کسی بھی معاشرے کی تشکیل میں گھرانہ ایک اکائی کا کردار ادا کرتا ہے۔ معاشرے کی صحت کا گھروں کے امن اور اطمینان کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے۔ جس گھر میں امن اور سکون ہو اور اس کے افرا د کا باہمی تعلق خوشگوار ہو وہ مثالی گھرانہ ہوتا ہے۔ گھروں کے امن اور سکون کے لیے جہاں والدین اپنا کردار ادا کرتے ہیں‘ وہاں اچھی اولاد بھی اپنی حیثیت کے مطابق اس کو بڑھانے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرتی ہے۔ جس گھر میں اولاد نافرمان نکل آئے‘ اس گھر کا امن وسکون غارت ہو کر رہ جاتا ہے، اسی طرح جس گھر کے سربراہ کو تشدد ، مار کٹائی اور لڑائی جھگڑے کی عادت ہو‘ اس گھر میں بھی امن و سکون مفقود ہو جاتا ہے۔ اس حوالے سے دینِ اسلام کی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں مردوں کو اس بات کی تلقین کی ہے کہ وہ عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت 19میں ارشا دفرماتے ہیں: ''اور زندگی بسر کرو اُن کے ساتھ اچھے طریقے سے ‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ا س بات کو بھی بیان فرمایا ہے کہ جس طرح مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں اسی طرح عورتوں کے بھی مردوں پر حقوق ہیں؛ تاہم مردوں کو ان پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت 228میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور ان (عورتوں) کے لیے (ویسے ہی حقوق ہیں) جس طرح ان پر (مردوں کے حقوق ہیں) دستور کے مطابق اور (البتہ) مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے‘‘۔
عورتوں اور مردوں کے باہمی حقوق کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے گھروں میں مردوں کو حاکم یا نگران بھی بنایا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کو سورہ نساء کی آیت 34میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''مرد حاکم ہیں عورتوں پر (اس) وجہ سے جو فضیلت دی اللہ نے اُن میں سے بعض کو بعض پر اور (اس) وجہ سے جو انہوں نے خرچ کیا اپنے مالوں سے ‘‘۔مرد کو نگران بنانے کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ وہ گھر والوں کی تربیت میں بھی اپنا کردار ادا کر سکے اور دین و دنیا کے معاملات میں ان کی رہنمائی کر سکے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ تحریم کی آیت 6میں اہلِ ایمان کی اس حوالے سے ذمہ داری کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں : ''اے (وہ لوگو) جو ایمان لائے ہو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے (کہ) جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں‘‘۔ اسی طرح سورہ طٰہٰ میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے بیان کیا کہ انسان کو خود بھی نماز کو قائم کرنا چاہیے اور اپنے اہلِ خانہ کو بھی نماز کا حکم دینا چاہیے۔ سورہ طہٰ کی آیت 132 میں ارشاد ہوا: ''اور حکم دیں اپنے گھر والوں کو نماز کا اور آپ (خود بھی) پابند رہیں اس پر‘‘۔
اولاد کی تربیت اور ان کی کامیابی کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کردار کو بھی قرآنِ مجید میں بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے دُعا مانگا کرتے تھے اور اُن کو نیکی کے کاموں میں شریک بھی کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ ابراہیم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بہت سی خوبصورت دُعاؤں کا ذکر کیا ہے۔ سورہ ابراہیم کی آیات35سے 41میں ان دعاؤں کو کچھ یوں بیان کیا گیا: ''اور جب کہا ابراہیم نے: اے میرے رب تو بناد ے اس شہر (مکہ) کو امن والا اور دور رکھ مجھے اور میرے بیٹوں کو کہ ہم عبادت کریں بتوں کی۔ اے میرے رب! بے شک انہوں نے گمراہ کر دیا ہے بہت سے لوگوں کو پھر جس نے پیروی کی میری تو بے شک وہ مجھ سے ہے اور جس نے میری نافرمانی کی بے شک تو بہت بخشنے والا ، بڑا مہربان ہے۔ اے ہمارے رب! بے شک ہم نے آباد کیا ہے اپنی اولاد کو ایک(ایسی) وادی میں (جو) نہیں ہے کسی کھیتی والی‘ تیرے حرمت والے گھر کے پاس۔ اے ہمارے رب! تاکہ وہ قائم کریں نماز‘ تو کرد ے لوگوں میں سے (کچھ کے) دلوں کو (کہ) وہ مائل ہوں اُن کی طرف اور رزق دے اُنہیں پھلوں سے تاکہ وہ شکر ادا کریں۔ اے ہمارے رب ! بے شک تو جانتا ہے جو کچھ ہم چھپاتے ہیں اور جو ہم ظاہر کرتے ہیں اور نہیں چھپتی اللہ پر کوئی چیز زمین میں اور آسمان میں۔ تمام تعریف اللہ کے لیے ہیں جس نے عطا کیا مجھے بڑھاپے کے باوجود اسماعیل اور اسحاق ، بے شک میرا رب یقینا خوب سننے والا ہے دعا کا۔ اے میرے رب! بنادے مجھے قائم رکھنے والا نماز کا، اور میری اولاد میں سے (بھی) اے ہمارے رب ! اور تو قبول فرما میری دعا کو ۔ اے ہمارے رب ! بخش دینا مجھے اور میرے ماں باپ کو اور سب مومنوں کو جس دن قائم ہو گا حساب‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جہاں اپنی اولاد کے لیے بڑی خوبصورت دعائیں مانگیں‘ وہیں تعمیرِ بیت اللہ میں آپ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بھی اپنے ہمراہ شریک کیا اور اللہ تبارک وتعالیٰ سے اس عمل کی قبولیت کی دعا بھی مانگی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت 127میں اس واقعے کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: '' اور جب بلند کر رہے تھے ابراہیم بنیادیں بیت اللہ کی اور اسماعیل بھی (اور وہ دعا کر رہے تھے ) اے ہمارے رب قبول فرما ہم سے (یہ خدمت) بے شک تو ہی سننے والا‘ جاننے والا ہے‘‘۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں حضرت لقمان علیہ السلام کا بھی ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو بڑی خوبصورت نصیحتیں کی تھیں۔ دین اور دنیا کی بھلائی کے لیے کی جانے والی بیش قیمت نصیحتیں سورہ لقمان کی آیات 13سے 18میں کچھ یوں بیان کی گئی ہیں: ''اور جب کہا لقمان نے اپنے بیٹے سے جب کہ وہ نصیحت کر رہا تھا اُسے: اے میرے بیٹے ! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا بے شک شرک یقینا بہت بڑا ظلم ہے۔ اور ہم نے وصیت (تاکید) کی انسان کو اپنے والدین کے ساتھ (حسنِ سلوک کی) ۔اُٹھائے رکھا اُسے اُس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری (کے باوجود) اور اُس کا دودھ چھڑانا دو سالوں میں (اور) یہ کہ تو شکر کر میرا اور اپنے والدین کا میری ہی طرف (تم سب کا) لوٹنا ہے۔ اور اگر وہ دونوں زور دیں تجھ سے اس پر کہ تو شریک ٹھہرائے میرے ساتھ (اُسے) جو (کہ) نہیں ہے تجھے اُس کاکوئی علم ‘تو تم اطاعت نہ کرو اُن دونوں کی اور سلوک کر اُن دونوں سے دنیا میں اچھے طریقے سے اور پیروی کرو اُس شخص کے راستے کی جو رجوع کرتا ہے میری طرف ، پھر میری ہی طرف تمہارا لوٹنا ہے تو میں تمہیں خبر دوں گا (اُس) کی جو تم عمل کرتے تھے۔ اے میرے پیارے بیٹے! بے شک وہ (اچھائی یا برائی) اگر ہو رائی کے کسی دانے کے برابر پھر وہ ہو کسی چٹان میں یا (وہ ہو) آسمانوں میں یا زمین میں (تو) لے آئے گا اس کو اللہ‘ بے شک اللہ بہت باریک بین‘ خوب خبردار ہے۔ اے میرے پیارے بیٹے! تو نماز قائم کر اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے روک اور صبر کر اس (تکلیف) پر جو تجھے پہنچے۔ بے شک یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے۔اور نہ پھلا اپنا رخسار لوگوں کے لیے اور مت چل زمین میں اکڑ کر‘ بے شک اللہ نہیں پسند کرتا کسی تکبر کرنے والے‘ فخر کرنے والے کو‘‘۔
ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ والدین کو اپنی اولادوں کو اچھے کاموں کی نصیحت کرنی چاہیے اور نصیحت مؤثر نہ ہو تو باپ یا شوہر اپنے اہلِ خانہ پر مناسب سختی بھی کر سکتا ہے۔ والد کے حقوق کے ساتھ ساتھ اولاد اور بیوی کے بھی حقوق ہیں کہ اُن کی معاشی کفالت کی جائے اور اولاد کے درمیان مساوات کی جائے اورلڑکی کی شادی کے موقع پر اس کی رائے کا احترام کیا جائے۔ خاندانی نظام اگر کسی ناہمواری کا شکار ہو جائے تو ایسی صورت میں مرد اور عورت کے بڑوں کو اس میں مداخلت کرنی چاہیے تاکہ گھریلو نظام اچھے طریقے سے چل سکے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کو سورہ نساء کی آیت 35 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں : ''اور اگر تمہیں ڈر ہو ان دونوں کے درمیان اختلاف کا تو مقرر کر وایک منصف اس (خاوند) کے خاندان سے اور ایک منصف اس (بیوی) کے خاندان سے‘ اگر وہ دونوں چاہیں گے اصلاح (تو) اللہ موافقت پیدا کر دے گا ان دونوں کے مابین‘ بے شک اللہ ہے خوب علم رکھنے والا‘ خوب خبردار‘‘۔
اگر گھریلو سطح پر معاملات حل ہونے کی کوئی صورت نہ نکلے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے مرد کے پاس طلاق کے اختیارات کو باقی رکھا ہے۔ اگر مرد عورت سے زیادتی کرے اور اس کو معلق رکھے اوراسے طلاق نہ دے تو عورت نکاح فسخ کروانے کے لیے عدالت سے بھی رجوع کر سکتی ہے۔ یعنی اگر گھریلو نظام کے برقرار رہنے کا کوئی امکان باقی نہ رہے تو طلاق یا فسخِ نکاح کے ذریعے اس معاملے کو ختم کیا جا سکتا ہے لیکن اگر گھر میں بہتری یا اصلاح کے امکانات موجود ہوں تو سماجی سطح پر اس کو حل کیا جا سکتا ہے۔ مغربی معاشروں میں گھریلو جھگڑوں کو حل کرنے کے لیے بکثرت قانون کا سہارا لیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے اب اس قسم کے قوانین کو معاشرے میں لاگو کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس پر دینی طبقات اور علماء کو تحفظات ہیں۔ اسی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کیے جانے والے گھریلو تشدد کے امتناع کے بل کو نظر ثانی کے لیے نظریاتی کونسل کے پاس بھیج دیا گیا ہے۔ نظریاتی کونسل میں موجود علماء یقینا اس حوالے سے ایسی سفارشات مرتب کریں گے جو دینی تعلیمات اور مشرقی روایات سے ہم آہنگ ہوں تاکہ مسلم معاشرے اور مشرقی گھرانوں کے ڈھانچے کو برقرار رکھا جا سکے اور مغرب کی اندھی تقلید سے محفوظ رہا جا سکے۔