ہم احادیثِ مبارکہ پر غورکرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ نبی کریمﷺ نے پردہ داری کے ساتھ ساتھ مردوں کو عورتوں کی خلوت میں جانے سے منع کیا اور عورتوں کی عزت کے تحفظ کے لیے ا نہیں تنہا سفر کرنے سے بھی منع فرمایا۔ اس حوالے سے بعض اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔ جامع ترمذی میں حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''عورتوں کے پاس خلوت (تنہائی) میں آنے سے بچو‘‘۔
2۔ مسند احمد میں سیدنا جابرؓ بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو آدمی اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، وہ تہبند کے بغیر حمام میں داخل نہ ہو، اسی طرح جو آدمی اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، وہ اپنی بیوی کو حمام میں داخل نہ کرے، جو آدمی اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ ایسے دسترخوان پر نہ بیٹھے جس پر شراب پی جا رہی ہو اور جو آدمی اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، وہ اس عورت کے ساتھ خلوت اختیار نہ کرے، جس کے ساتھ اس کا محرم نہ ہو کیونکہ ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہو گا۔
3۔ مسند احمد میں سیدنا عامرؓ بن ربیعہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: خبردار! ہرگز کوئی آدمی بھی کسی ایسی عورت کے ساتھ خلوت اختیار نہ کرے،جو اس کے لئے حلال نہ ہو کیونکہ تیسرا شیطان آجاتا ہے، ما سوائے محرم کے، شیطان ایک کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ دو سے زیادہ سے دور ہو جاتا ہے اور جس شخص کو اس کی برائی بری لگے اور اس کو اس کی اچھائی اچھی لگے تو وہ مومن ہوگا۔
4۔صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی مرد کسی (غیر محرم) عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ بیٹھے اور کوئی عورت اس وقت تک سفر نہ کرے جب تک اس کے ساتھ کوئی اس کا محرم نہ ہو۔ اتنے میں ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا‘ یا رسول اللہﷺ! میں نے فلاں جہاد میں اپنا نام لکھوا دیا ہے اور ادھر میری بیوی حج کے لیے جا رہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تو بھی جا اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کر۔
5۔ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا : جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایما ن رکھتی ہے اس کے لیے حلال نہیں کہ وہ ایک دن اور رات کا سفر کرے مگر اس طرح کہ اس کا محرم اس کے ساتھ ہو۔
ان احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عورت کا پردہ کرنا اس حد تک اہمیت کا حامل ہے کہ وہ غیر محرم کے ساتھ خلوت کو بھی اختیار نہیں کر سکتی۔ اسی طرح اس کے لیے یہ بات بھی جائز نہیں کہ وہ محرم کے بغیر سفر کرے تاکہ اس کا پردہ اور توقیر برقرار رہے۔
عمران خان صاحب کے بیان پر تنقید کرنے والے لوگ اس بیان کے حوالے سے ان آراء کا اظہار کرتے ہیں کہ اس سے بدکرداری کا ارتکاب کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی یا ان کے عمل کو سند جواز ملتی ہے۔ ان کا یہ موقف کسی بھی اعتبار سے درست نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کسی برے عمل سے بچنے کے لیے جس احتیاطی تدبیر کو اختیارکیا جاتا ہے اس احتیاطی تدبیر کی اہمیت کو اجاگرکرنا درحقیقت اس برے عمل سے بچاؤ کے لیے ہوتا ہے نہ کہ اس برے عمل کو جائز قرار دیا جا رہا ہوتا ہے۔ عمران خان صاحب نے جو بیان دیا اس کے حوالے سے بعض لوگ یہ بات بھی کہتے ہیں کہ جو لوگ معصوم بچوں یا بچیوں کے ساتھ بدکرداری کا ارتکاب کرتے ہیں کیا اس وقت اس بدکاری کی وجہ عورتوں کے مختصر کپڑے ہوتے ہیں ؟ تو ان کا یہ اعتراض بھی درست نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر معصوم بچے اور بچیوں کے ساتھ بدکرداری کا ارتکاب کرنے کی وجوہات کچھ اور ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جوان لڑکیوں اور عورتوں کو پردے داری سے ہٹا کر اُن کے مختصر لباس کی حمایت کی جائے۔ عمران خان صاحب کے اس بیان پر ملک میں واضح طور پر مذہبی اور غیر مذہبی طبقہ تقسیم ہوتا ہوا دکھائی دیا۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی جنسی بے راہ روی کے واقعات جہاں ہر اعتبار سے قابل افسوس ہیں وہیں ان قا بل مذمت واقعات کا مخرب الاخلاق لٹریچر، گندے اور فحش پروگراموں ، مردوزن کے اختلاط اور بے پردگی کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ کوئی شخص تعصب کی وجہ سے اس بات کو تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف ہر صاحب علم وشعورکرنے پر مجبور ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنے کی توفیق دے جن کا ذکر بدکرداری کی روک تھام کے لیے کتاب وسنت میں کیا گیاہے اور ہمارے معاشرے کو پاکیزہ اور مطہر معاشرے میں تبدیل فرمائے، آمین !