"AIZ" (space) message & send to 7575

عورت کا استحصال

متوازن اور صحت مند معاشرے کے قیام کے لیے مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔ عورت کا ہر روپ ہی قابلِ تکریم اور لائقِ محبت ہے۔ عورت ماں کے روپ میں اتنی بلند ہے کہ باپ بھی اس کی عظمت کا مقابلہ نہیں کر سکتا‘ عورت بیٹی کی حیثیت سے آنکھوں کی ٹھنڈک ‘ بہن کی حیثیت سے غیرت کی علامت اور بیوی کی حیثیت سے وہ انسان کے گھر کا سکون اور زندگی کے سفر میں حوصلہ دینے والی مونس اور غمخوار ہوتی ہے ۔ عصری معاشروں میں عورت کے بہت سے حقوق کو سلب کیا جاتا ہے۔ جب ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑاتے ہیں تو یہاں مختلف اعتبار سے عورت کا استحصال ہوتا ہوا دیکھتے ہیں ۔ اس استحصال کی چند صورتیں درج ذیل ہیں:
1۔ بیٹیوں کی ولادت پر افسردگی: ہمارے معاشرے کا ایک بڑا طبقہ بیٹیوں کی ولادت پر غمزدہ ہوجاتا ہے اور بیٹیوں کی ولادت پر ہی ان کو اپنے لیے بوجھ سمجھنا شروع ہوجاتا ہے۔ یہ رویہ جاہلیت پر مبنی رویہ ہے اور اس کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلامِ حمید میں کفار کے اس چلن کا ذکر کیا کہ جب انہیں بیٹی کی خبر دی جاتی تھی تو ان چہرہ غم کے ساتھ تاریک ہو جایا کرتا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کا ذکر سورہ نحل کی آیات 58 تا 59میں کچھ یوں فرماتے ہیں:'' اور جب خوشخبری دی جائے ان میں سے کسی ایک کو بیٹی کی (تو) ہوجاتا ہے اس کا چہرہ سیاہ‘ اس حال میں کہ وہ غم سے بھرا ہوتا ہے۔ وہ چھپاتا پھرتا ہے قوم سے ا س برائی (کی وجہ) سے جس کی اس کو خوشخبری دی گئی کیا وہ روک رکھے اسے ذلت پر یا گاڑ دے اسے مٹی میں‘ آگاہ رہو بُرا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں‘‘۔
2۔گھروں میں عدم مساوات: بہت سے گھروں میں بیٹوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہے جبکہ بیٹیوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ بیٹوں کے لیے اچھی خوراک اور اچھی تعلیم کا بندوبست کیا جاتا ہے جبکہ بیٹیوں کی خوراک اور تعلیم پر سمجھوتا کر لیا جاتا ہے ۔ والدین کو اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان مساوات کرنا انتہائی ضروری ہے۔ بیٹیوں کی اچھی خوراک اور صحت فقط ایک بیٹی کی صحت نہیں بلکہ مستقبل کی ماں کی صحت بھی ہے۔ بیٹوں کی اعلیٰ تعلیم جہاں پر پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی میں کردار ادا کرتی ہے وہیں پر بیٹیوں کی اچھی تعلیم ایک پورے گھرانے کی نشوونما میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ رسول اللہﷺ نے بیٹیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی بہت زیادہ ترغیب دی ہے۔ اس حوالے سے دو اہم حدیث درج ذیل ہیں:
(i) ۔صحیح مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے : انہوں نے کہا: میرے پاس ایک مسکین عورت آئی جس نے اپنی دو بیٹیاں اٹھائی ہوئی تھیں، میں نے اس کو تین کھجوریں دیں، اس نے اپنی بچیوں کو ایک ایک کھجور دی، ایک (تیسری بچی ہوئی) کھجور کھانے کے لیے اپنے منہ کی طرف لے گئی تو وہ بھی اس کی دو بیٹیوں نے کھانے کے لیے مانگ لی، اس نے وہ کھجور بھی‘ جو وہ خود کھانا چاہتی تھی‘ دو حصے کر کے دونوں بیٹیوں کو دے دی۔ مجھے اس کا یہ کام بہت اچھا لگا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا ذکر تو آپﷺ نے فرمایا: اللہ نے اس (عمل) کی وجہ سے اس کے لیے جنت پکی کر دی ہے یا (فرمایا: ) اس وجہ سے اسے آگ سے آزاد کر دیا ہے۔
(ii)۔ سلسلہ احادیث صحیحہ میں حضرت انس ؓسے مرفوعاً مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کی دو بہنیں یا بیٹیاں ہوں،جب تک وہ اس کے پاس رہیں وہ ان سے اچھا سلوک کرتا رہے، تو وہ اور میں جنت میں اس طرح ساتھ ہوں گے۔ پھر آپﷺ نے اپنی دونوں انگلیوں کو ملایا۔
3۔وراثت میں حق تلفی: اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بیٹے کے ساتھ ساتھ بیٹی کا بھی وراثت میں حق مقرر کیا ہے لیکن بعض نادان لوگ بیٹی کے حق کو غصب کر لیتے ہیں۔ ایسے لوگ درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی وصیت کی مخالفت کرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے وراثت کے اصول وضوابط کے بیان کے بعد دو طبقات کا ذکر کیا ہے جن میں سے ایک کامیاب اور دوسرا ناکام ہے۔ اللہ تبارک سورہ نسا کی آیات 13 تا 14میں ارشاد فرماتے ہیں: ''یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ داخل کرے گا اُسے (ایسے) باغات میں (کہ) بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں اور وہ ہمیشہ رہنے والے ہیں اُن میں اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ اور جو نافرمانی کرے گا اللہ اور اس کے رسول کی اور تجاوز کرے گا اُس کی حدود سے (تو) وہ داخل کر ے گا اُسے آگ میں (اور وہ) ہمیشہ رہے گا اُس (آگ) میں اور اُس کے لیے رسوا کن عذاب ہے‘‘۔
4۔ عورت کی مرضی کے خلاف شادی: اسلام میں جہاں عورت کے ولی کی رضامندی کو شادی کے لیے ضروری قرار دیا ہے‘ وہیں عورت کی مرضی کے خلاف اس کی شادی کرنے کی بھی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ ایک درست شادی کے انعقادکے لیے ولی کی رضامندی کے ساتھ ساتھ عورت کا رضامند ہونا بھی ضروری ہے۔ بصورتِ دیگر عورت کو اس کا نکاح فسخ کروانے کی اجازت بھی دی گئی ہے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ حضرت خنساء بنت خذام رضی اللہ عنہا کا نکاح ان کے والد نے ان کی ناپسندیدگی کے باوجود کر دیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس نکاح کو رد (منسوخ) کر دیا تھا۔
5۔ عورتوں کے ساتھ گھریلو تشدد: بہت سے گھروں میں عورت پر تشدد کیا جاتا ہے جو کسی بھی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلامِ حمید میں عورت کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نسا کی آیت نمبر 19 میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اور زندگی بسر کرو اُن کے ساتھ اچھے طریقے سے پھر اگر تم نا پسند کرو اُن کو تو ہو سکتا ہے کہ تم ناپسند کرو کسی (ایک) چیز کو اور رکھ دی ہو اللہ نے اُس میں (اور)بہت (سی) بھلائی۔ ‘‘
6۔ ماں کی بے ادبی: بہت سے گھروں میں بڑھاپے کے عالم میں ماں کی بے ادبی کی جاتی ہے ، جو کسی بھی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ بیوی اور بچوں کے حقوق کی پاسداری کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ والدین کے ساتھ بے ادبی کی جائے۔ والدین کو اُف تک کہنا بھی درست نہیں ہے۔ والدین کے ساتھ ہر حالت میں حسنِ سلوک کرنا چاہیے اور ا ن کے ساتھ عاجزی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ان کے لیے دعا ئے رحمت کرنی چاہیے۔
7۔ جنسی استحصال: ہمارے معاشرے میں عورت کا جنسی استحصال بھی کیا جا رہا ہے جو ہر اعتبار سے ناقابلِ قبول ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نور میں زناکاروں کے لیے سو کوڑوں کی سزا کو مقرر کیا۔ جبکہ حدیث طیبہ میں شادی شدہ زنا کار مرد اور عورت کے لیے سنگسار کی سزا کو مقرر کیا گیا ہے۔
8۔ پاکدامن عورتوں کی کردار کشی: بعض اوقات ہمارے معاشرے میں پاکدامن عورتوں کی کردار کشی کی جاتی ہے اور ان پر گناہ کے جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں جو کسی بھی اعتبار سے قابلِ قبول نہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے پاکدامن عورتوں پر تہمت لگانے والوں کے لیے اسی (80) کوڑوں کی سزا کو مقرر کیا ہے ۔ سورہ نور کی آیت نمبر 4میں ارشاد ہوا: ''اور وہ لوگ جو تہمت لگائیں پاکدامن عورتوں پر پھر نہ لائیں چار گواہوں کو تو کوڑے مارو انہیں‘ اسّی کوڑے اور نہ قبول کرو ان کی گواہی کو کبھی بھی اور وہی لوگ نافرمان ہیں‘‘۔
9۔ غیرت کے نام پر قتل : بعض عاقبت نا اندیش لوگ فقط شک کی بنیاد پر اپنی بہن، بیٹی اور بیوی کو غیرت کے نام پر قتل کر دیتے ہیں‘ یہ لوگ درحقیقت دینِ اسلام کی تعلیمات سے نا آشنا ہیں ۔ اگر شوہر اپنی بیوی کو خود اپنی آنکھوں سے بدکرداری کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھ لے‘ تب بھی اس کو اپنی بیوی کو قتل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ بلکہ ایسی صورت میں لعان کا عمل مکمل کیا جائے گا جس کی تفصیل سورہ نور کی آیات 6 تا 9میں بیان کی گئی ہے: ''اور وہ لوگ جو تہمت لگاتے ہیں اپنی بیویوں پر اور نہ ہوں ان کے لیے (اس پر) گواہ مگر اُن کے نفس (یعنی وہ خود ہی) تو گواہی ان میں سے (ہر) ایک اللہ کی قسم کے ساتھ چار گواہیاں ہیں کہ بلاشبہ وہ یقینا سچوں میں سے ہے۔ اور پانچویں (بار یہ کہے) کہ بے شک اللہ کی لعنت ہو اس پر اگر ہو وہ جھوٹوں میں سے۔ اور ٹال دے گی اس (عورت) سے سزا کو (یہ بات) کہ وہ گواہی دے‘ چار گواہیاں اللہ کی قسم کے ساتھ (کہ) بلاشبہ وہ یقینا جھوٹوںمیں سے ہے ۔اور پانچویں بار (عورت یوں کہے) کہ بے شک اللہ کا غضب (نازل ) ہو اس (عورت) پر اگر ہو (مرد) سچوں میں سے‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کی اسلام میں کوئی گنجائش موجود نہیں ۔
کتاب وسنت کے مطالعے کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اسلام نے عورت کو وہ تمام حقوق عطا کیے ہیں جو اچھی زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہیں۔ بعض عناصر کتاب وسنت کے بجائے مغربی طرزِ زندگی سے اپنے حقوق کو حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور کتاب وسنت کی تعلیمات کو نظر انداز کر دیتی ہیں ایسے طبقات اندھیرے راستوں کی راہی ہوتے ہیں اور ہمیشہ اپنی منزل سے محروم رہتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو کتاب وسنت کو سمجھنے اور ان میں بیان کردہ نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق دے، آمین !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں