تاریخ ِ انسانیت میں کوئی گروہ بھی ا نبیاء کرام علیہم السلام کی شان اور عظمت کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ گروہِ انبیاء کرام علیہم السلام میں سے بعض ہستیاں ایسی ہیں جو اپنی سیرت، کردار، جدوجہداور عظمت کے اعتبار سے ممتاز ہیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت گروہ ِانبیاء کرام میں اس اعتبار سے ایک بلند حیثیت کی حامل ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی ذاتِ گرامی کے بعد آپ علیہ السلام کی ذات کو بھی اہل اسلام کے لیے اسوہ کامل قرار دیا اورآپؑ کو ملت ِاسلامیہ کے لیے ایک مقدس باپ کی بھی حیثیت دی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ممتحنہ کی آیت 4میں اس امر کا اعلان فرماتے ہیں: ''یقینا ہے تمہارے لیے ایک اچھا نمونہ ابراہیم (کے عمل) میں اور جو اُس کے ساتھ تھے‘ کہ جب اُنہوں نے کہا اپنی قوم سے: بے شک ہم بری ہیں تم سے اور (اُن) سے جن کی تم عبادت کرتے ہو اللہ کے سوا‘ ہم نہیں مانتے تم کو اور ظاہر ہو گئی ہمارے درمیان اور تمہارے درمیان دشمنی اور بغض ہمیشہ کے لیے یہاں تک کہ تم ایمان لے آؤ اللہ پر (کہ) وہی اکیلا (معبود) ہے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حج کی آیت 78 میں اس امر کا اعلان فرماتے ہیں : '' (تم قائم رہو) اپنے باپ ابراہیم کے دین پر (اور)وہی ہے (جس نے) نام رکھا تمہارا مسلمان‘‘۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شان وعظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں آپ کو تنہا اُمت قرار دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نحل کی آیت نمبر 120میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک ابراہیم ایک اُمت تھا‘ فرمانبردار اللہ کا ایک (اللہ کی) طرف ہو جانے والا اور نہ تھا وہ مشرکوں میں سے‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس مقام اور مرتبے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کو بجا لانے کے لیے وقف کیے رکھی۔ آپ علیہ السلام کی بستی کے لوگ بت پرست تھے‘ آپ علیہ السلام نے جوانی کے عالم میں بت کدے میں داخل ہو کر بتوں کو توڑ ڈالا اور دلائل کے ذریعے بتوں کی بے بسی کو ثابت کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ انبیاء کی آیات51 سے 69میں اس واقعے کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''اور یقینا ہم نے دی ابراہیم کو اس کی ہدایت اس سے پہلے اور ہم تھے اس کو (خوب) جاننے والے۔ جب اس نے کہا اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے: کیا ہیں یہ مورتیاں جو (کہ) تم ان کے مجاور بنے بیٹھے ہو ۔ انہوں نے کہا: ہم نے پایا اپنے باپ دادا کو اس کی عبادت کرتے ہوئے۔ (ابراہیم نے) کہا: بلاشبہ تھے تم اور تمہارے باپ دادا کھلی گمراہی میں۔ انہوں نے کہا: کیا تو آیا ہے ہمارے پاس حق کے ساتھ یا تو کھیل کرنے والوں میں سے ہے؟ اس نے کہا: بلکہ تمہارا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے جس نے پیدا کیا انہیں اور میں اس پر گواہوں میں سے ہوں۔ اور اللہ کی قسم ضرور بالضرور میں خفیہ تدبیر کروںگا تمہارے بتوں کی اس کے بعد کہ تم چلے جاؤ گے پیٹھ پھیر کر۔ پھر اس نے کر دیا اُنہیں ٹکڑے ٹکڑے سوائے ان کے بڑے (بت) کے(یعنی اسے چھوڑ دیا) تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔ انہوں نے کہا: کس نے کیا ہے یہ (کام) ہمارے معبودوں کے ساتھ بلاشبہ وہ ظالموں میں سے ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے سنا ہے ایک نوجوان کو وہ ذکر کرتارہتا ہے ان کا‘ کہا جاتا ہے اس کو ابراہیم۔ انہوں نے کہا: پھر لے آؤ اس کو لوگوں کی آنکھوں کے سامنے تاکہ وہ گواہ ہو جائیں۔ انہوں نے کہا: کیا تو نے کیا ہے یہ (کام) ہمارے معبودوں کے ساتھ اے ابراہیم؟ اس نے کہا: کیا ہے (یہ) ان کے اس بڑے (بت) نے‘ سو تم پوچھ لو ان سے اگر ہیں یہ بولتے۔ پھر وہ لوٹے اپنے نفسوں (دلوں) کی طرف (یعنی غور کیا) تو کہنے لگے: بے شک تم (خود ہی) ظالم ہو۔ پھر وہ اُلٹے کر دیے گئے اپنے سروں پر (یعنی ان کی عقل اوندھی ہو گئی) بلاشبہ تو جانتا ہے (کہ) یہ نہیں بولتے ۔ اس نے کہا: پھر کیا تم عبادت کرتے ہو اللہ کے سوا (اس کی) جو نہ نفع پہنچا سکتا ہے تمہیں کچھ بھی اور نہ نقصان پہنچا سکتا ہے تمہیں۔ افسوس تم پر اور ان پر جن کی تم عبادت کرتے ہو اللہ کے سوا‘ تو کیا تم سمجھتے نہیں ہو۔ انہوں نے کہا تم جلا دو اسے اور مدد کرو تم اپنے معبودوں کی (اگر) ہو تم (کچھ) کرنے والے۔ ہم نے کہا: اے آگ ! ٹھنڈی ہو جا! اور سلامتی (والی) ابراہیم پر‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کی حقیقت کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ اجرامِ سماویہ کی حقیقت بھی واضح فرما دی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ انعام کی آیات 75 سے 79میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس واقعہ کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''اور اسی طرح ہم دکھانے لگے ابراہیم کو نظام سلطنت آسمانوں اور زمین کا اور تاکہ وہ ہو جائے یقین کرنے والوں میں سے۔ پھر جب چھا گئی اس پر رات تو اس نے دیکھا ایک ستارہ (اور) کہا: یہ میرا رب ہے، پھرجب وہ غائب ہو گیا (تو)کہا: میں نہیں پسند کرتا غائب ہو جانے والوں کو۔ پھر اس نے دیکھا چاند کو چمکتا ہوا (تو) کہا: یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ چھپ گیا (تو) کہا، البتہ اگر نہ ہدایت دی مجھے رب نے (تو) یقینا میں ہو جاؤں گا گمراہ ہونے والی قوم میں سے۔ پھر جب اس نے دیکھا سورج کو چمکتا ہوا (تو) کہا: یہ میرا رب ہے یہ (تو) سب سے بڑا ہے پھر جب وہ (بھی) ڈوب گیا (تو) کہا: اے میری قوم ! بے شک میں بیزار ہوں اس سے جو تم شریک بناتے ہو، بے شک میں نے رُخ کرلیا اپنے چہرے کا اس کی طرف جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو یکسو ہو کر اور نہیں ہوں میں مشرکوں میں سے ‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وقت کے گمراہ بادشاہ نمرود کے اقتدار اور دبدبے کی پروا کیے بغیر اسے توحید کی دعوت دی اور بڑی فصاحت کے ساتھ سب کچھ بیان کردیا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 258میں اس واقعہ کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''کیا آپ نے دیکھانہیں اس کی طرف جس نے جھگڑا کیا ابراہیم سے اس کے رب کے بارے میں کہ اللہ نے دے رکھی تھی اسے حکومت، جب کہا ابراہیم نے : میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا اور مارتا ہے، وہ کہنے لگا : میں (بھی) زندہ کرسکتا ہوں اور مار سکتا ہوں۔ ابراہیم نے کہا : پس بے شک اللہ لاتا ہے سورج کو مشرق سے، تو تُو لے آ اس کو مغرب سے، تو ہکا بکا رہ گیا وہ جس نے کفر کیا اور اللہ ہدایت نہیں دیتا ظالم قوم کو‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحیدکے عَلم کو اعدائے دین کی پروا کیے بغیر بلند کیے رکھا ‘وہیں پر آپ علیہ السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کے لیے محبتوں کی قربانیاں بھی دیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم پر اپنی شریک زندگی حضرت ہاجرہ اور ننھے اسماعیل علیہم السلام کو وادیٔ بے آب وگیاہ میں چھوڑ دیا۔ جہاں پر اللہ نے ان کے لیے چاہِ زم زم اور آبادی کو پیدا فرما دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کا یادگار واقعہ وہ ہے جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو ایک خواب دکھلایا جس میں آپؑ نے دیکھا کہ آپ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کو ذبح کر رہے ہیں ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ صافات کی آیات 100 تا 108 میں اس واقعے کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں : ''(ابراہیم علیہ السلام نے دُعا مانگی) اے میرے رب تُو عطا فرما مجھے (ایک لڑکا) نیکوں میں سے تو ہم نے خوشخبری دی اسے ایک بردبار لڑکے کی۔ پھر جب وہ پہنچا اس کے ساتھ دوڑنے (کی عمر) کو، اس نے کہا: اے میرے بیٹے! بے شک میں دیکھتا ہوں خواب میں کہ میں ذبح کر رہا ہوں تجھے‘ پس تو دیکھ‘ تو کیا خیال کرتا ہے؟ اس نے کہا: اے میرے ابا جان! آپ کر گزریے جو آپ کو حکم دیا جا رہا ہے‘ آپ عنقریب ضرور پائیں گے مجھے‘ اگر اللہ نے چاہا تو‘ صبر کرنے والوں میں سے۔ پھر جب وہ دونوں مطیع ہو گئے اور اس نے لٹا دیا اسے پیشانی کے بل۔ تو ہم نے پکارا اسے کہ اے ابراہیم! یقینا تو نے سچ کر دکھایا (اپنا) خواب، بے شک ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں نیکی کرنے والوں کو۔ بے شک یہی کھلی آزمائش ہے اور ہم نے بدلے میں دیا اس (اسماعیل) کے ایک عظیم ذبیحہ۔ اور ہم نے (باقی) چھوڑا اس پر (یعنی اس کا ذکرِخیر) پیچھے آنے والوں میں‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کردار پر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپ علیہ السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کے لیے نہ بستی کی عداوت کو دیکھانہ بادشاہِ وقت کے رعب اور دبدبے کو دیکھا اور نہ ہی جلتی ہوئی آگ کو دیکھا۔ اسی طرح آپ سیدہ ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی محبت کی قربانی دینے پر بھی آمادہ ہو گئے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم پر اپنے بیٹے اسماعیل ؑ کے گلے پر چھری چلانے کو بھی تیار ہو گئے۔ عید قربان درحقیقت اسی عظیم شخصیت کی سیرت اور کردار کی یادگار ہے۔ ہمیں عید قربان کے موقع پر جانور کو ذبح کرتے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سیرت وکردار کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے اور خود احتسابی کے عمل سے بھی گزرنا چاہیے کہ کیا ہمارے احساسات اور جذبات اور ہمارے رویے اسی سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں جس سانچے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت ڈھلی ہوئی تھی۔ اگر ہم نے ایسا کر لیا تو یقینا ہم قربانی کی روح کو پانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اگر ہم نے ایسا کرنے کی جدوجہد نہ کی تو قربانی کے مقصد کو پانے میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے کردار کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے، آمین !