مولانا ادریس مدنی‘ جو ایک عرصے سے برطانیہ کے شہر گلاسکو میں مقیم ہیں‘ نے برطانیہ میں رہتے ہوئے جہاں تبلیغِ دین کے فریضے کو انجام دیا وہیں اپنی اولاد کی بھی نہایت اچھے انداز سے تربیت کی۔ ان کی دینی اور دنیاوی تعلیم سے آراستہ اولاد کو دیکھ کر ہر شخص متاثر ہوتا ہے کہ برطانیہ میں رہتے ہوئے بھی انہوں نے اپنی اولاد کی تربیت کس قدر احسن انداز میں کی ہے۔ میں جب بھی برطانیہ جاتا ہوں مولانا صاحب سے بھی ملاقات کا موقع میسر آتا ہے۔ حال ہی میں مولانا پاکستان تشریف لائے اور اپنے بیٹے کی شادی کی تقریب میں مجھے بھی مدعو کیا۔ 22 اگست کو مغرب کی نماز کے بعد ہونے والی اس تقریب میں دینی ذوق رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ شادی ہال میں بکثرت سنجیدہ اور پُروقار لوگ جمع تھے۔ اس تقریب میں موقع کی مناسبت سے مولانا ادریس مدنی نے مجھے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی دعوت دی۔ میں نے اس موقع پر شرکائے مجلس کے سامنے جن خیالات کا اظہار کیا‘ان کا خلاصہ قارئین کے سامنے بھی رکھنا چاہوں گا:
اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بے پایاں ہیں اور جس نعمت پر بھی غورکیا جائے وہ بے مثال نظر آتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمین پر انسانوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بہترین سامان پیدا فرمایا ہے ؛ چنانچہ سورہ بقرہ کی آیت 29 میں ارشاد ہوا: ''وہی تو ہے جس نے سب چیزیں‘ جو زمین میں ہیں‘ تمہارے لیے پیدا کیں‘‘۔جب ہم اللہ تبارک وتعالیٰ کے انعامات پر غور کرتے ہیں تو ہر سو پھیلی ہوئی اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتیں ہمیں حیران اور ششدر کر دیتی ہیں۔ انسان کی بھوک کو دور کرنے کے لیے ایک طرح کی غذابھی کافی تھی لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے انواع وقسم کے اناج، پھلوں، سبزیوں اور گوشت کو پیدا فرما کر انسان کی خوراک میں تنوع پیدا کیا۔ انسان کی پیاس بجھانے کے لیے فقط پانی کافی تھا لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے دودھ، جوس اور انواع واقسام کے مشروبات کو پیدا فرما کر انسان کی تشنگی کو بہت اچھے انداز میں دور فرمایا۔ انسان کے تن کو ڈھانکنے کے لیے ایک ہی قسم کا لباس کافی تھا لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے لباس میں بھی تنوع کو پیدا کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کائنات میں فقط سفید اور سیاہ رنگ کو بھی پید ا فرما سکتے تھے لیکن انسان کی بصارت کی تسکین کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے قسم ہا قسم کے رنگوں کو پیدا کیا۔ یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتیں بے پایاں ہیں اور انسان ان کو شمار کرنا چاہے تو بھی شمار نہیں کر سکتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 34میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو کچھ تم نے مانگا سب میں سے تم کو عنایت کیا۔ اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو۔ (مگر لوگ نعمتوں کا شکر نہیں کرتے) کچھ شک نہیں کہ انسان بڑا بے انصاف اور ناشکرا ہے‘‘۔اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ رحمن میں بہ تکرار اعلان فرمایا: ''تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟‘‘
جب ہم اللہ تبارک وتعالیٰ کے انعامات پر غور کریں تو ان میں سے ایک بہت بڑا انعام نیک اور صالح شریکِ زندگی کا میسر آ جانا ہے۔ نیک اور مخلص شریکِ زندگی کے میسر آنے سے یقینا انسان زندگی کے نشیب وفراز کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ روم کی آیت نمبر21 میں انسانوں کے جوڑوں کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ''اور اسی کے نشانات (اور تصرفات) میں سے ہے کہ اُس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس کی عورتیں پیدا کیں تاکہ اُن کی طرف (مائل ہوکر) آرام حاصل کرو اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کر دی، جو لوگ غور کرتے ہیں اُن کے لیے ان باتوں میں (بہت سی) نشانیاں ہیں‘‘۔
اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یقینا ایک اچھی شریک زندگی کا حصول اللہ تبارک وتعالیٰ کی نشانیوں اور نعمتوں میں سے ایک ہے۔ اسی طرح احادیث مبارکہ میں اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ دنیاکے بہترین سامان میں سے ایک نیک عورت بھی ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
مسند احمد میں سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: دنیاساری کی ساری متاع ہے اور دنیا کا بہترین سرمایہ نیک عورت ہے۔ اسی سے ملتے جلتے الفاظ میں یہ حدیث سنن ابن ماجہ میں اس طرح مذکور ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: دنیا متاع (سامان) ہے، اور دنیا کے سامان میں سے کوئی بھی چیز نیک اور صالح عورت سے بہتر نہیں ہے۔
نیک بیوی کے خصائص کو بھی کتبِ احادیث میں بڑے خوبصورت انداز میں واضح کیا گیاہے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
سنن نسائی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا: کون سی عورت بہتر ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ''وہ عورت کہ جب خاوند اسے دیکھے تو وہ اسے خوش کر دے۔ اور جب اسے کوئی حکم دے تو وہ اس کی اطاعت کرے اور اپنے نفس اور مال میں اس کی مخالفت نہ کرے جسے وہ ناپسند کرتا ہو‘‘۔
یہ حدیث بیوی کی ذمہ داریوں کاتعین کرتی ہے کہ اس کو اپنے شوہر کی اطاعت کرنی چاہیے اور نفس اور مال کے سلسلے میں شوہر کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔
کتاب وسنت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ نے شوہر کے حقوق کو مقرر کیا ہے‘ وہیں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے عورت کے بھی بہت سے حقوق مقرر فرمائے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 228 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے۔ البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے۔ اور خدا غالب (اور) صاحبِ حکمت ہے‘‘۔اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے عورتوں کو بھی بہت سے حقوق عطا فرمائے ہیں۔
قرآن وسنت کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا چاہیے، اس حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 19میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور ان کے ساتھ اچھی طرح رہو سہو‘ اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور خدا اس میں بہت سی بھلائی پیدا کردے ‘‘۔
قرآنِ مجید کی اس آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مردوں کو عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک، ان کے ساتھ ظلم اور زیادتی والے رویے کو اختیار کرنے سے باز رہنا چاہیے، ان کی جائز خواہشات کی تکمیل کے لیے وسائل فراہم کرنے چاہئیں اور ان کے لیے مناسب رہائش، لباس اور نان نفقے کا بھی انتظام کرنا چاہیے۔ اسی طرح اس بات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ زندگی کے طویل روز وشب کے دوران انسانوں میں اگر کسی موقع پر آراء کا اختلاف ہو جائے تو اس رائے کے اختلاف کی وجہ سے نفرت اور کشیدگی کو پیدا کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔ یقینا رسول اللہﷺ کی زندگی ہم سب کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کو کائنات کی بہترین بیویاں عطا فرمائی تھیں۔ حضرت خدیجۃ الکبری ؓنے نبی کریمﷺ کی حمایت میں اپنے مال اور اسباب کو وقف کیے رکھا، آپﷺ کے جملہ امور میں معاون رہیں، آپﷺ کے دکھ درد بانٹتی رہیں اور آپﷺ کی زندگی میں آنے والی تکالیف کو شدت سے محسوس کرتی رہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی ایک محبت کرنے والی بیوی ثابت ہوئیں،آپؓ رسول اللہﷺ کی ہمراہی میں رہتے ہوئے علم وحکمت کے موتیوں کو جمع کرتی رہیں اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نبی کریمﷺ کی تعلیمات سے آگاہ فرماتی رہیں۔
جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺکو بہترین، خدمت گزار اور وفا شعار بیویاں عطا فرمائیں‘ وہیں نبی کریمﷺ بھی اپنی بیویوں کے ساتھ پیار اور محبت والا برتاؤ فرماتے تھے۔ نبی کریمﷺ گھریلو اُمورمیں اپنے اہلِ خانہ کا بھرپور ساتھ دیا کرتے تھے اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک فرمایا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ نے اس بات کوواضح فرمایاکہ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے والا ہو اور میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ بہترین سلوک کرنے والا ہوں۔ یقینا آپﷺ کی گھریلو زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے کہ آپﷺ نے زندگی کے طویل روز وشب کے دوران اپنے گھروالوں کے ساتھ شفقت، محبت اور معاونت والا معاملہ رکھا۔
اگر کتاب وسنت میں مذکور تعلیمات کو مدنظر رکھا جائے تو یقینا ہمارے گھر مثالی گھروں کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ گھروں میں بگاڑ کی بڑی وجہ خودغرضی، حد سے بڑی ہوئی انانیت اور دوسروں کے حقوق سے غفلت ہے۔ اگر ہم ایثار، قربانی، خلوص اور معاونت والے رویوں کو اپنائیں تو ہمارے گھر محبت اور خلوص والے گھروں میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کے گھروں کو امن وسکون کا گہوارہ بنائے، آمین !