"AIZ" (space) message & send to 7575

مضبوط اور مستحکم پاکستان

کسی بھی ملک کی مضبوطی کے لیے اس کے جغرافیے اورنظریے کااستحکام انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان کے جغرافیے کے تحفظ کے لیے افواجِ پاکستان اور پاکستان کے دفاعی ادارے اپنی ذمہ داریوں کو بطریقِ احسن نبھا رہے ہیں۔ 6 ستمبر کا دن ہمیں 1965ء کے اس معرکے کی یاد دلاتا ہے جب بھارت اپنی عسکری طاقت کے نشے میں دھت ہو کر پاکستان کی آزادی اور خود مختاری پر شب خون مارنے کے لیے مکمل منصوبہ بندی کر چکا تھا لیکن پاکستان کی بہادر افواج نے بھارت کے اس حملے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ پاکستانی عوام نے افواجِ پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا۔ جہاں افواجِ پاکستان دشمن کے مقابلے پر برسرپیکار تھیں‘ وہیں پاکستانی عوام بھی ان کے مورال کو بلند کرنے کے لیے نہ صرف یہ کہ ان کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے بلکہ عملی طور پر بھی اپنی جانوں کی قربانیاں دینے کے لیے آمادہ وتیار تھے۔ بھارت لاہور اور سیالکوٹ کے سیکٹر پر پیش قدمی کرتے ہوئے اپنی دانست میں پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی ناپاک سازش تیار کر چکا تھا لیکن اس کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا گیا۔ 6 ستمبر کے بعد پاکستان دفاعی اعتبار سے ترقی کی منازل طے کرتا رہا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے آج پاکستان ایٹمی صلاحیت اور جدید میزائل ٹیکنالوجی کا حامل اسلامی ملک ہے اور اپنے دفاع کے لیے اپنی بساط کی حد تک مکمل تیار ہے۔ افواجِ پاکستان اور پاکستانی عوام کے درمیان دفاعِ وطن کے حوالے سے کسی قسم کی خلیج نہیں پائی جاتی اور جب بھی کبھی پاکستان کے بارے میں کسی جانب سے ناپاک ارادوں کا اظہار کیا جاتا ہے‘ پاکستانی فوج اور قوم ایک ہی پیج پر نظر آتے ہیں۔
پاکستان کے ناقابلِ تسخیر دفاع کے پس منظر میں ایمانی اور جہادی قوت کا نمایاں ترین کردار ہے۔ جذبۂ ایمانی کسی بھی قوم کے مورال کو بلند کر دیتا ہے اور شہادت کی تمنا قوم کے باسیوں میں اسلامی ریاست کے دفاع کی ایسی تڑپ پیدا کر دیتی ہے کہ وہ دشمن کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملانے کے لیے ہمہ وقت آمادہ وتیار رہتے ہیں۔ مسلمان اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں اپنی جان قربان کرنے کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جائے گا۔ اس کے سامنے اللہ تبارک وتعالیٰ کے مبارک کلام کی وہ آیات ہوتی ہیں جو شہداء کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نازل کی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 154میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور مت کہو ان کو جو قتل کئے جائیں اللہ کی راہ میں ، مردہ بلکہ وہ زندہ ہیں، لیکن تم شعور نہیں رکھتے‘‘۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیات 169تا 170میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور ہر گز نہ سمجھنا ان لوگوں کو‘ جو قتل کیے جاتے ہیں اللہ کی راہ میں (کہ وہ) مردہ ہیں، بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے پاس سے رزق دیے جاتے ہیں۔ خوش ہیں (اُس) پر جو اللہ نے ان کو دیا ہے اپنے فضل سے ۔ وہ خوش ہو رہے ہیں ان لوگوں سے جو (ابھی) نہیں پہنچے ان کے پاس ان کے پچھلوں میں سے یہ کہ (قیامت کے دن) نہ اُن پر کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غم ناک ہوں گے‘‘۔ تاریخ شاہد ہے کہ ان آیاتِ مبارکہ میں بیان کردہ حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمانوں نے اپنی ملت اور سرحدوں کے دفاع کے لیے کبھی بھی کسی قربانی دینے سے دریغ نہیں کیا۔
جہاں پر پاکستان کے جغرافیے کے دفاع کے لیے پاکستان کے دفاعی ادارے اپنا کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں وہیں پر نظریۂ پاکستان کے دفاع کے لیے پاکستان کے دینی اورمذہبی رہنما ، ادارے اور جماعتیں اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہٗ نبھانے کی جستجو کر رہی ہیں۔ جب بھی کبھی ملک میں حرمت رسول اللہﷺ، ختم نبوت اور اسلامی اقدار کے خلاف کوئی سازش کی گئی‘ علمائے دین نے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ 7 ستمبر1974ء کا دن ہمیں اس عظیم کارنامے کی یاد دلاتا ہے جب پاکستان کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر اس بات کو طے کیا کہ جو حضرت رسول اللہﷺ کی ختم نبوت کو تسلیم نہیں کرتا‘ وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ قومی اسمبلی کے اس متفقہ فیصلے سے قبل ختم نبوت کو پاکستان کے آئین کا حصہ بنانے کے لیے تمام مکاتبِ فکر کے جید علمائے کرام نے بے مثال قربانیاں دیں۔ رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے اہلحدیث، بریلوی اور دیوبندی علماء برسرپیکار رہے۔ ابتدائی طور پر سید عطا اللہ شاہ بخاری، مولانا ثناء اللہ امرتسری، پیر مہر علی شاہ ، مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی اور مولانا داؤد غزنوی نے اس تحریک کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ بعدازاں مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا عبدالستار نیازی، مولانا مفتی محمود اور علامہ احسان الٰہی ظہیر نے اس تحریک کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے رائے عامہ کو زبردست انداز میں ہموار کیا۔ پورے ملک میں ہونے والے جلسوں، جلوسوں اور اجتماعات کے ذریعے حکومتِ وقت تک عوام کے اس مطالبے کو پہنچایا گیا کہ عوام الناس نبی کریمﷺ کی ختم نبوت پر کسی بھی قسم کا سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
تاریخ اسلام اس بات پر شاہد ہے کہ نبی کریمﷺ کی آمد کے بعد جتنے بھی لوگوں نے جھوٹا دعویٰ نبوت کیا‘ وہ شرمندگی اورناکامی سے دوچار ہوئے؛ چنانچہ مسیلمہ کذاب، اسودعنسی، راشد الخلیفہ، علیجاہ محمد، حسین علی مازندانی، علی محمد باب، غلام احمد قادیانی ، یوسف کذاب، اور احمد عیسیٰ کو اپنے ان دعوؤں میں بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلمانوں نے عقیدۂ ختم نبوت کے دفاع کا سبق قرآن وسنت سے حاصل کیا ہے۔ قرآنِ مجید کی متعدد آیات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کے بعد کسی نبی کے آنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ اس حوالے سے اہم ترین آیت مبارکہ سورہ احزاب کی آیت نمبر 40 ہے‘ ارشاد ہوا: ''نہیں ہیں محمدﷺ باپ تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے‘ لیکن (وہ) اللہ کے رسول اور خاتم النبیین (آخری نبی) ہیں اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والاہے‘‘۔ یعنی جس طرح رسول اللہﷺ کسی مرد کے باپ نہیں‘ اسی طرح آپﷺ کے بعدکوئی نبی بھی نہیں ہوسکتا۔ ختم ِنبوت کا انکارکرنے والے گروہ نے آیت میں ''خاتم النبیین‘‘ کا ترجمہ نبیوں کی مہرکرکے لوگوں کو دھوکا دینے کی کوشش کی ہے کہ اس آیت میں خاتم النبیین سے مراد آخری نبی نہیں، حالانکہ ہرذی شعوراس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ کسی چیز پر مہر اس کی تکمیل کے بعد ہی لگائی جاتی ہے۔جب کسی پیمانے یا دستاویز کو سیل بند کردیا جاتا ہے تو مہرکوتوڑے بغیراس میں کسی چیزکو داخل نہیں کیا جاسکتا۔ جب نامکمل چیز پر مہر نہیں لگ سکتی اور مہر لگ جانے کے بعد اس میں کوئی چیز داخل نہیں ہوسکتی تو یہ بات بھی بالکل واضح ہوگئی کہ رسول اللہﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہوگیا اور آپﷺ کے بعداب کوئی نبی نہیں آ سکتا۔
یہ گروہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ دنیا میں تشریف آوری کو بنیاد بناکر لوگوں کو دھوکا دینے کی کوشش بھی کرتا ہے کہ اگرحضرت رسول اللہﷺکے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیونکرآئیں گے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت حضرت رسو ل اللہﷺ سے پہلے ملی تھی اور آپ علیہ السلام کے زندہ آسمانوں کی طرف اٹھائے جانے کے بعد اس دنیا میں دوبارہ نازل ہونے سے حضرت رسول اللہﷺ کے بعدکسی نئے شخص کو نبوت ملنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ نبوت کا دروازہ بند ہونے سے قبل ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی تھے۔ نبوت کا دروازہ بند ہوجانے کے بعدکسی نئے نبی کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔
جہاں قرآن مجید نے مسئلہ ختم نبوت کو واضح کردیا‘ وہیں احادیث مبارکہ سے بھی اس مسئلے کی خوب وضاحت ہوتی ہے۔ اس حوالے سے دو اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔صحیح بخاری و صحیح مسلم‘ مسند احمد بن حنبل اور سنن الکبریٰ بیہقی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: میری اور سابق نبیوںکی مثال ایک شخص کی سی ہے‘جس نے ایک خوب صورت گھر بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھو ڑ دی۔ لوگ اس گھرکو دیکھ کراس کی خوبصورتی پر تعجب کرتے ہیں‘ مگر کہتے ہیں کہ کیا خوب ہو اگر اینٹ اپنی جگہ پر لگا دی جائے‘ پس میں وہ اینٹ ہوں اور میں آخری نبی ہوں۔
2۔صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی‘ جب تک تیس بڑے جھوٹے نہیں آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہوگاکہ وہ اللہ کا رسول ہے۔
احادیث طیبہ میں جہاں اس مسئلے کو واضح کیا گیا‘ وہیں پر اجماعِ امت کے ذریعے بھی اس مسئلے کی توثیق ہو چکی ہے اور اب جو شخص بھی اس مسئلے میں انحراف کا راستہ اختیار کرتا ہے‘ اس کو مسلمان کہلانے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ 7ستمبر کا دن اس اعتبار سے تجدیدِ عزم کا بھی دن ہے کہ پاکستان کی قوم جہاں اپنے وطن کے دفاع کے لیے پوری ہوشیار اور بیدار ہے‘ وہیں پاکستان کے عوام اپنے عقیدے کے تحفظ اور دفاع کے لیے بھی پوری طرح تیار ہیں۔ 7ستمبر 1974ء کے بعد بھی‘ جب کبھی اس قسم کی سازش منظر عام پر آئی جس میں حضورﷺ کی ختم نبوت اور آپﷺ کی حرمت و ناموس پر حملہ کرنے کی ناپاک جسارت کی گئی تو مسلمانوں نے متحد اورمنظم ہو کر ان تمام سازشوں کو ناکام بنایا۔ پاکستان کے جغرافیے اور نظریے کے دفاع کے لیے قوم کے جذبات اورمورال کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ پاکستان ایک مضبوط اور مستحکم ریاست کی حیثیت سے ترقی کی منازل طے کرنے کے تمام لوازمات اور امکانات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ۔اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے اور اس کو اندرونی وبیرونی دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ فرمائے، آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں