"AIZ" (space) message & send to 7575

تین قیمتی افراد

دنیا میں جو شخص بھی آیا ہے‘ اس کو ایک دن اس فانی جہان سے رخصت ہونا پڑے گا،لیکن بعض افراد اپنے کارہائے نمایاں کی وجہ سے دنیا سے چلے جانے کے باوجود ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی جدوجہد، قربانیوں اور اپنے مشن سے والہانہ وابستگی کی وجہ سے آنے والی نسلوں کے لیے تحریک کا سبب بن جاتے ہیں اور ان کی جہدِ مسلسل اور استقامت کی داستانیں پڑھ کے انسانوں میں جدوجہد کی رغبت پیدا ہوتی ہے۔ انہی لوگوں میں سے ایک نمایاں شخصیت سید علی گیلانی کی تھی۔
سید علی شاہ گیلانی جموں و کشمیر کے نمایاں سیاسی رہنما تھے، گوآپ کا تعلق جماعت اسلامی کے ساتھ تھا لیکن اپنی خدمات کی وجہ سے آپ پورے مقبوضہ کشمیر کے نمائندہ رہنما سمجھے جاتے تھے۔ضلع بارہ مولہ کے قصبے سوپورسے تعلق رکھنے والے یہ عظیم رہنما پوری زندگی کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے لیے برسر پیکار رہے۔ آپ نے جدوجہد آزادی کے لیے ایک الگ جماعت ''تحریک حریت‘‘ بھی بنائی تھی جوکل جماعتی حریت کانفرنس کا ایک دھڑا ہے۔ بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی معروف عالمی مسلم فورم ''رابطہ عالم اسلامی‘‘کے بھی رکن تھے۔ آپ یہ رکنیت حاصل کرنے والے پہلے کشمیری رہنما تھے۔جدوجہد آزادی کے ساتھ والہانہ وابستگی کی وجہ سے طویل عرصہ قید و بند اور نظر بندی میں گزارا۔بھارتی حکومت نے آپ کے موقف کو تبدیل کرنے کے لیے آپ کو بہت سی جسمانی اور ذہنی اذیتیں دیں لیکن سید علی گیلانی اپنے موقف سے دستبردار نہ ہوئے اور وہ ہر حالت میں کشمیر کے الحاقِ پاکستان کی حمایت کرتے رہے۔ اپنی زندگی کے نو عشرے انہوں نے بھر پور انداز میں گزارے اور تحریک آزادیٔ کشمیر کی مؤثر انداز میں قیادت کرتے رہے۔ آپ حالات کے مدوجزر سے لمحہ بھر کے لیے بھی متاثر نہ ہوئے۔ کشمیر میں بڑے بڑے جلسوں، اجتماعات اور ریلیوں سے خطاب کرنے کے ساتھ ساتھ یومِ کشمیر پر پاکستان میں ہونے والے بہت سے مظاہروں سے بھی خطاب کرتے رہے۔ ان کی وفات سے یوں محسوس ہوا کہ کشمیر ی قوم اپنے ایک مشفق سرپرست سے محروم ہو چکی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے حریت پسندوں نے آپ کی جدائی کو بڑے گہرے انداز میں محسوس کیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر اور پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں نے بھی آپ کی جدائی اور رحلت پر رنج وغم کا اظہار کیا گیا۔
سید علی گیلانی ایک ہمہ جہت شخصیت تھے ‘ جہاں پر آپ نے مجاہدِ آزادی کی حیثیت سے بھرپور زندگی گزاری‘ وہیں پر علم وادب سے بھی گہرا شغف رکھتے رہے۔ علامہ اقبال کے بہت بڑے مداح تھے۔ آپ نے اپنے دورِ اسیری کی یادداشتیں ایک کتاب کی صورت میں تحریر کیں جس کا نام ''رودادِ قفس‘‘ ہے۔اس قسم کی کتابیں پڑھنے کے بعد انسان جہاں پر نظریاتی زندگی میں آنے والی تکالیف کی شدت سے آگاہ ہوتا ہے وہیں پر اس میں سرفروشی کے جذبات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ سید علی گیلانی کی رحلت میرے لیے بھی صدمے کا باعث ہے۔مرکزِقرآن وسنہ لارنس روڈپر نمازِ جمعہ کے بعد ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی جس میں کثیر تعدا د میں لوگوں نے شرکت کرکے دردِ دل سے ان کے لیے دعا مانگی۔ سید علی گیلانی کی جدوجہد ہر اعتبار سے قابلِ تحسین ہے ‘ ان کی جدائی کے موقع پر اہل پاکستان کو کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کشمیری اس وقت بھارتی ظلم وبربریت کا کس شدت سے نشانہ بنے ہوئے ہیں اور کس بے تابی سے آزادی کی صبح کا انتظار کر رہے ہیں۔ سید علی گیلانی کی وفات کے بعد ایک مرتبہ پھر ''تجدیدِ عزم ‘‘ کی ضرورت ہے کہ کشمیریوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ آزمائش کی اس گھڑی میں وہ تنہا نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم اُن کے ساتھ ہے۔
ستمبر ہی کے مہینے میں قاری عبدالمتین اصغر اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے۔ قاری عبدالمتین اصغر شادباغ لاہور سے تعلق رکھنے والے نمایاں عالم دین تھے۔ آپ نے پوری زندگی تبلیغ دین اور کتاب وسنت کے ابلاغ کے لیے وقف کیے رکھی اور اس حوالے سے موسموں کے حالات اور تغیر کی پروا کیے بغیر اپنے مشن پر سختی سے کاربند رہے۔ قاری عبدالمتین اصغر صاحب سے میرے تعلقات کئی عشروں پہ محیط تھے۔ مختلف تقریبات میں آپ سے ملاقات ہوتی رہتی اور ایک دوسرے کے ساتھ دین کی نسبت سے تعلقات کی تجدید اور استحکام کا موقع ملتا رہتا۔ مرکزی جمعیت اہلحدیث کے زیر اہتمام ہر سال 23 محرم الحرام کو بیگم کوٹ چوک میں ''فضائل صحابہ کرامؓ‘‘ کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس سال بھی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں دیگر مقررین کے ساتھ ساتھ مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا۔ اس موقع قاری عبدالمتین اصغر بھی مقررین میں شامل تھے۔ قاری صاحب کتاب اللہ، سنت رسول اللہﷺ اور فضائل صحابہ کرامؓ کے حوالے سے بہترین انداز میں خطاب کر رہے تھے۔ابھی آپ کے خطاب کو چند ہی منٹ گزرے ہوں گے کہ آپ کی طبیعت ناساز ہو گئی لیکن آپ نے طبیعت کی ناسازی کے دوران بھی اپنے خطاب کو جاری رکھا اور سورہ حجرات کی آیت نمبر3 ''یہی (وہ لوگ ہیں) کہ جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے لیے آزمایا ‘ ان کے لیے مغفرت اور بہت بڑا اجر ہے‘‘، کو تلاوت کرتے کرتے اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے۔ اس آیت مبارکہ کی تلاوت کرتے ہوئے قاری عبدالمتین اصغر کا دنیا سے رخصت ہو جانا یقینا بہت بڑی خوش نصیبی کی بات ہے۔انسان کے لیے اس سے بڑ ھ کر سعادت کی کیا بات ہو سکتی ہے کہ وہ اس حالت میں دنیائے فانی سے کوچ کرے کہ اس کے لبوں پر اپنے خالق ومالک کا کلام ہو اور وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی باتوں کو لوگوں کے سامنے رکھ رہا ہو۔
قاری عبدالمتین اصغر کی موت پر معاشرے کے تمام طبقات نے گہرے رنج وغم کا اظہار کیا اور نہ صرف یہ کہ پاکستان میں ان کی موت پر مختلف طبقات نے رشک کا اظہار کیا بلکہ عرب علماء اور عرب میڈیا نے بھی اس سانحے کو نمایاں انداز میں نشر اور شائع کیا اور لوگوں کو رغبت دلائی کہ انسانوں کو ہر لحظہ اور ہر لمحہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی یاد میں مشغول رہنا چاہیے۔ اگر انسان یادِ الٰہی میں مشغول رہے گا تو اس بات کے امکانات بڑھ جائیں گے کہ اس کو موت آئے تو اس حالت میں کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے ذکر میں مصروف ومشغول ہو۔ قاری عبدالمتین اصغر کے ساتھ میری بہت سی خوشگوار یادیں وابستہ ہیں ‘وہ جب بھی ملتے بہت ہی پیار، محبت، خلوص اور متانت سے پیش آتے۔ ان کے ملنے کے انداز میں ایک شفیق دوست اور بڑے بھائی کی جھلک نمایاں ہوتی تھی۔ وہ دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں لیکن ان کی یادوں کی خوشبو آج بھی ذہن میں سمائی ہوئی ہے اور ان کی خوبصورت موت نے اس بات کا احساس دلایا ہے کہ انسان کو اپنے آپ کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی تبلیغ اور نشرواشاعت کے لیے وقف کیے رکھنا چاہیے تاکہ انسان کو موت آئے تو وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کی حالت میں ہو۔
تیسری اہم شخصیت جو ان ایام میں دنیا سے رخصت ہوئی وہ مولانا اللہ وسایا کے جواں سال بیٹے تھے۔ مولانا اللہ وسایا کی ختم نبوتﷺ اور حرمت رسول اللہﷺ کے حوالے سے نمایاں خدمات ہیں۔ جواں سال بیٹے کی وفات یقینا ہر باپ کے لیے بہت بڑے صدمے کا سبب ہوتی ہے۔ مولانا اللہ وسایا کے لیے بھی پیرانہ سالی میں جوان بیٹے کی جدائی بہت بڑے دکھ اور کرب کی خبر ہے۔ جواں سال بیٹے کی وفات کو پاکستان کے تمام مذہبی حلقوں نے بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا اور مولانا کے لیے دل کی گہرائیوں سے دعا کی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو اس سانحے پر صبر کرنے کی توفیق دے۔
اموات کے یہ واقعات یقینا ہماری آنکھوں کو کھولنے کے لیے کافی ہیں کہ ہم دنیا میں ہمیشہ کی زندگی گزارنے کے لیے نہیں آئے بلکہ ہماری دنیاوی زندگی کا ایک مقصد ہے کہ ہم زندگی کو اس طریقے سے گزاریں جس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے حبیبﷺ نے گزارنے کا حکم دیا ہے۔ اگر ہم نے زندگی کو صحیح انداز میں گزارا تو یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ کے ہاں اجروثواب کی کوئی کمی نہیں لیکن اگر ہم نے زندگی کی ان ساعتوں کو ضائع کر دیا تو یقینا یہ بہت بڑی محرومی کی بات ہو گی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان اموات سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنی زندگی کی سمت کو درست کرنے کی توفیق دے اور جو دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں ان کے درجات کو بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، آـمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں