"AIZ" (space) message & send to 7575

عید کے مختلف رنگ!

ہر سال 10 ذو الحج کو پوری دنیا کے مسلمان عید الاضحی کو بڑے جوش وخروش سے مناتے ہیں۔ اس موقع پر جانوروں کو بڑی تعداد میں خریدا جاتا اور خوشی اور جذبے سے ان کی قربانی کی جاتی ہے۔ بڑے، بچے، بوڑھے اورعورتیں‘ اس دن اپنے من پسند لباس پہن کر عید کی خوشیوں کو اپنے اپنے انداز میں منانے کی جستجو کرتے ہیں۔ خوشحال گھرانوں میں قسم قسم کے پکوان پکا کر عید کی خوشیوں کو دوبالا کیا جاتا ہے۔ عید قربان پر اس بات کا مشاہدہ کرنا کچھ مشکل نہیں کہ جہاں پر بڑی تعداد میں قربانی کرنے والے لوگ موجود ہیں‘ وہیں پر ہمارے گردو نواح میں کچی بستیوں میں رہنے والے ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہوں نے کئی مہینوں سے جانوروں کا گوشت نہیں کھایا ہوتا ۔ وہ عید ِقربان کو اس اُمید کے ساتھ مناتے ہیں کہ خوشحال گھرانوں میں ہونے والی قربانیوں سے حاصل ہونے والے گوشت سے وہ بھی اپنی شکم پُری کریں گے۔ بہت سے غریب غربا سخی اور فیاض گھروں سے گوشت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جبکہ بہت سے لوگوں کو اس موقع پر بھی ڈانٹ اور دھتکار کر سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عیدِ قربان کے موقع پر اس طبقاتی تفاوت کو جب ہم دیکھتے ہیں تو اس موقع پر اس بات کا اہتمام کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ہم جہاں اپنے رشتہ داروں، اعزہ واقارب اور خوشحال گھرانوں میں گوشت بھیجتے ہیں وہیں ہمیں غریب اور محروم طبقوں کی محرومیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے گوشت کی ترسیل کا اچھے طریقے سے انتظام اور اہتمام بھی کرنا چاہیے۔
عیدِ قربان کے موقع پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے گوشت کو خود کھانے کے ساتھ ساتھ فقرا کو بھی کھلانے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حج کی آیت 36 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور قربانی کے اونٹ‘ ہم نے بنایا انہیں تمہارے لیے اللہ کی (عظمت کی) نشانیوں میں سے‘ تمہارے لیے ان میں بہت بھلائی ہے سو تم ذکر کرو اللہ کے نام کا ان پر قطار باندھے ہوئے (یعنی کھڑا کرکے ذبح کرو) پھر جب ان کے پہلو (زمین پر) گر پڑیں (اور ٹھنڈے ہو جائیں) تو کھاؤ اس میں سے اور تم کھلاؤ قناعت کرنے والے (محتاج) کو‘‘۔ اسی طرح سورہ حج ہی میں اس حقیقت کا ذکر آیت 28میں کچھ یوں کیا گیا: ''اور (ذبح کے وقت) وہ اللہ کے نام کا ذکر کریں‘ چند معلوم دنوں میں ان پر جو اس نے دیے‘ انہیں پالتو چوپایوں میں سے تو کھاؤ ان میں سے (تم بھی) اور کھلاؤ (بھوکے) تنگ دست محتاج کو‘‘۔ غربا اور مساکین کو عید کے موقع پر گوشت پہنچانے سے انسان کو حقیقی خوشیاں حاصل ہوتی ہیں اور انسان کے دل میں دوسروں کے کام آنے اور ان کے دکھ چننے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
عید کے موقع پر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں اپنے مال کو خرچ کرتے اور اپنی حیثیت کے مطابق اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں قربانی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ا س کے مدمقابل بہت سے لوگ عید کے موقع پر قربان کیے گئے جانور کو اس لیے خریدتے ہیں کہ اپنی معاشی حیثیت کو ظاہر کیا جائے۔ ان دونوں مناظر کو دیکھتے ہوئے اس بات کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں کی جانے والی قربانی کے مقبول ہونے کے لیے انسان کی نیت کی درستی انتہائی ضروری ہے۔ اگر انسان کی نیت دکھلاوے کی ہو تو وہ قربانی کے اجر سے محروم ہو جاتا ہے۔ اصلاحِ نیت کے حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے :
صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: قیامت کے روز سب سے پہلا شخص جس کے خلاف فیصلہ آئے گا‘ وہ ہو گا جسے شہید کر دیا گیا ہو گا۔ اسے جب (خدا کے حضور) پیش کیا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی (عطا کردہ) نعمت کی پہچان کرائے گا تو وہ انہیں پہچان لے گا۔ اللہ پوچھے گا کہ تو نے اس نعمت کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے تیری راہ میں لڑائی کی حتیٰ کہ مجھے شہید کر دیا گیا۔ (اللہ تعالیٰ) فرمائے گا: تو نے جھوٹ بولا، تم اس لیے لڑے تھے کہ کہا جائے یہ (شخص) جری اور بہادر ہے۔ اور یہی کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اس آدمی کو منہ کے بل گھسیٹا جائے گا یہاں تک کہ آگ میں ڈال دیا جائے گا اور وہ آدمی جس نے علم پڑھا، پڑھایا اور قرآنِ پاک کی قرأت کی، اسے پیش کیا جائے گا۔ (اللہ تعالیٰ) اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا، وہ پہچان کر لے گا، وہ فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے علم پڑھا اور پڑھایا اور تیری خاطر قرآنِ مجید کی قرأت کی، (اللہ) فرمائے گا: تو نے جھوٹ بولا، تو نے اس لیے علم پڑھا کہ کہا جائے (یہ) عالم ہے اور تو نے قرآن اس لیے پڑھا کہ کہا جائے: یہ قاری ہے، (دنیا میں) وہی کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا، اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا حتیٰ کہ آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ اور وہ آدمی جس پر اللہ نے وسعت کی اور ہر قسم کا مال عطا کیا، اسے لایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا، وہ پہچان لے گا۔ اللہ فرمائے گا: تم نے ان کاکیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے کوئی راہ نہیں چھوڑی جس میں تجھے پسند ہے کہ مال خرچ کیا جائے مگر ہر ایسی راہ میں خرچ کیا۔ اللہ فرمائے گا: تم نے جھوٹ بولا ہے، تم نے (یہ سب) اس لیے کیا تاکہ کہا جائے تُو سخی ہے، ایسا ہی کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا، تو اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا، پھر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بظاہر بہت بڑے اعمال کرنے والے لوگ بھی دکھلاوے کی وجہ سے جہنم کی آگ میں ڈال دیے جائیں گے۔ اسی طرح صحیح بخاری میں ایک اور حدیث وارد ہوئی ہے: حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ گھوڑے کے مالک تین طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ بعض لوگوں کے لیے وہ باعثِ اجر و ثواب ہیں، بعضوں کے لیے وہ صرف پردہ ہیں اور بعضوں کے لیے وبالِ جان ہیں۔ جس کے لیے گھوڑا اجر و ثواب کا باعث ہے یہ وہ شخص ہے جو اللہ کے راستے میں جہاد کی نیت سے اسے پالتا ہے پھر جہاں خوب چری ہوتی ہے یا (یہ فرمایا کہ) کسی شاداب جگہ اس کی رسی کو خوب لمبی کر کے باندھتا ہے (تاکہ چاروں طرف چر سکے) تو گھوڑا اس کی چری کی جگہ سے یا اس شاداب جگہ سے اپنی رسی میں بندھا ہوا جو کچھ بھی کھاتا پیتا ہے‘ مالک کو اس کی وجہ سے نیکیاں ملتی ہیں اور اگر وہ گھوڑا اپنی رسی تڑا کر ایک زغن یا دو زغن لگائے تو اس کی لید اور اس کے قدموں کے نشانوں میں بھی مالک کے لیے نیکیاں ہیں اور اگر وہ گھوڑا نہر سے گزرے اور اس میں سے پانی پی لے تو اگرچہ مالک نے پانی پلانے کا ارادہ نہ کیا ہو پھر بھی اس سے اسے نیکیاں ملتی ہیں، دوسرا شخص وہ ہے جو گھوڑے کو فخر، دکھاوے اور اہلِ اسلام کی دشمنی میں باندھتا ہے تو یہ اس کے لیے وبال جان ہے‘‘۔
عیدِ قربان کے موقع پر ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ہم مسلم ممالک میں رہتے ہوئے اپنی مرضی سے عیدِ قربان کے موقع پر جانوروں کو ذبح کرتے ہیں جبکہ اس کے مقابل بھارت کا مسلمان گائے کی قربانی کرنے پر نفرت اور تشدد کا نشانہ بنتا ہے اور کئی ریاستوں میں مسلم کش فسادات شروع ہو جاتے ہیں ،ہمیں اس منظر کو دیکھ کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اسی طرح ہمیں اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم بڑے پُرامن طریقے سے عیدِ قربان کے موقع پر خوشیاں منا رہے ہوتے ہیں جبکہ دنیا کے بہت سے مقامات پر بسنے والے مسلمان اس موقع پر کفار کے ظلم ، تشدد اور چیرہ دستیوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔مظلوم کشمیری ، فلسطینی اور میانمار میں رہنے والے مسلمان عیدِ قربان کے موقع پر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہوتے ہیں ۔ دنیا بھر میں ظلم، بربریت اور قتل وغارت گری کا نشانہ بننے والے مسلمانوں کو ہمیں عیدِ قربان کے موقع پر فراموش نہیں کرنا چاہیے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں ان کے لیے دعاگو ہونا چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو بھی عید کی خوشیاں نصیب فرمائے۔
عید کے موقع پر بہت سے لوگ فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے اورمخلوط مجالس میں جاکر ایام ذی الحجہ کی نیکیوں کو ضائع کر بیٹھتے ہیں ۔ حقیقت یہ کہ عید الاضحی فقط جانور کو ذبح کرنے اور اس کا خون بہانے کا نام نہیں بلکہ عید کا یہ موقع تقویٰ اور للہیت کے فروغ کا موقع ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کو سورہ حج کی آیت 37میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''ہرگز نہیں پہنچتے اللہ کو ان (قربانیوں) کے گوشت اور نہ ان کے خون اور لیکن پہنچتا ہے اس کو تقویٰ تمہاری طرف سے‘‘۔ عیدکے روز معاشرے میں ہر طرف پھیلے ہوئے لوگ اپنے اپنے انداز میں عید مناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ عید کے مختلف رنگوں میں سے ہمیں اُسی رنگ کو چننا اور اختیار کرنا چاہیے جو اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہو۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں عید کی خوشیوں سے بہرہ ور کرے اور ہمیں عید درست طریقے سے منانے کی توفیق عطا فرمائے، آمین !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں