ملک میںدینی اور سیاسی جماعتیں اہم مواقع پر بڑے پروگراموں کا انعقاد کرتی رہتی ہیں۔ 7 ستمبر 1974ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا تھا۔ ہر سال مختلف مذہبی جماعتیں اس حوالے سے تجدیدِ عزم کے لیے جلسے،جلسوں اور اجتماعات کا اہتمام کرتی ہیں۔امسال بھی اس حوالے سے 7 ستمبر کو مینارِپاکستان گراؤنڈ میں عالمی مجلس تحفظ ختمِ نبوت کے زیرِ اہتمام ایک عظیم الشان اجتماع کا انعقاد کیا گیا۔ اس پروگرام میں ملک کے طول وعرض سے ہزاروں کی تعداد میں عوام نے شرکت کی۔ مینار ِپاکستان پر ہونے والے اس اجتماع میں عوام کا جوش دیدنی تھا۔ عوام مقررین کی تقاریر کو نہایت توجہ سے سماعت کر رہے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ مقررین کی باتوں کی بھرپور انداز میں تائید بھی کر رہے تھے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم ِ نبوت کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ اپنے اجتماعات میں تمام مکاتبِ فکر کے جید علماء کو شرکت کی دعوت دیتی ہے۔ اس اجتماع میں بھی مختلف مکاتبِ فکر کے جید علما کرام نے فکر انگیز خطابات کیے۔ مجلس کے سربراہ حافظ ناصر الدین خاکوانی نے اس موقع پر دین داری کی اہمیت کو اجاگر کیا اور عوام سے مخاطب ہو کر کہا کہ اگر ہم اللہ تبارک وتعالیٰ کے اوامر اورنواہی کی تعمیل کریں گے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی تائید اور نصرت ہمارے شاملِ حال ہو گی۔ انہوں نے اس موقع پر افغانستان میں ہونے والی مثبت تبدیلیوں کی تائید بھی کی اور عوام کی توجہ اس سمت مبذول کروائی کہ اگر جدوجہد مثبت انداز میں جاری رکھی جائے تو جلد یا بدیر کامیابی ضرور حاصل ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ وہ لوگ جن کو اپنی دانست میں امریکا اور اس کے ساتھی ختم کر چکے تھے‘ وہ دوبارہ غالب آ جائیں گے؟ انہوں نے کہا کہ مثبت نتائج حاصل کرنے کے لیے حوصلہ، ہمت اور توانائی کی ضرورت ہوتی ہے‘ ہمیں مایوسی سے اجتناب کرنا چاہیے اور پُراُمید رہتے ہوئے اعلیٰ اہداف کی طرف پیش قدمی جاری رکھنی چاہیے۔ اس موقع پر مولانا امجد خان اور سید ضیاء اللہ شاہ بخاری نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور عقیدہ ختمِ نبوت کی اہمیت کو اجاگر کیا اور اس کاز کے لیے عوام سے متحرک رہنے کی اپیل کی۔ میں نے بھی اس موقع پر اپنی چند گزارشات سامعین کے سامنے رکھیں جنہیں میں قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں:
پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اور اس کی بنیاد دین اور کلمۂ طیبہ پر رکھی گئی ہے۔ اس ریاست کی جہت کو درست سمت میں رکھنے کے لیے ہمیں ختمِ نبوت اور ناموسِ رسالت جیسے معاملات پر غیر معمولی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تمام مکاتبِ فکر کے جید علما نے ختمِ نبوت کی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے نمایاں کردار ادا کیا۔ نتیجتاً 7ستمبر 1974ء کو ختمِ نبوت کے منکر دائرۂ اسلام سے خارج قرار پائے۔ ہمیں بھی اپنے اکابرین کی روایات کو آگے بڑھاتے ہوئے ختم نبوت سے انحراف کرنے والے عناصر پر کڑی نظر رکھنی چاہیے۔ اس حوالے سے اربابِ اختیار کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ پاکستان کے آئین میں کی جانے والی رخنہ اندازی کی کوئی بھی کوشش اُمت مسلمہ اور اسلامیانِ پاکستان کے لیے ناقابل قبول ہے۔ سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام اپنی اپنی اقوام کے رہنما تھے‘ جبکہ رسول اللہﷺ کی نبوت آفاقی، عالمگیر اور دائمی ہے۔ قیامت کی صبح تک اب کسی نئے نبی کے آنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ہمیں عقیدۂ ختم نبوت کی پاسداری کے لیے جہاں مذہبی اجتماعات، جلسوں اور پروگراموں میں دلائل کے ساتھ عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے‘ وہیں ہمیں ابلاغی اور سیاسی اعتبار سے بھی عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے اپنی توانائیوں کو بھر پور اندازمیں صرف کرنے کی ضرورت ہے اور نسلِ نو کو اس عقیدے کی اہمیت سے روشناس کرانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ عقیدۂ ختم نبوت اور ناموسِ رسالت کے حوالے سے نوجوانوں کی ذہن سازی اس اعتبار سے اہم ہے کہ ان عقائد کی نشرواشاعت کا کام آنے والی نسلیں بھی اچھے طریقے سے انجام دے سکیں۔
اس گفتگو کو تمام احباب نے دل جمعی سے سنا اور ان گزارشات کی بھرپور انداز میں تائید کی۔ عصر کے وقت شروع ہونے والا یہ اجتماع رات گئے تک جاری رہا۔ نظم وضبط کے اعتبار سے یہ ایک مثالی اجتماع تھا اور جلسے کے برخاست ہونے تک شرکا نے تمام مقررین کی گفتگو کو نہایت انہماک سے سنا اور یوں یہ اجتماع اپنے جلو میں بہت سی خوشگوار یادوں کولیے ہوئے اختتام پذیر ہوا۔
ستمبر کا مہینہ ہمیں ختم نبوت اور دفاعِ وطن کے ساتھ ساتھ قائداعظم کی بے مثال خدمات اور کارہائے نمایاں کی یاد بھی دلاتا ہے۔ 11 ستمبر کا دن بانی ٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کا دن ہے‘ یہ دن ہمیں اس عظیم شخصیت کی یاد دلاتا ہے جس نے ایک عظیم نظریاتی ریاست کی بنیاد کے لیے اپنی زندگی کا ایک قابلِ ذکر حصہ وقف کیا اور اس ضمن میں مرکزی کردار ادا کیا۔ مسلمانانِ برصغیر کی رہنمائی اور ان کی بیداری کے لیے آپ کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔اسی پسِ منظر میں اہل حدیث یوتھ فورس پنجاب نے لاہور سے خانپور تک 12 ستمبر کو ایک بڑے ٹرین مارچ کا انعقاد کیا۔ اس ٹرین مارچ کی قیادت یوتھ فورس کے رہنما فیصل افضل شیخ، حافظ عامر صدیقی، سلمان اعظم اور حافظ قسیم شیخوپوری کر رہے تھے۔اس ٹرین مارچ سے خطاب کرنے کے لیے پروفیسر ساجد میر، رانا شفیق خان پسروری، ڈاکٹر عبدالغفور راشد کے ساتھ ساتھ راقم الحروف کو بھی دعوت دی گئی۔ لاہور ریلوے سٹیشن پر کارکنان کی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔ اس موقع پر پروفیسر ساجد میر نے برصغیر کی تقسیم کی بنیاد کو واضح کیا کہ یہ تقسیم اتفاقی نہیں تھی بلکہ اس تقسیم کی بنیاد ایک نظریہ تھا اور اس نظریے کی پاسداری کے لیے قوم کے نوجوانوں کو بیدار اور ہوشیار رہنا ہو گا۔ میں نے اپنے خطاب میں اس بات کو اجاگر کیا کہ پاکستان ایک کثیر القومی ریاست ہے لیکن اس کی اقوام کے درمیان مذہب کا مضبوط جڑاؤ موجود ہے جو پاکستان میں بسنے والی تمام اقوام کو ایک دوسرے کے ساتھ متحد رکھ سکتا اور ان کو علم اور دلائل کی بنیاد پر آگے بڑھنے کا راستہ دکھاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی کتاب اور حضرت رسول اللہﷺ کی سنت مبارکہ‘ دونوں زندگی کے تمام شعبوں میں کامل رہنمائی کرتی ہیں۔ قیامِ پاکستان کا مقصد یہی تھا کہ ایک ایسی ریاست حاصل کی جائے جہاں پر انفرادی اور اجتماعی معاملات میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ سے رہنمائی حاصل کی جا سکے۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے ہزاروں افراد نے بے مثال قربانیاں دی تھیں لیکن یہ دکھ اور تاسف کا مقام ہے کہ اس نظریاتی ریاست کو بعض لوگ فقط ایک قومی ریاست میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں حالانکہ پاکستان کا آئین اور دستورِ پاکستان کتاب وسنت کی عملداری کی ضمانت دے چکا ہے۔ ہمیں رائے عامہ کو ان تمام سازشوں سے آگاہ کرنا چاہیے جن کے نتیجے میں ملک کے نظریاتی تشخص اور اس کی ساکھ کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے دشمن عرصۂ دراز سے پاکستان کو قومیتوں اور زبان کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے درپے ہیں لیکن دین کی بنیاد پر پوری قوم متحد اورمنظم ہے۔ مذہبی ہم آہنگی قومی اور لسانی تنازعات کی وجہ سے لگنے والے زخموں پر مرہم کاکردار ادا کرتی ہے۔ وہ قومیں جو اپنے نظریات سے وابستگی رکھتی ہیں‘ دنیا میں زندہ قوموں کی حیثیت سے باقی رہتی ہیں اور جو اقوام اپنے نظریات کو فراموش کر دیتی ہیں وہ قصۂ پارینہ بن جاتی ہیں؛ چنانچہ ہمیں پاکستان کی بقا اور ترقی کے لیے اس کے نظریاتی تشخص کو بھرپور طریقے سے اجاگر کرنا ہوگا۔ اس موقع پر نوجوانوں نے بھرپور انداز سے نظریۂ پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ ٹرین مارچ لاہور سے خانپور کی طرف روانہ ہوا اور مختلف مقامات پر عوام کی کثیر تعداد نے قائدین کا استقبال کیا۔ خانپور کے سٹیشن پر ختم ہونے والے اس اجتماع نے مختلف مقامات پر مؤثر انداز میں رائے عامہ کو بیدار کیا۔ نوجوانوں کو نظریۂ پاکستان کی طرف متوجہ کرنے والا یہ پروگرام یقینا بہت سی اچھی روایت کو قائم کرنے کا ذریعہ اور سبب بنا۔ یہ ٹرین مارچ بھی بہت سی یادوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ اس کارواں نے مارچ میں شریک نوجوانوں کو نظریۂ پاکستان سے وابستگی کا جو سبق دیا اسے پوری قوم کے نوجوانوں کو اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارا ملک ایک اسلامی، فلاحی اور مثالی ریاست کی شکل اختیار کر سکے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ وطن عزیزکو قائم اور دائم رکھے اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن فرمائے، آمین !