اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآنِ مجیدمیں اس حقیقت کو واضح فرما دیا کہ دین اللہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک فقط اسلام ہی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر 19میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے اور نہیں اختلاف کیا ان لوگوں نے جنہیں دی گئی کتاب مگر اس کے بعد کہ آچکا تھا ان کے پاس علم (وحی) (اس کی وجہ محض) ان کی باہمی ضد تھی اور جو انکار کرتاہے اللہ کی آیات کا تو بے شک اللہ جلد حساب چکانے والا ہے‘‘۔ سورہ آلِ عمران ہی میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو بھی واضح فرما دیا جو غیرِ اسلام کوبطور دین اختیار کرے گا قیامت کے دن گھاٹے کا شکار ہو جائے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر 85میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو تلاش کرے اسلام کے سوا (کوئی اور ) دین‘ تو ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اس سے‘ اوروہ آخرت میں خسارہ پانے والے لوگوں میں سے ہو گا‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ فلاح کا راستہ متعین کر دیا گیا ہے اور جو شخص بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کا طلب گار ہے اس کو دینِ اسلام کے راستے کو اختیار کرنا چاہیے تاکہ وہ اُخروی سرفرازی سے ہمکنار ہو سکے۔
دینِ حق کی ترویج بہت ہی عظیم کام ہے اور اس کام کی انجام دہی کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے مختلف زمانوں میں انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔ انبیاء کرام علیہم السلام نے پوری تندہی سے اس عظیم فریضے کو انجام دیا اور اعدائے دین کی مخالفتوں کے باوجود اس عظیم کام کو بطریقِ احسن انجام دیتے رہے۔ دینِ حق کی نشروا شاعت کے عظیم الشان فریضے کی ادائی کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کوبطور خاتم النبیین منتخب فرمایا۔ نبی کریمﷺ نے اسلام کی دعوت وتبلیغ کے لیے ہر قسم کی تکالیف، اذیتوں اور مشقتوں کو برداشت کیا۔ اعدائے دین آپﷺ کی مخالفت پر کمربستہ رہے لیکن آپﷺ پوری خندہ پیشانی اور استقامت کے ساتھ ان کی طرف سے ملنے والی تکالیف کو برداشت کرتے رہے۔ آپﷺ کے راستے میں کانٹوں کو بچھایا گیا‘ حالتِ نماز میں آپﷺ کو اذیت کا نشانہ بنایا گیا‘ آپﷺ کو طائف کی وادی میں لہو لہان کر دیا گیا‘ آپﷺ کو شعب ابی طالب کی گھاٹی میں محصور کر دیاگیا‘ آپﷺ کو شہرِ مکہ سے دینِ اسلام کے ساتھ وابستگی اور اس کی ترویج میں شدید مخالفت کی وجہ سے ہجرت کرنا پڑی‘ آپﷺ نے ادھیڑ عمر میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے جہاد کیا‘ آپﷺ پر کفار نے بہت سی جنگیں مسلط کرنے کی کوشش کی۔ نبی کریمﷺ نے اپنے اصحاب ؓ کے ہمراہ ان جنگوں میں نہایت استقامت اور جرأت سے حصہ لیا اور اعدائے دین کی سازشوں کے تاروپود کو بکھیر کر رکھ دیا۔
نبی کریمﷺ نے دین کی دعوت کو ہر شخص تک پہنچانے کے لیے مؤثر ترین تدابیر کو اختیار کیا۔ انفرادی دعوت کے ساتھ ساتھ اجتماعی دعوت کے لیے بھی مضبوط حکمت عملی اختیار کی۔ جہادی معرکوں میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ آپﷺ حکمرانوں اور رؤسا کے ساتھ دعوتِ دین کے لیے خط وکتابت بھی فرماتے رہے۔ آپﷺ نے مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت کے لیے اپنے سفیر وں اور نمائندوں کو روانہ کیا۔ آپﷺ کے صحابہ کرامؓ بھی لوگوں کو دین کی دعوت دیتے رہے۔ دین کی اس دعوت کو قبول کرنے والے لوگوں میں نوجوانوں کے ساتھ ساتھ عورتیں، بچے، بوڑھے اور کمزور افراد بھی شامل تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے تبلیغِ دین کی برکت سے جزیرۃ العرب میں دین کو اس انداز میں پھیلا دیا کہ وہی لوگ‘ جو مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے‘ خود بھی حلقہ بگوشِ اسلام ہو گئے اور انہی لوگوں میں سے بہت ساروں نے اپنے آپ کو تبلیغ دین کے لیے وقف کیے رکھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں دین کی طرف دعوت دینے کو احسن ترین عمل قرار دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حم سجدہ کی آیت نمبر 33میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور کون زیادہ اچھا ہے بات کے لحاظ سے اُس سے جو اللہ کی طرف بلائے او ر نیک عمل کرے‘‘۔ دعوتِ دین کے اس عمل کے احادیثِ طیبہ میں بھی بہت سے فضائل بیان کیے گئے ہیں اور حدیث شریف کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت کے راستے پر آنے والا ہر شخص دین کی دعوت دینے والے کے لیے صدقۂ جاریہ کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔
اسلام کی تبلیغ کا سلسلہ عہدِ رسالت مآبﷺ سے لے کر آج تک جاری و ساری ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد آئمہ دین،محدثین کرام اور علمائے دین ہر عہد میںاس ذمہ داری کو نبھاتے رہے۔ ماضی قریب میں ڈاکٹر احمد دیدات نے اس حوالے سے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اگر ہم اپنے گردوپیش پر نظر دوڑائیں تو اس وقت بھی تبلیغ کا کام کرنے والے لوگ دنیا بھر میں اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو بطریق احسن نبھا رہے ہیں۔ ہندوستان کے ڈاکٹر ذاکر نائیک، امریکا میںیوسف ایسٹس(Yusuf Estes)، انگلستان میں یوسف چیمبرز اور عبدالرحیم گرین نے تبلیغ دین کے فریضے کو نہایت احسن انداز میں انجام دیا ہے۔ ڈاکٹر ابو امینہ اور بلال فلپس بھی اس حوالے سے نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان تمام مبلغین کی تبلیغ سے مغربی معاشروں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ حلقہ بگوشِ اسلام ہو رہے ہیں۔ اسلام قبول کرنے والے لوگوں میں نوجوانوں کے ساتھ ساتھ خواتین اور کم عمر لوگوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ مغربی معاشروں میں اگرچہ مذہب کے حوالے سے جانبداری پائی جاتی ہے‘ اس کے باوجود لوگ بڑی تعداد میں دینِ اسلام کو قبول کر رہے ہیں۔
پاکستان دین کے نام پر بننے والی ریاست ہے اور اس کا مذہب اسلام ہے۔ ریاست پاکستان میں دعوتِ دین کا کام کرنا یقینا ہر اعتبار سے قابلِ قدر اور لائقِ تحسین ہے لیکن گزشتہ چند دنوں سے ملنے والی خبروں سے ملک میں ایک تشویش کی لہر دوڑ چکی ہے کہ حکومت ایک ایسے بل پر کام کر رہی ہے جو بظاہر تو تبدیلیٔ مذہب کو جبراً روکنے کا بل ہے لیکن عملاً اس بل کے پاس ہونے کی صورت میں اسلام قبول کرنے کا عمل انتہائی مشکل اور پیچیدہ ہو جائے گا۔ اس بل کی شقوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ 18 برس سے کم عمر کا کوئی شخص بھی اسلام کو قبول نہیں کر سکتا۔ یہ بات اسلام کی اساس اور تاریخ سے یکسر متصادم ہے۔ تاریخِ اسلام سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بہت سے صحابہ کرام ؓ نے کم عمری میں اسلام کو قبول کیا اور اسلام کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔ اس بل میں 18 برس سے زائد عمر والے کے لیے بھی مختلف طرح کی پیچیدگیوں کو پیدا کر دیا گیا ہے اور اسلام قبول کرنے کا ارادہ رکھنے والے شخص کو 90 دن تک تقابلِ ادیان کے مطالعے کا پابند بنا کر اس کو اسلام کے قریب لانے کے بجائے نفسیاتی طور پر اسلام سے دور کرنے کی کوششیں کی جار ہی ہیں۔
قبولیت اسلام کو آسان بنانا ایک نظریاتی ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن 18 برس سے کم عمر شخص پر اسلام کے دروازوں کو بند کرنا اور 18برس سے بڑی عمر کے شخص کے لیے تقابلِ ادیان کے مطالعے کو ضروری قرار دے کر اس کو 90 دن تک کے انتظار کا پابند بنانا کسی بھی طور درست نہیں ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص تقابلِ ادیان کے مطالعے کے بعد اسلام قبول کرنے سے انکاری ہو جائے تو اسلام کی تبلیغ کرنے والے مبلغ کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ تما م باتیں کسی بھی طور پر اسلامی ریاست کے شایانِ شان نہیں ہیں کہ ایک طرف تو ''میرا جسم‘ میری مرضی‘‘ کے نعرے لگائے جا رہے ہیں،جنسی آزادیوں اور اپنی مرضی سے تبدیلیٔ جنس کی باتیں ہو رہی ہیں اور دوسری طرف تبلیغِ مذہب کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرکے لوگوں کو اسلام سے برگشتہ کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ یہ کام مغربی ممالک کے حکمران بھی انجام نہیں دے سکے۔
مغربی ممالک میں اسلام کے حوالے سے مکمل جانبداری سے کام لیا جاتا ہے لیکن وہاں کی مساجد اور اداروں کے ذریعے ہر برس ہزاروں کی تعداد میں لوگ اسلام قبول کرتے ہیں۔ اُمید ہے کہ پاکستان کی حکومت اس حوالے سے اپنے اقدامات پر نظرِ ثانی کرے گی اور مذہبی جماعتوں میں پائی جانے والی تشویش کے ازالے کے لیے مؤثر اقدامات کرے گی تاکہ ملک میں اس حوالے سے پائی جانے والی بے چینی اور اضطراب دور ہو سکے اور اسلام قبول کرنے والوں کے لیے معاملات کو آسان بنایا جا سکے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے ملک کے نظریاتی تشخص کی حفاظت فرمائے اور اس کو اغیار کی سازشوں سے محفوظ فرمائے، آمین !