تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب بڑے مقاصد کے لیے انسان کوشاں رہتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ جلد یا بدیر اسے کامیابی سے ہمکنار کر دیتے ہیں۔ جب ہم انسانی تاریخ پر غور کرتے ہیں تو اس میں بہت سی شخصیات ایسی نظر آتی ہیں جنہوں نے اپنے کردار وعمل سے ہمیں جہدِ مسلسل کا سبق دیا۔ انبیاء کرام علیہم السلام کا کردار اس حوالے سے ہمارے لیے ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی جماعت انسانوں میں سے یقینا سب سے بلند اور برگزیدہ جماعت ہے اور اس جماعت میں سے صاحبِ شریعت رسل اللہ اور اولوالعزم رسولوں کا مقام انتہائی نمایاں ہے۔ اولوا لعزم رسل اللہ نے اپنے کردار وعمل سے اس بات کو واضح کیا کہ بلند مقاصد کے لیے انسان کو ہمہ وقت کوشاں رہنا چاہیے اور راستے میں آنے والی مشکلات کو خاطر میں نہیں لاناچاہیے۔ حق کے راستے پر چلنے کے دوران آنے والی تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہیے ۔
حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو برس تک اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی اور قوم کے معاندانہ رویے کے باوجود آپ علیہ السلام پوری استقامت سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے پیغام کو ان تک پہنچاتے رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی جدوجہد کو سورہ نوح کی آیات 5تا 9میں بڑے ہی خوبصورت انداز میں انہی کے الفاظ میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے : ''انہوں (نوح) نے کہا: میرے رب ! بے شک میں نے دعوت دی اپنی قوم کو رات اور دن۔ سو نہیں زیادہ کیا انہیں میری دعوت نے مگر (حق سے دور) بھاگنے ہی میں۔ اور بے شک میں نے جب (بھی) دعوت دی انہیں تاکہ تو معاف کرے ان کو‘ انہوں نے ڈال لیں اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں اور اوڑھ لیے اپنے کپڑے اور اڑ گئے اور انہوں نے تکبر کیا‘ خوب تکبر۔ پھر بے شک میں دعوت دی انہیں بلند آواز سے۔ پھر بے شک میں نے علانیہ (دعوت) دی ان کو اور میں نے خفیہ (دعوت) دی ان کو‘ بالکل خفیہ‘‘۔ ان آیات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کے لوگوں کو زندگی کے طویل روز و شب کے دوران ہر قسم کی تکلیفوں کو سہنے کے باوجود تسلسل سے توحید کی دعوت دی۔
جب ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت وکردار پر غور کرتے ہیں تو آپ علیہ السلام کی سیرت بھی جہدِ مسلسل کی ایک تصویر نظر آتی ہے۔ آپ علیہ السلام نے جوانی میں بت کدے میں کلہاڑے کو چلاکر اور بتوں کو توڑ کر اللہ کی توحید اور کبریائی کی دعوت عملی طور پر دی۔ آپ کی قوم کے لوگ اجرامِ سماویہ کی پوجا کیا کرتے تھے ۔آپ علیہ السلام نے سورج ، چاند ، ستارے کے زوال کو واضح کر کے ان کی پرستش سے برأت کا اظہار کیا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی تخلیق اور صناعی کو واضح کیا کہ یقینا کائنات کو بنانے والا فقط ایک پروردگار ہے۔ آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی توحید کے لیے نمرود کی بھڑکائی گئی آگ میں اترنا گوارا کرلیا ۔ دربارِ نمرود میں اس کے رعب اور دبدبے کی پروا کیے بغیر صدائے حق کو بلند فرمایا اور اس کے سامنے اس دلیلِ قطعی کو رکھا کہ اللہ تعالیٰ وہ ہے جو سورج کو مشرق سے لے کر آتا ہے اگر تو رب ہے تو سورج کو مغرب سے لے کر آ۔ اس دلیلِ محکم کے سامنے نمرود لا جواب ہو گیا۔ آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے محبتوں کی بہت سی قربانیاں دیں۔ آپ نے سیدہ ہاجرہ اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو وادیٔ بے آب وگیاہ میں چھوڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے آپ علیہ السلام حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلانے پر بھی آمادہ وتیار ہو گئے۔ آپ علیہ السلام نے زندگی کے تما م امتحانوں کے دوران اپنے آپ کو یکطرفہ ثابت کیاحتیٰ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کی بے مثال کامیابی کا خود اعلان فرما دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 124میں ارشاد فرماتے ہیں : ''او ر جب آزمایا ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں سے تو اس نے پورا کر دیا اُن کو‘ فرمایا (اللہ نے:) بے شک میں بنانے والا ہوں تجھے لوگوں کا پیشوا‘‘۔
جب ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سیرت وکردار پر غور کرتے ہیں تو آپ علیہ السلام کی شخصیت بھی پیہم جستجو کی ایک تصویر نظر آتی ہے ۔ آپ علیہ السلام نے فرعون کی رعونت، قارون کے سرمایے، شداد کی جاگیر اور ہامان کے منصب کی پروا کیے بغیر اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی برسر عام دعوت دی۔ وقت کے حکام اور بااثر لوگوں کے رعب اور دبدبے کی پروا کیے بغیر آپ علیہ السلام اپنے مشن پر پوری شدومد سے گامزن رہے۔فرعون ، ہامان اور ان کے لشکر نے آپ علیہ السلام کو مرعوب کرنے کی بہت کوشش کی لیکن آپ استقامت کی چٹان بنے رہے اور تمام تر تکالیف اور مشکلات کوخندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو آپ کی قوم کے ہمراہ فرعون کے ظلم سے نجات دی اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرقِ آب کر دیا اور رہتی دنیا تک کے لیے آپ علیہ السلام کی استقامت اور اولوالعزمی کی ایک علامت بن گئے۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے بھی بستی والوں کی مخالفت اور عداوت کی پروا کیے بغیر اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کا پیغام برسر عام دیا۔ اسی طرح نبی آخر الزماں حضرت رسول اللہﷺ کی زندگی‘ جو ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے‘ جہدِ مسلسل کی ایک تصویر بنی نظر آتی ہے۔ آپﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، آپﷺ کے گلوئے اطہر میں چادر کو ڈال کر کھینچا گیا، حالت سجدہ میں آپ کو اذیتیں دی گئیں، شعب ابی طالب کی گھاٹی میں محصور کیا گیا، طائف کی وادی میں آپﷺ کو لہو رنگ کیا گیا، آپﷺ کو اپنے رفقاء سمیت مکہ کو خیرباد کہنا پڑا، آپﷺ کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کے لیے جنگیں لڑنا پڑیں۔ اس جستجو اور جدوجہد کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کو غلبہ عطا فرمایا اور آپﷺ کے تمام اعداء اور مخالفین کو آپﷺ کے سامنے مغلوب کر دیا۔ نبی کریمﷺ نے اس موقع پر تکالیف اور اذیتیں دینے والے اور شقاوت اور بدبختی کا مظاہرہ کرنے والے دشمنوں کے لیے سرعام معافی کا اعلان فرما کر اخلاق اور کردار کی ایسی مثالوں کو قائم کیا جو آج تک انسانیت کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔
تاریخِ انسانی اس بات پر شاہد ہے کہ مختلف ادوار میں بڑی بڑی شخصیات اپنے سچے نظریات سے والہانہ وابستگی کا عملاً اظہار کرتی رہیں۔ قیا م پاکستان کی تاریخ بھی ہمارے سامنے ہے کہ کس انداز میں قائدین تحریک پاکستان نے آزادی کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے جستجو کی۔ ہندو کسی قیمت پر بھی تقسیم ہند کو گوارہ کرنے پر تیار نہیں تھے لیکن مسلمانوں کی جہدِ مسلسل رنگ لائی اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک آزاد مملکت کا حصول ہمارے لیے ممکن بنا دیا۔
جدوجہد اور جستجو کی ایک کامیاب مثال حالیہ ایام میں افغان طالبان کا افغانستان پر غالب آنا ہے۔ دو عشرے قبل امریکا اور مغربی قوتوں نے پوری یکسوئی اور یکجہتی کے ساتھ افغانستان پر فوج کشی کرکے اپنی دانست میں افغان طالبان کو ختم کر دیا تھا لیکن افغان طالبان نے مسلسل جدوجہد اور کاوشوں کے ذریعے رائے عامہ کو بیدار کیے رکھا اور دو دہائیوں کے بعد ایک مرتبہ پھر افغانستان پر غالب آ کر دنیا کو یہ منظر دکھایا کہ جدوجہد کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ آزادی کے لیے کی جانے والی یہ کامیاب جدوجہد یقینا ان تمام تحریکوں کے لیے ایک مثبت پیغام ہے جو دنیا میں آزادی کے لیے برسرپیکار ہیں۔ اہلِ فلسطین، اہلِ کشمیر اور اہلِ برما ایک عرصے سے ظلم جبر اور استبداد کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ کئی مرتبہ حالات کا جبر ان علاقوں میں برسرپیکار رہنماؤں اور کارکنان میں ناامیدی اور مایوسی کی کیفیت بھی پیدا کر دیتا ہے لیکن ان تحریکوں کے لیے بھی افغانستان کی موجودہ تبدیلی میں ایک مثبت پیغام ہے کہ اگر جدوجہد جاری رکھی جائے تو جلد یا بدیر‘ انسان منزل پر ضرور پہنچ جاتا ہے۔ بانیٔ پاکستان نے بھی ہمیں کام ، کام اور کام کرنے کا سبق دیا۔ اگر ہم کتاب اللہ ، سنت رسول اللہﷺ اور تحریک پاکستان کے اکابرین کے اقوال کو اپنے لیے مشعل راہ بنا کر اپنی قوم کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کی کوشش کریں تو یقینا ہمارا ملک بھی ایک مثالی ریاست کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو مثبت نظریات کے لیے پوری استقامت سے کام کرنے کی توفیق دے، آمین!