اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو انگنت نعمتوں سے نوازا ہے۔ جن میں ایمان‘ یقین‘صحت ‘ توانائی‘ فہم وفراست ‘ دولت‘ حسن‘ جوانی‘ شہرت ‘ رفیقِ زندگی‘ اولاد ‘ اپنا گھر نمایاں ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی انہی نعمتوں میں سے ایک بے پایاں نعمت آزادی بھی ہے۔ وہ لوگ جو دنیا میں غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں ان کی حالت زار کو دیکھ کر آزادی کی قدروقیمت کوپہچا ننا کچھ مشکل نہیں رہتا ہے۔ دنیا کے بہت سے مقامات پر مسلمان ظلم و ستم اورجبرو استبداد کا نشانہ بنے ہوئے ہیں جن میں فلسطین‘ کشمیر اور برما کے علاقے سرفہرست ہیں ۔ ان علاقوں کے رہنے والے مسلمان صحیح طریقے سے اپنی عبادات کی ادائیگی سے بھی قاصر ہیں اور ان کو ارکان اسلام کی بجا آوری میں شدید دشواری اوردقت کا سامنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کے مطابق سماجی اور معاشرتی امور کی انجام دہی ان کے لیے نہایت مشکل ہو چکی ہے۔ ہندوستان کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جہاں کے مسلمان عید قربان کے موقع پر گائے کو ذبح نہیں کر سکتے ‘اسی طرح ہندوستان میں بسنے والے سینکڑوں مسلمانوں کی بہنیں اور بیٹیاں غیر مسلموں کے ساتھ بیاہی جاتی ہیں۔اس سارے عمل کو دیکھ کر بھی مسلمان اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو روکنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اسی طرح فرانس میں پیش آنے والے المناک واقعات بھی ہمارے سامنے ہیں کہ جہاں پر مسلمان خواتین کو نقاب کرنے سے جبراً روکا جاتا ہے۔ اسی طرح وہاں پر کچھ عرصہ بیشتر سرکاری سطح پر توہین رسالتﷺ کی ناپاک جسارت کی گئی۔ اس کے مدمقابل مسلمانوں کے ملک میں آزادی سے زندگی گزارنا یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ کی ایک ایسی نعمت ہے جس کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے اتنا ہی کم ہے۔
مملکت خداداد پاکستان کا دنیا کے نقش قدم پر آ جانا یقینا اُمت مسلمہ اور برصغیر کے مسلمانوں کے لیے بہت بڑی مسرت کی خبر تھی لیکن یہ خوش کن خبر سننے کے لیے کئی عشروں تک برصغیر کے مسلمان رہنماؤں اور عوام نے زبردست قربانیاں دیں۔ کئی دہائیوں تک قائد اعظم محمد علی جناح‘ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال‘ مولانا ظفر علی خان‘ مولانا محمد علی جوہر اور اکابر علمائے اسلام رائے عامہ کو ہموار کرتے رہے اور برصغیر کے طول وعرض میں بڑے بڑے اجتماعات‘ جلسے‘ جلوسوں کا انعقاد کرکے عوام کو مجتمع کیا گیا۔ اس آزادی کے حصول کے لیے برصغیر کے طول وعرض میں بسنے والے ہزاروں مسلمانوں نے اپنے گھربار‘ اعزا واقارب ‘ دوست احباب ‘کھیتوں کھلیانوں‘ جائیدادوں اور مال واسباب کو خیر آباد کہا۔ بوڑھوں کی داڑھیاں لہو سے رنگیں ہوئیں‘ جوانوں نے جام شہادت نوش کیا‘ بچوں کو نیزوں کی انیوں پر تڑپایا گیا ‘ بڑی تعداد میں ماؤں‘ بہنوں اور بیٹیوں کی آبروریزی ہوئی اور بالآخر ہم کو آزادی کی یہ عظیم نعمت حاصل ہوئی۔
پاکستان ہمارا گھر ہے جہاں پر رہنا ہمارے لیے یقینا باعث فخر اور مسرت ہے ۔ ہم یہاں عبادات کی بجاآوری میں آزاد ہیں۔ ارکان اسلام کی انجام دہی میں ہمارے لیے کوئی رکاوٹ نہیں۔عیدین کے اجتماعات کا انعقاد نہایت جوش وخروش سے کیا جاتا ہے ‘ ہر سال حج بیت اللہ اور عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی حجاز جاتے ہیں۔ پاکستان کا آئین اور دستور بھی اسلام کے سیاسی غلبے کی یقین دہانی کرواتا ہے۔ ملک میں جب بھی کبھی سیکولر اور لادین عناصر نے ریاست کے دستور کے ساتھ کوئی سازش کرنا چاہی وہ بری طرح ناکام اور نامراد رہے اور ریاست کا دستور اللہ کی حاکمیت اور کتاب وسنت کی عملداری کی ضمانت دیتا رہا۔ 7 ستمبر1974ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے نبی کریمﷺ کی ختم نبوت کے منکروں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے کر پوری دنیا میں ختم نبوت سے وابستگی رکھنے والے مسلمانوں کے جذبات کی صحیح طور پر ترجمانی کی۔ C-295 کا قانون تحفظ ناموس رسالت ﷺکی علامت ہے اور پاکستان کی آئینی ساخت کو واضح اور نمایاں کرتا ہے ۔بہت سے لادین عناصر ایک عرصے سے ان قوانین کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے بیدار مغز علما اور کتاب وسنت سے محبت کرنے والی عوام کی تحریک کی وجہ سے سازشی عناصر ہمیشہ ناکام ونامراد رہتے ہیں۔ نظریاتی اعتبار سے جہاں پرپاکستان اسلام سے وابستہ ہے اور علما اس کی نظریاتی سرحدوں کے پہرے دار ہیں وہیں پر اس کے جغرافیے کے تحفظ کے لیے افواج پاکستان اور قومی سلامتی کے ادارے پوری طرح بیدار اور ہوشیار نظر آتے ہیں۔ افواج پاکستان اور قومی سلامتی کے لیے کام کرنے والے اداروں کو عوام کی مکمل تائید حاصل ہے۔ اس ہم آہنگی کی وجہ سے الحمدللہ پاکستان کا دفاع انتہائی مضبوط ہے اور پاکستانی فوج قوم کی ہمراہی میں ملک کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کرنے کی کامل استعداد رکھتی ہے۔ پاکستان کا مسلمان اسلامی تہذیب وثقافت کے ساتھ وابستہ ہے اور یہاں کا خاندانی نظام اسلامی اخلاقیات اور شرم وحیاکا ترجمان ہے۔ بزرگوں کے احترام اور بچوں سے پیار اور محبت پر مبنی یہ خاندانی نظام اسلامی طرز زندگی کی ترجمانی کرتا ہے۔
پاکستان میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے قسم ہا قسم کی نعمتوں کو پیدا کیا ہے ۔ یہاں کے پھل خوش ذائقہ ‘پھول خوش نما اور موسم انتہائی خوشگوار ہیں۔ پاکستان میں موسم سرما کی شدت ‘ موسم گرما کی حدت‘ خزاں کا پت جھڑ اور بہار کی کھلکھلاتی ہوئی ساعتیں انسانوں کے اذہان و قلوب پر مختلف طرح کے اثرات کو مرتب کرتی ہیں۔ میدانی علاقے ہوں یا صحرا ‘ پہاڑ ہوں یا سبزہ زار ‘ دریا ہوں یا نہریں یہ تمام قدرتی مناظر پاکستان کی خوبصورتی کو ہر لحاظ سے نمایاں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں بسنے والے مسلمان جہاں پر اطمینان اور خوشی سے اپنی زندگیوں کو گزار رہے ہیں وہیں پر مملکت خداداد میں رہنے والے اقلیتیں بھی امن وسکون سے زندگی بسر کر رہی ہیں۔
اس پرسکون ‘ خوشگوار اور پرمسرت ماحول کے باوجود پاکستان کو تاحال مختلف طرح کے مسائل کا سامنا ہے جن کا ازالہ کرنا ازحد ضروری ہے۔ کتاب وسنت کی عملداری کی یقین دہانی کے باوجود پاکستان کے مختلف شہروں میں جسم فروشی کاکاروبار جاری ہے ‘ بڑے ہوٹلوں میں شراب کی خریدوفروخت بھی ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں سودی بینکاری کے کاؤنٹر بھی کھلے ہوئے ہیں جو یقینا کتاب وسنت کی تعلیمات سے انحراف ہے۔ اس انحراف سے پاکستان کو بچانے کے لیے ریاست اور حکومت پاکستان کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان تمام منکرات پر پابندی لگائے اور ریاستی نظام کو کتاب وسنت کے سانچے میں ڈال کر صحیح طور پر پاکیزہ انداز میں چلایا جائے۔ سیاسی حوالے سے بھی ملک میں بہتری کی ضرورت ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک کئی انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا جا چکا ہے۔ 1970ء کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے ملک بہت بڑے سانحے سے دوچار ہو چکا ہے۔ 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد چلنے والی تحریک کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کے بانی رہنما ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی حکومت سے محروم ہونا پڑا۔ 2013 ء کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ملک میں ایک بڑی تحریک چلائی جس سے ملک میں سیاسی اعتبار سے عدم استحکام کی فضا پیدا ہو گئی۔ 2018ء کے انتخابات کو مسلم لیگ ن‘ پیپلزپارٹی اور جے یو آئی نے دھاندلی زدہ قرار دیا اور ملک بھر میں بڑے بڑے اجتماعات ا نعقاد کیا۔ غیر جانبدارانہ انتخابات کا انعقادکروانااور عوامی مینڈیٹ کو صحیح طور پر عوام تک منتقل کرنا ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے اوراس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے ریاست کو اپنے تمام تر وسائل اور افرادی قوت کو بروئے کار لانا چاہیے۔ ملک میں امن وامان کی صورتحال ایک عرصے سے خراب ہے ‘ قتل وغارت گری‘ چوری ڈکیتی‘ جنسی ہراسیت‘ زناکاری اور بدکرداری کے واقعات عام ہیں۔ ان واقعات کی روک تھام کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنی ذمہ داریوں کو بطریق احسن نبھانا چاہیے تاکہ ریاست حقیقت میں ایک مثالی فلاحی ریاست میں تبدیل ہو سکے اور اس ضـمن میں اسلامی حدودتعزیرات کے نظام سے ہرصورت استفادہ کرنا چاہیے تاکہ ملک میں جرائم کی بیخ کنی ہو سکے اور عوام امن وامان سے اپنی زندگیوں کو گزار سکیں۔
ملکی معیشت بھی ایک عرصے سے بحرانوں کا شکار ہے جس کے تدارک کے لیے ہر حکومت نے مختلف پالیسیوں کا اعلان کیا لیکن اس حوالے سے تاحال کوئی مؤثر پیش رفت نہیں ہو سکی۔ اس بحران کی بنیادی طور پر دو بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک میں بڑے پیمانے پر کرپٹ عناصر موجود ہیں جو ملکی خزانے کو بڑی بے دردی سے نگل رہے ہیں ۔ان کااحتساب کرنا انتہائی ضروری ہے لیکن یہ عناصر اپنے اثرورسوخ اور لمبے ہاتھوں کی وجہ سے ہمیشہ قانون سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ایسے عناصر کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے تاکہ ملکی خزانے کو لوٹنے سے روکا جا سکے۔ معاشی مسائل کی دوسری بڑی وجہ سودی نظام ہے سودی نظام سے نجات حاصل کرنا اس لیے انتہائی ضروری ہے کہ سودی لین دین درحقیقت اللہ اورا س کے رسولؐ سے اعلان جنگ ہے اور اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ جنگ میں انسان ہمیشہ ناکام اور نامراد رہتا ہے۔
اگر مذکورہ بالا امور میں حکومت اور ریاست اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرے تو انشاء اللہ مملکت خداداد ایک مثالی فلاحی ریاست کی حیثیت سے دنیا میں ابھر سکتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو مل جل اپنے ملک کو مضبوط اور مستحکم بنانے کی توفیق دے ۔ آمین