محرم الحرام اُن چار مہینوں میں سے ایک ہے جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے تخلیقِ ارض وسماوات کے دن ہی سے حرمت والا مہینہ قرار دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر 36میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک شمار مہینوں کا اللہ کے نزدیک‘ بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جس دن اس نے پیدا کیا آسمان اور زمین کو اُن میں سے چار (مہینے) حرمت والے ہیں یہی سیدھا دین ہے اور تم نہ ظلم کرو ان میں اپنی جانوں پر‘‘۔ احادیثِ مبارکہ میں ان چار مہینوں کا تعین کر دیا گیا ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ''زمانہ گھوم پھر کر اسی حالت پر آ گیا جیسے اس دن تھا جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے، چار مہینے اس میں سے حرمت کے ہیں۔ تین تو پے در پے۔ ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم اور (چوتھا) رجب جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے بیچ میں پڑتا ہے‘‘۔
حرمت والے مہینوں کے احترام اور عزت کا تقاضا یہ ہے کہ ان میں زیادہ سے زیادہ تقویٰ اختیار کیا جائے اور ان میں خصوصیت سے عبادات کوبجا لایا جائے۔ رمضان المبارک کے روزوں کے بعد محرم الحرام کے مہینے کے روزوں کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
سنن ابوداؤد، سنن نسائی،جامع ترمذی اور مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز (تہجد) ہے‘‘۔
کتاب وسنت میں جہاں محرم الحرام کے مہینے کی حرمت معلوم ہوتی ہے وہیں اس مہینے میں بہت سے اہم واقعات بھی رونما ہوئے۔ پہلاواقعہ یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس مہینے کی دس تاریخ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ کی قوم کو فرعون کے ظلم سے نجات دی تھی؛ چنانچہ یہود اس مہینے کی 10 تاریخ کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ نے اہلِ اسلام کو موسیٰ علیہ السلام کی نجات کی نسبت اس دن کا روزہ رکھنے کی تلقین کی۔ اس حوالے سے اہم حدیث درج ذیل ہے:
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓسے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودی عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس دن موسیٰ علیہ السلام نے فرعون پر غلبہ پایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ پھر ہم ان کے مقابلے میں موسیٰ کے زیادہ حقدار ہیں۔ مسلمانو! تم لوگ بھی اس دن روزہ رکھو۔
احادیث مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ بعد ازاں رسول اللہﷺ نے یہود کے طریقے کی مخالفت کے ارادے سے 9 تاریخ کا روزہ رکھنے کا ارادہ فرمایا۔
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓسے روایت ہے کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عاشورہ کے دن کا روزہ رکھا اور ہمیں بھی اس کے روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ایسا دن ہے کہ یہود و نصاریٰ اس دن کی تعظیم کرتے ہیں، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگلے سال ہم نویں محرم کا بھی روزہ رکھیں گے، لیکن آئندہ سال نہیں آیا کہ آپﷺ وصال فرما گئے۔
نبی کریمﷺ چونکہ دنیا سے تشریف لے گئے اس لیے یہ بات واضح نہ ہو سکی کہ آپ نے نویں کو دسویں کے ساتھ ملانا تھا یا دسویں کے روزے کو نویں کے روزے سے تبدیل کرنا تھا۔ اس وجہ سے علماء کے درمیان اختلاف پیدا ہوا کہ نویں اور دسویں کو ملانا چاہیے یا نویں کا روزہ رکھنا چاہیے۔ جمہور علماء دسویں کے ساتھ نویں کے روزے کو ملانے کے قائل ہیں جبکہ علماء کی ایک جماعت فقط نویں محرم کا روزے رکھنے کی تلقین کرتی ہے۔
مؤرخین کی ایک بڑی تعداد کی رائے کے مطابق‘ اسی مہینے کی یکم تاریخ کو مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد امیر المومنین سیدنا عمر فاروق ؓ اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے ساری زندگی اپنے آپ کو کتاب وسنت کی عملداری کے لیے وقف کیے رکھا۔ آپؓ کی زندگی خشیتِ الٰہی اور حب رسولﷺ کی خوبصورت تصویر ہے۔ آپؓ ہمہ وقت نبی کریمﷺ کے اشارہ ٔ ابرو پر اپنے تن من دھن کو نچھاورکرنے کے لیے آمادہ وتیار رہا کرتے تھے۔ آپؓ زندگی کے طویل روز وشب کے دوران رسول کریمﷺ کے ہمراہ رہے اور بہت سے غزوات میں آپﷺکے ساتھ شریک ہوئے۔ آپؓ کی بیٹی سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہﷺ کے عقد میں آئیں۔ رسول اللہﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد آپؓ عہدِ صدیقی میں بھی دینی خدمات انجام دیتے رہے اور بعد ازاں مسلمانوں کے امیر کی حیثیت سے آپؓ اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔
اسلامی نظام کے فروغ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں اور آپؓ کی گورننس اور نظم ونسق کا اعتراف غیر مسلم بھی کرتے رہے۔ حضرت عمر فاروقؓ اس انداز سے دنیا سے رخصت ہوئے کہ آپؓ نے شہادت کی خلعتِ فاخرہ کو زیب تن کیا اور ہمیشہ کے لیے رسول اللہﷺ کے حجرے میں آپﷺ کی ہمسائیگی میں محوِ خواب ہو گئے۔ اسی مہینے کی دس تاریخ کو نبی کریمﷺ کے جلیل القدر نواسے‘ سیدنا علی المرتضیٰ ؓ کے لختِ جگر اور سیدہ فاطمہ ؓ کے نورِ نظر سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جامِ شہادت نوش کیا۔ سیدنا حسین ؓ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اجلے نقوش والی خوبصورت سیرت عطا فرمائی تھی اور آپؓ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہترین اخلاق اور سیرت سے نوازا تھا۔آپؓ کی شان وعظمت اور مقام کے حوالے سے بہت سی احادیث مذکور ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہؓ بن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے لیے پناہ طلب کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ تمہارے بزرگ دادا (ابراہیم علیہ السلام) بھی ان کلمات کے ذریعہ اللہ کی پناہ اسماعیل اور اسحاق علیہ السلام کے لیے مانگا کرتے تھے۔ ''میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے پورے کلمات کے ذریعے‘ ہر ایک شیطان سے اور ہر زہریلے جانور سے اور ہر نقصان پہنچانے والی نظرِ بد سے‘‘۔ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: سیدنا حسین رضی اللہ عنہ رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ تھے۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہؓ بن عمر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میرے دونوں نواسے (حسن و حسین رضی اللہ عنہما) دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔ جامع ترمذی میں حضرت ابوسعیدؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ حسن و حسین رضی اللہ عنہما اہلِ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔
سیدنا حسینؓ نے انتہائی مقدس اور پاکیزہ زندگی گزاری اور تاحیات اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی اور عبادت میں مشغول رہے۔ آپؓ عمر بھر رسول اللہﷺ کے نقشِ قدم پر گامز ن رہے۔ اس خوبصورت اور پاکیزہ زندگی گزارنے کے بعد دس محرم الحرام کو آپؓ کربلا کے مقام پر شہید ہو گئے۔ آپؓ کی شہادت کی کسک آج بھی اُمت مسلمہ کے ہر فرد و بشرکے دل میں موجود ہے۔ آپؓ کی عظیم زندگی اور شہادت کی وجہ سے اہلِ ایمان کی نظروں میں آپؓ کا مقام انتہائی بلند ہے۔
ماہِ محرم الحرام ہمیں جہاں ان عظیم شخصیات کی یاد دلاتا ہے وہیں ہم سے اس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ ہم مقدساتِ اُمت کے ادب و احترام کو ملحوظِ خاطر رکھیں اور کسی بھی طور پر ایسی گفتگو سے اعراض کریں کہ جس سے صحابہ کرامؓ، اہلِ بیت عظامؓ، خلفائے راشدینؓ اور امہات المومنینؓ کی شان میں کسی قسم کی کمی ہو۔
اسی مقصد کے حصول کے لیے حالیہ ایام میں اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر قبلہ ایاز کی میزبانی میں اسلام آباد میں ایک اہم اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں پروفیسر ساجد میر، مولانا محمد احمد لدھیانوی، مولانا اورنگزیب فاروقی، مولانا طاہر اشرفی، مولانا افتخار نقوی، مولانا امین شہیدی، صاحبزادہ حامد رضا اور دیگر علماء کے ساتھ ساتھ مجھے بھی مدعو کیا گیا۔ اس موقع پر محرم الحرام کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ محرم الحرام میں امن وامان کو یقینی بنانے کے لیے بھی تجاویز کا تبادلہ ہوا۔ اس موقع پر جن آراء کا اظہار کیا گیا ان میں سے بعض اہم نکات پر اتفاق کیا گیا اور وہ نکات یہ تھے کہ صحابہ کرام، اہلِ بیت عظام، خلفائے راشدین اور اُمہات المومنین رضوان اللہ علیہم اجمعین کا احترام کرنا تمام مکاتبِ فکر کے علما کی ذمہ داری ہے اور ان ہستیوں کی توہین کو کسی بھی طور پر گوارا نہیں کیا جا سکتا۔ شیعہ سنی مکاتب فکر کے علماء نے اس بات پر غیر مشروط اتفاق کیا اور اس بات کو بھی طے کیا گیا کہ اس مہینے میں جو لوگ مقدساتِ اُمت کی توہین کرکے لوگوں کو مشتعل کرتے ہیں ان کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے اور تمام مکاتبِ فکر کے علما کو ایک دوسرے پر الزام تراشیوں اور طعن وتشنیع سے گریز کرنا چاہیے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے اجلاس کے اختتام پر تمام تجاویز کو اختصار کے ساتھ مدلل انداز میں بیان کیا اور ان پر عمل کی یقین دہانی کرائی۔ اگر ان تجاویز پر حقیقت میں عمل کر لیا جائے تو اُمید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے ایام امن اور سکون سے گزریں گے اور مسلمان معاشرہ فرقہ بندی، تشدد اور نفرت سے محفوظ ہو سکے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو صحیح معنوں میں کتاب وسنت پر عمل پیرا ہونے اور محرم الحرام کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق دے، آمین!